قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واپس آئینگے یا نہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاہ کارناموں کے پیش نظر پاکستان کا رخ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے اگر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اپنا ریوالور دشمن کو پیش کرنیوالا جرنیل واپس آ کر بقیہ زندگی آرام سے گزار سکتا ہے اور فوجی اعزازات کے ساتھ دفن ہو سکتا ہے تو پرویز مشرف کیوں نہیں آ سکتے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کراچی آکر اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کے طفیل انتخابات لڑیں اور جیت بھی جائیں!
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف واپس آ جاتے ہیں اور حکومت بھی سنبھال لیتے ہیں تو کیا وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتے ہیں؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تو نو سال کے عرصہ میں کر گزرتے! یہ ایک الزامی جواب ہے اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس وقت پرویز مشرف ایک ڈکٹیٹر تھے۔ اب حکومت میں آئے تو کوئی منشور کوئی پروگرام لے کر آئیں گے!
خوش گمانی ایک ایسی بیماری ہے جو وہم سے زیادہ مہلک ہے۔ وہم کا مریض بچ نکلتا ہے کیونکہ وہم حفاظتی اقدامات پر اکساتا رہتا ہے۔ خوش گمانی کا مریض ’’سب اچھا ہے‘‘ کہتا ہے اور سو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورتحال ایسی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر صومالیہ اور افغانستان کے برابر سمجھا جا رہا ہے۔ جمہوریت اور خواندگی کے حوالوں سے جو سروے سامنے آ رہے ہیں ان میں ہم سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہیں۔ سیاست دان جو کچھ کر رہے ہیں اور جتنے پانی میں ہیں‘ سب کے سامنے ہے۔ ہنسی اور رونا ایک ساتھ آتے ہیں۔ ایک طرف خبر ہے کہ مسلم لیگوں کا اتحاد اور ادغام ہو رہا ہے۔ وہی لوگ جو 9سال پرویز مشرف کیساتھ رہے‘ ملک ’’بچانے‘‘ کیلئے پیر صاحب پگارا کو نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ اس خبر کیساتھ ہی ایک خبر ہے کہ غربت سے مجبور ہو کر باپ نے بچوں کو مار ڈالا اور خود کشی کر لی۔ یوں لگتا ہے مسلم لیگ کے رہنما ایک اور ہی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ ایم این اے حضرات تین گنا زیادہ امیر ہو چکے ہیں اور ان کے اثاثے کھربوں میں ہیں۔ دوسری طرف ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات کو وزیر خزانہ بے نقط سناتے ہیں اور انہیں ایک پائی دینے کو تیار نہیں۔ تیسری طرف آزاد کشمیر کی حکومت لاکھوں روپے اشتہاروں پر خرچ کر رہی ہے جن میں وزیر اعظم اپنے مجاہدِ اول والد گرامی کی تصاویر کو نمایاں طور پر شائع کرا رہے ہیں! لاقانونیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایف سی کے اہلکار ایک بس ڈرائیور اور کنڈکٹر کو مارتے پیٹتے ہیں ڈرائیور پولیس کو مدد کیلئے پکارتا ہے پولیس والے آتے ہیں لیکن ایف سی کے اہلکار پولیس کے ایس ایچ او ہی کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ گویا بقول غالب …؎
ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
وکیل ایک امید بن کر ابھر رہے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پاتال سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ ابھی لاہور والا سانحہ لوگوں کی یاد سے محو نہیں ہوا جس میں پوری وکیل برادری اپنے بھائی کی ’’مدد‘‘ کیلئے قانون کو پامال کرنے پر تل گئی تھی پھر خبر آئی کہ ایک وکیل صاحب نے جج کو جوتا دے مارا کیونکہ ان کے موکل کا کام نہیں ہو رہا تھا۔ اب تازہ مژدہ سننے میں یہ آیا ہے کہ وکیلوں نے اینٹیں مار مار کر گجرات میں ایک شخص کو جان سے دے مارا۔ پورے ملک میں وکیلوں کی کسی تنظیم نے احتجاج میں چوں تک نہیں کی!
