آج – 29/اکتوبر 1872
رام پور کے درباری شعرا میں شمار اور معروف شاعر” نظامؔ رامپوری صاحب “ کا یومِ وفات…
نام زکریا شاہ اور نظام شاہ ، تخلص نظامؔ۔ ۱۸۱۹ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ نظام حافظ احمد شاہ سے رام پور میں بیعت تھے۔ ابتدا میں شعروشاعری میں انھی کے شاگرد ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے سجادہ نشین بھی ہوئے۔ بعد میں نظام نے علی بخش بیمار جو مصحفی کے شاگرد تھے، ان سے اصلاح سخن لینا شروع کی۔ نظام ریاست رام پور کے سواروں میں ملازم تھے ۔ تنخواہ بہت قلیل تھی جس کی وجہ سے مالی پریشانی میں مبتلا رہتے تھے۔ ’’کلیاتِ نظام‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور کے تعاون سے چھپ گئی ہے۔ بقول غالب:’نظام رام پور کا میرؔ تھا ‘۔
۲۹؍اکتوبر ۱۸۷۲ء کو نظام کا رام پور میں انتقال ہوگیا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:177
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر نظامؔ رامپوری کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
—
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئیے مسکرا کے ہاتھ
—
اب تم سے کیا کسی سے شکایت نہیں مجھے
تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
—
گر کوئی پوچھے مجھے آپ اسے جانتے ہیں
ہو کے انجان وہ کہتے ہیں کہیں دیکھا ہے
—
یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ
—
اٹھتا ہوں اس کی بزم سے جب ہو کے ناامید
پھر پھر کے دیکھتا ہوں کوئی اب پکار لے
—
ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے
—
سچ ہے نظامؔ یاد بھی اس کو نہ ہوں گے ہم
پر کیا کریں وہ ہم سے بھلایا نہ جائے گا
—
تیرا ملنا تو ہے مشکل مگر اتنا تو ہوا
اپنا مرنا مجھے آساں نہ ہوا تھا سو ہوا
—
آپ دیکھیں تو مرے دل میں بھی کیا کیا کچھ ہے
یہ بھی گھر آپ کا ہے کیوں نہ پھر آباد رہے
—
تم ہو گئے کچھ اور نہ کچھ اور ہم ہوئے
کچھ تو سبب ہوا ہے کہ وہ ربط کم ہوئے
—
آئے بھی وہ چلے بھی گئے یاں کسے خبر
حیراں ہوں میں خیال ہے یہ یا کہ خواب ہے
—
منظور کیا ہے یہ بھی تو کھلتا نہیں سبب
ملتا تو ہے وہ ہم سے مگر کچھ رکا ہوا
—
لپٹا کے شب وصل وہ اس شوخ کا کہنا
کچھ اور ہوس اس سے زیادہ تو نہیں ہے
—
عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے
یہ لطف ہے ستم بھی ہے عذرِ ستم بھی ہے
—
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
مرے پاس کیوں آپ آنے لگے
—
دل نکل جاتا ہے بے ساختہ اس دم اپنا
در میں جس دم تجھے دالان سے ہم دیکھتے ہیں
—
مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
جانتا ہوں مدعا میں آپ کی تقریر کا
—
فراق میں تو ستاتی ہے آرزوئے وصال
شبِ وصال میں کیوں دردِ دل دو چند ہوا
—
لب تک نہ آیا حرفِ تمنا کبھی نظامؔ
گویا مرا سخن بھی تمہارا دہن ہوا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
نظامؔ رامپوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