گنجے بندے کی بھی کوئی زندگی ہے؟ اور یہ لفظ ’’گنجا‘‘ کتنا غیر اخلاقی ہے‘ اسے تو فوری طور پر مغلظات کی فہرست میں شامل کردینا چاہیے۔اس سے بھی واہیات لفظ ہے ’’ٹنڈ‘‘۔ لاحول ولا قوۃ! آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ چہرے کے بالوں کو صاف کرانا ’’شیو‘‘ اور سر کے بالوں کو صاف کرانا’’ٹنڈ‘‘ کیوں کہلاتاہے؟؟؟میں نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے سر پر بالوں کی ایک جھالر سی رہ جاتی ہے جسے وہ وقتاً فوقتاً اپنے سر کے خالی حصے پر جما کرکام چلا لیتے ہیں لیکن جن کے جھالر جیسے بال بھی نہیں رہتے وہ کیا کریں؟؟؟کیا گنجا ہونا بری بات ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ میرے بال ابھی سلامت ہیں لیکن کیا جب میں گنجا ہوجاؤں گا تو سب مجھے گنجا کہیں گے؟؟؟ یہ ہے وہ سوال جس نے مجھے آج کا کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے۔اللہ جانتا ہے میں گنجوں کی بہت عزت کرتا ہوں‘ کوئی گنجا میرے قریب سے بھی گذر جائے تو میں اُسے دیکھ کر کبھی نہیں ہنستا بلکہ منہ پہ ہاتھ رکھ لیتاہوں۔ہمارے ایک دوست کو کسی نے دیسی فارمولا تجویز کیا کہ آپ بھینس سے اپنا سر چٹوایا کریں‘ انشاء اللہ ایسے گھنے بال نکلیں گے کہ آپ کو خودیقین نہیں آئے گا۔ انہوں نے فوری طور پر ایک گجر صاحب سے رابطہ کیا اور ایک شریف النفس بھینس کے آگے ایک ہفتے دو زانو ہوکر بیٹھتے رہے‘ اور پھر ایک دن حیرت انگیز طور پر بال نکل آئے۔۔۔بھینس کے!!!
ہمارے ہاں سر کے بال اڑجانا روٹین کی بات ہے‘ لیکن لوگ اسے بہت سیرئس لے جاتے ہیں حالانکہ میں نے کئی ایسے بندے بھی دیکھے ہیں کہ جن کو ٹنڈ اتنی سوٹ کرتی ہے کہ شائد اگر وہ بال رکھ لیں تومزید بُرے لگیں۔میں آج اپنے گنجے دوستوں کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں اترا ہوں اور بتا دینا چاہتا ہوں کہ دوستو! گنجا ہونے کے بہت سے فائدے ہیں‘ کنگھی نہیں خریدنی پڑی‘ جوؤں والا شیمپو بلکہ کوئی بھی شیمپو نہیں لگانا پڑتا‘کنڈیشنر کا خرچہ بھی بچتا ہے‘جیل کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑتا‘ خضاب یا ہیرکلر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘دھول مٹی زیادہ پڑ جائے تو ایک چھوٹی سی گیلی ’’ٹاکی‘‘ سے سر چمکایاجاسکتاہے۔ حجام کی دوکان پر بھی نہیں جانا پڑتا‘گرمیوں میں دماغ ٹھنڈا رہتا ہے‘ تیل کی ایک بوند سے پورے سر کی مالش ہوجاتی ہے‘تولیہ زیادہ جلدی میلانہیں ہوتا‘بار بار شیشے کے سامنے جانے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔گھر کے بچوں کو کھیلنے کے لیے باہر نہیں جانا پڑتا‘روٹی گول کرنے کے لیے بیلنا نہیں خریدنا پڑتا‘خطرے کے وقت بال کھڑے ہونے والی کوئی پریشانی نہیں ہوتی‘زِچ ہونے کی صورت میں بال نوچنے کا بھی احتمال نہیں رہتا‘فارغ وقت میں آٹے کا چھوٹا سا پیڑا بنا کر سر میں گھمانے سے سکون قلب نصیب ہوتاہے‘لڑائی کی صورت میں مخالف فریق کی ناک پر زیادہ اچھی ٹکر ماری جاسکتی ہے‘چھوٹے بچے رو رہے ہوں تو اپنا سر اُن کی بغلوں میں گھسا کر دل دہلا دینے والی گدگدی کی جاسکتی ہے‘پتنگ کا ’’تا‘‘ بڑا اچھا نکالا جاسکتاہے‘ ایمرجنسی کی صورت میں اگرکاغذ دستیاب نہ ہو تو سر پر بھی کوئی ضروری نمبر نوٹ کیا جاسکتاہے بلکہ بغیر دوپٹے‘ ننگے سر کہیں بھی آیا جایا جاسکتاہے۔