مذہبی لحاظ سے لوگوں کو محنت اور اکل حلال کے بجائے یہ افیون کھلائی جا رہی ہے کہ روحانی شخصیات نے کہہ دیا ہے کہ حالات ٹھیک ہونیوالے ہیں۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ غیب کا علم وہ صرف اپنے رسولوں پر ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی کہ صرف اسی قوم کی حالت بدلے گی جس کو اپنی حالت خود بدلنے کی دھن ہو گی لیکن بزعمِ خویش روحانیت کے مالک اس سے اتفاق نہیں کرتے پھر ہر روحانی شخصیت نے پریس میں اپنے اپنے ٹھیکے دار چھوڑ رکھے ہیں جو مسلسل تشہیر کر رہے ہیں اور بے چارے عوام یہ تک نہیں جانتے کہ روحانی شخصیات وہ ہوتی ہیں جو اپنی تشہیر کرتی ہیں نہ اپنی روحانیت کا اعلان کرتی ہیں۔ مبلغین کی حالت یہ ہے کہ عام پاکستانیوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن فنکاروں‘ کھلاڑیوں اور اداکاروں کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا جہاں مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہاں زیادتی بھی کر رہا ہے۔ ہارے ہوئے سیاست دانوں کو جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں بار بار سامنے لایا جا رہا ہے ایک صاحب جو نو سال تک پرویز مشرف کا پاندان یا اگالدان رہے‘ ٹی وی پر یہ کہتے سنے گئے کہ جب سے پاکستان بنا ہے عوام کو بار بار بے وقوف بنایا جا رہا ہے!
ملک کو زبوں حالی کے اندھے غار سے نکالنے کیلئے ایک ایسی قیادت درکار ہے جو کم از کم پانچ اقدامات کرے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو کم سے کم ہیں اور حل کے بغیر سنبھلنا ناممکن ہے۔ اول زرعی اصلاحات‘ جو بھارت نے 1951ء میں ہی کر ڈالی تھیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے وڈیروں اور بلوچستان کے سرداروں کی موجودگی میں یہ ملک جہنم سے جنت بن سکتا ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے۔ ایک ایسی قیادت جو غداروں کے خاندانوں سے برطانیہ کی دی ہوئی جاگیریں واپس لے‘ لے گی ملک کی نجات دہندہ ہو گی۔ دوم‘ دولت کا حساب‘ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کھرب پتیوں نے قوم کو نصیحتیں کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ سیاست دان ہوں یا بیورو کریٹ یا سابق جرنیل‘ صنعت کار ہوں یا تاجر سب سے ایک ایک پائی کا حساب لئے بغیر حالات میں کوئی تغیر نہیں آ سکتا۔ ملک ایسی قیادت کا انتظار کر رہا ہے جو باہر رکھی ہوئی دولت کو واپس منگوائے اور انکم ٹیکس نہ دینے والوں کے گلے میں پٹے ڈالے۔ سوم‘ تعلیم کے میدان میں طبقاتی تقسیم ختم کر کے پورے ملک میں متوازن تعلیمی نظام کا اجرائ۔ ایک طرف امراء کے گراں بہا ادارے ہیں اور دوسری طرف مدارس جن میں غریب طبقات کے بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ چار نظام ہائے تعلیم کو ختم کر کے ایک نظامِ تعلیم اپنانے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔ چہارم‘ مذہبی لاقانونیت کا خاتمہ‘ مذہبی لاقانونیت اس صورت حال کو کہتے ہیں جس میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ مدرسہ کھول سکتا ہے‘ مسجد بنا سکتا ہے۔ اپنے نئے فرقے کا ڈول ڈال سکتا ہے اور مسلح یا غیر مسلح گروہ تشکیل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں سعودی عرب‘ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کا ماڈل اپنانا ہو گا جہاں مسجدیں ریاست کے انتظام میں ہیں اور فرقہ واریت مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔
