نظام کا تسلسل کیوں ضروری ہوتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظام کا تسلسل ، بد نظمی اور انارکی سےبچنا کتنا ضروری ہےاس کا احساس ہر مہذب سماج میں پایا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اس ضمن میں یہ ہے :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر لازم ہے سننا اور اطاعت کرنا (حاکم کی بات کا) تکلیف اور راحت میں، خوشی اور رنج میں اور جس وقت تیرا حق اور کسی کو دیں (یعنی اگرچہ حاکم تمہاری حق تلفی بھی کریں اور جو شخص تم سے کم حق رکھتا ہو اس کو تمہارے اوپر مقدم کریں تب بھی صبر اور اطاعت کرنی چاہیئے اور فساد کرنا اور فتنہ پھیلانا منع ہے۔صحیح مسلم 4754
ہمارے ملک میں اگر نواز شریف کی قیادت میں حکومت برقرار رہتی تو ہم اس وقت اس کی کارکردگی کی بناپر اس کی جانچ کر رہے ہوتے۔ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ زیر بحث ہوتا، لوگ تجزیے کر رہے ہوتے۔ اپنے اپنے تجربات بیان کر رہے ہوتے اور یوں عوامی شعور ایک منزل آگے بڑھ جاتا، خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہتا۔ ملک کی معاشی حالت گزشتہ دہائی میں سب سے بہتر پائی گئی تھی، مزید بہتری کا سفر جاری رہتا تو آنے والا وقت گزشتہ تجربات کی مضبوط بنیاد پر موجودہ وقت سے بہتر ضرور ہوتا۔حکومت کسی بھی جماعت کی قائم ہوتی، اسے گزشتہ حکومت سے بہتر کارکردگی دکھانے کی فکر ہوتی، یوں عوامی بہبود کا مقصد حاصل ہوتا چلا جاتا۔
مگر حکومتی نظم میں مداخلت کر دی گئی۔بحث حکومتی کارکردگی کی بجائےوزیر اعظم کی معزولی کے جواز اور عدم جواز میں محصور ہو گئی۔ وزیر اعظم کی ذات، عدالت کے اقدامات کی قانونی پوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث پیش منظر میں آگئی اور حکومتی کارکردگی کی بحث پس منظر میں چلی گئی۔ عوامی شعور کا عمودی سفر رک گیا، وہ پھر سے افقی دائروں میں گھوم گیا۔ اب اگلے انتخاب میں کارکردگی مرکزی مضمون نہیں رہے گا، بلکہ "مجھے کیوں نکالا؟ " پر پیدا ہونے والا غصہ اور ہمدردی فیصلہ کن ہوں گے۔ جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد، ان کی پارٹی کو ووٹ ان کی کارکردگی کی بجائے جذباتی ہمدردی کا پڑا تھا،لیکن دوسری دفعہ جب یہ جذباتی منظر سامنے نہیں تھا تو عصبیت پر مبنی ووٹ کے علاوہ اکثریتی ووٹ یہ پارٹی حاصل نہ کر پائی تھی کیوں کہ اس بار حکومتی کارکردگی زیر بحث تھی۔
پاور گیم پلان کے تحت وزیر اعظم کی معزولی سے پیدا ہونے والی سیاسی اتھل پتھل سے انتخابات میں کسی گروہ کو عارضی فائدہ ہو تو ہو، سماجی ارتقا کے سفر کو نقصان ہی پہنچا ہے۔
عوام کا حق انتخاب اجتماعی شعور کی آب یاری کا واحد راستہ ہے۔ عوامی شعور کے ارتقا میں رکاوٹ ڈالنا سماجی جرم ہے۔ سماج کے یہ مجرم برسوں کا سفر صدیوں پر محیط کر دیتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