میرے ’’گنج ہائے گراں مایہ ‘‘احباب کا خیال ہے کہ وِگ بڑی اچھی چیز ہے حالانکہ میں سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں کہ اس سے خطرناک چیز کوئی نہیں۔ وِگ ایک کمزور پہناوا ہے جو کبھی بھی ‘کہیں بھی دغا دے سکتاہے۔وِگ کا صرف ایک ہی فائدہ ہے کہ بوقت ضرورت لنگر لینے کے لیے کوئی شاپر وغیرہ دستیاب نہ ہو تو اِس میں دو پلیٹ چاول باآسانی آسکتے ہیں۔کئی لوگ مصنوعی بال بھی لگواتے ہیں اور اتنے زیادہ لگواتے ہیں کہ62 سال کی عمر میں’’ینگ بزرگ‘‘ لگنے لگتے ہیں۔سچی بات ہے کہ عمر کا ایک حصہ ایسا ضرور ہوتاہے جب انسان کو زبردستی گنجا ہوجانا چاہیے ۔اگر بال خودبخود نہ اتر رہے ہوں تو دوسری شادی کروالینی چاہیے کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ یوں بھی انسان کا سر’’سراسر‘‘ ہوسکتاہے۔ سر کے بالوں میں سفیدی یا گنج کا ہونا دانشوری کی علامت ہے۔ ہمارے کئی دانشور اس کی ’’سر بولتی ‘‘ تصویر ہیں۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ پریشانیوں سے انسان گنجا ہوجاتاہے۔ یہ غلط ہے کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی توجگہ جگہ گنجی عورتیں نظر آتیں اور یہ شعر کچھ یوں ہوجاتا’’مندی آں کہ چنگی آں۔۔۔ہن تے میں وی گنجی آں‘‘۔
میری تحقیق کے مطابق بال گرنے کا بڑا سبب ایک ہی ہے ۔۔۔جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا۔بازار میں اس وقت بے شمار کریمیں اور لوشن موجود ہیں جن میں گنجا پن ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہوتاہے۔ اور تو اور آپ کسی میڈیکل سٹو رپر جائیں تو باہر ایک بینر پر بڑا سا’’گنجا‘‘ لکھا ہوا بھی نظر آئے گا‘ اس کے آگے چھوٹا سا لکھا ہو گا ’’ہونے سے بچئے‘‘۔ کم بختوں نے دوائی کا نام چھوٹا اور بیماری کا نام بڑا لکھ چھوڑا ہے۔جو دوست گنجا ہورہے ہیں یا ہوچکے ہیں یا ہونے والے ہیں ان سب سے گذارش ہے کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ انشاء اللہ گنجا ہونے کے باوجود آپ نہا بھی سکتے ہیں اور نچوڑ بھی سکتے ہیں۔
بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے گھنے بال لانے کے لیے بار بار اس کی ٹنڈ کروائی جاتی ہے‘ قدرت نے بچوں میں عجب حسن رکھا ہے ‘ یہ ٹنڈ کروا کے اور بھی زیادہ پیارے لگنے لگتے ہیں۔ لیکن جوں جوں ان کی عمریں بڑھتی ہیں یہ ٹنڈ سے نفرت کرنے لگتے ہیں حالانکہ سیانے کہتے ہیں ’’جو مزا ٹنڈ میں۔۔۔نہ شہر میں نہ پنڈ میں‘‘۔ آج کل تو ٹنڈ کا فیشن نکل آیا ہے‘ لیکن حضور! ٹنڈ بھی کسی کسی کو اچھی لگتی ہے‘ میں نے ایک دفعہ ٹنڈ کروائی تو سب احباب نے بہت پسندیدگی کا اظہار کیا‘ ایک بدبخت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا سر‘ منہ سے اچھا نکل آیا ہے۔لہذا اب میں ٹنڈ نہیں کرواتا اور انتظار میں ہوں کہ کب میرے سر پر خزاں اترتی ہے۔لیکن ایک بات طے ہے‘ جس دن میں بھی گنجا ہوا‘ اپنے اردگر دکے تمام گنجے دوستوں کو مشورہ دوں گا کہ ہمیں نئے بال ٹرانسپلانٹ کروا لینے چاہئیں۔
گنجا ہونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کئی لوگوں کی آواز ’’پاٹے ڈھول‘‘ کی طرح ہوتی ہے‘ کئی کنی کھا کر چلتے ہیں‘ کئی اتنے باریک ہوتے ہیں کہ زیادہ روٹی کھا لیں تو دائیں جانب جھک جاتے ہیں۔ کئی کی نظریں ایسی ہوتی ہے کہ رشید کی طرف دیکھیں تولگتاہے مجید کی طرف دیکھ رہے ہیں۔کئی کے دانت اتنے گندے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے صبح اٹھ کر دانت صاف نہیں بلکہ میلے کرتے ہیں‘ کئی کا قد اتنا لمبا ہوتا ہے کہ محلے سے گذریں تو گھروں میں بے پردگی ہوجاتی ہے اور کئی اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ گھر میں زیادہ مہمان آجائیں تو جہیز کی ’’پیٹی‘‘ پر ہی گدا بچھا کے سوجاتے ہیں۔ہر انسان میں خامیاں ہیں‘ ہر انسان نامکمل ہے‘ چیک کرکے دیکھ لیجئے‘ خوبصورت سے خوبصورت انسان تلاش کیجئے اور پھر کچھ دیر اُس کے ساتھ گفتگو کیجئے‘آپ کو ایک نہیں کئی خامیاں نظر آئیں گی کیونکہ مکمل تو صرف ایک ہی ذات ہے!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“