پاکستان میں عدم توازن کا یہ عالم ہے کہ مذہبی مدارس کے مالکان عیش کرتے ہیں لیکن مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں مضحکہ خیز حد تک کم ہیں۔ پنجم‘ حکمرانوں کا عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنا۔ خلفائے راشدینؓ کی یہ سنت آج تقریباً سارے مغربی اور ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ سوئٹرز لینڈ سے لے کر ڈنمارک تک اور برطانیہ سے لیکر نیوزی لینڈ تک حکومتوں اور ملکوں کے سربراہ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور خزانے پر گاڑیوں‘ جہازوں‘ سکیورٹی اور عیاشی کا کوئی بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ ان پر خرچ کیا جانیوالا ایک ایک پیسہ دیکھا جا سکتا ہے اور جس طرح میڈیا اور اپوزیشن ان کی نگرانی کرتی ہے اس کا تصور بھی پاکستان میں اس وقت ناممکن ہے۔
یہ وہ پانچ اقدامات ہیں جن کے بغیر پاکستان موجودہ صورتحال سے ہر گز نہیں نکل سکتا۔
اب ہم واپس اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جس سے کالم کا آغاز ہوا تھا۔ تو کیا پرویز مشرف اس قسم کے اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ انکے نو سالہ دورِ اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کسی خوفِ تردید کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ انہیں قوم کو درپیش مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ انکے پاس وژن ہے نہ اتنی ذہنی استعداد کہ وہ زرعی اصلاحات یا نظام تعلیم جیسے مسائل کو سمجھ سکیں۔ وہ اگر سیاست میں آ بھی گئے تو فاروق لغاری صاحب کی طرح ایک اور سابق صدر ہونگے۔ بس اس سے زیادہ نہ کم!
افسوسناک سچائی یہ ہے کہ بظاہر کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو قوم کو درپیش مسائل کا ادراک کر سکے۔ حکومت کو تو چھوڑ ہی دیجئے کہ اس کا ذکر ہی کیا‘ کیا آپ کو دوسرے رہنماؤں میں کوئی ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو برسرِ اقتدار آنے کے علاوہ کچھ اور سوچ سکے۔ کیا آپکو یاد پڑتا ہے کہ شریف برادران‘ چودھری برادران‘ اعجاز الحق‘ ہمایوں اختر‘ ظفر اللہ جمالی‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ منور حسن‘ مشاہد حسین‘ احسن اقبال‘ مولانا ساجد میر‘ یا کسی اور سیاستدان نے زرعی اصلاحات یا نظامِ تعلیم پر کبھی کوئی بات کی ہو؟ ذہن پر زور ڈالئے‘ نہیں کبھی نہیں … یہ سب وہ رہنما ہیں جو قابلِ احترام ہیں لیکن یہ برسرِ اقتدار آنے اور حریف کو چت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے۔ ان میں سے اکثریت وہ ہے جسے لکھنے پڑھنے سے نفرت ہے۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ ہے نہ بین الاقوامی امور کا … ان میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنے فیصد زرعی زمین آبادی کے کتنے حصے کے پاس ہے؟ آپ ان سے پوچھیں کہ
’’REVERSE BRAIN DRAIN‘‘
کیا ہے؟ بھارت کے تارکین وطن بھارت واپس کیوں آ رہے ہیں؟ بنگلور‘ مدراس اور حیدر آباد دکن پوری ترقی یافتہ دنیا میں کیوں مشہور ہیں؟ گمان غالب یہ ہے کہ آپ کا سوال سن کر ان رہنماؤں کے مسلح باڈی گارڈ‘ اپنی خوفناک مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے آپ پر پل پڑیں گے!! رہے ایم کیو ایم کے رہنما تو وہ کچھ ہفتوں سے جاگیرداری کیخلاف باتیں تو کر رہے ہیں لیکن ایک طویل عرصے سے ہر حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود آج تک انہوں نے زرعی اصلاحات پر کوئی بل یا قرار داد لانے کی بات تک نہیں کی۔ ہمارے دوست فاروق گیلانی کہا کرتے ہیں کہ ایک خشخاش کا دانہ … نو بار پیسا‘ دس بار چھانا‘ اس کا دسواں حصہ کھایا … پیٹ پھول گاگر سا آیا … اس وقت جو قیادت ہمیں میسر ہے اسے ہم نو بار پیس چکے ہیں اور دس بار چھان چکے ہیں اور اب اس فقیر کے بقول …؎
فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں
کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے
http://columns.izharulhaq.net/2010_09_01_archive.html
"