سورج نظامِ شمسی کے مرکز پر ہے۔ اسکے گرد آٹھ سیارے گھومتے ہیں جن میں سورج سے بالترتیب فاصلے پر عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون شامل ہیں۔ اسکے علاوہ سورج کے گرد پانچ بونے سیارے یعنی ڈوارف پلینٹ بھی گھومتے ہیں۔ یہ ہیں پلوٹو، ایریس، سیریس، ہاؤمیا اور ماکے ماکے۔ اب یہاں بونے سیاروں کی تعریف بھی کچھ واضح نہیں لہذا ممکنا طور پر نظامِ شمسی میں دس سے زائد ایسے اجسام ہیں جو بونے سیاروں کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ تاہم ان میں سب سے بڑا بونا سیارہ پلوٹو ہے تاہم ایریس کا ماس پلوٹو سے زیادہ ہے۔ پلوٹو کسی زمانے میں نظامِ شمسی کا نواں سیارہ کہلاتا تھا تاہم 2006 میں جب اجرامِ فلکی کو سیارہ کہلانے کے لیے سائنسدانوں نے چند شرائط رکھیں تو پلوٹو ان میں سے ایک شرط پر پورا نہ اُتر سکا جو یہ تھی کہ یہ اپنے اردگرد خلا میں مختلف خلائی چٹانوں اور شہابیوں کو صاف نہ کر سکا جیسے کہ نظامِ شمسی کے دیگر سیارے کر چکے ہیں۔
آپکو زمین یا مشتری وغیرہ کے گرد خلا میں خلائی چٹانوں یا شہابیوں کا ہجوم نظر نہیں آتا۔ تاہم یہاں یاد رکھیے کہ ستارے، سیارے یا چاند وغیرہ کے نام اور تعریف انسانوں کے بنائے ہیں جو سائنسدان کسی شے کو آسانی سے سمجھنے اور پکارنے کی سہولت کےلیے استعمال کرتے ہیں۔
خیر واپس آتے ہیں پلوٹو پر۔ عام خیال کیا جاتا ہے کہ پلوٹو نظامِ شمسی کا آخری اور سب سے دور کا بونا سیارہ ہے جو سورج سے اوسطاً 5.9 ارب کلومیٹر دور ہے۔یہ اتنا فاصلہ ہے کہ سورج کی سطح سے نکلنے والی روشنی کو پلوٹو تک پہنچنے میں 5.3 گھنٹے لگتے ہیں۔
تاہم حقیقت اسکے بر عکس ہے۔ نظامِ شمسی کا سب سے دور کا بونا سیارہ ایریس ہے۔ یہ سورج سے کتنا دور ہے؟ اسکے لیے ہمیں فاصلے کی ایک نئی اکائی ڈھونڈنی پڑے گی کیونکہ یہ فاصلہ بے حد زیادہ ہے۔ اس اکائی کو ایسٹرونامکل یونٹ یا “اے یو” (AU) کہتے ہیں۔ یہ دراصل سورج کا زمین سے اوسط فاصلہ ہے۔ یعنی ایک “اے یو” لگ بھگ 15 کروڑ کلومیٹر کے برابر ہے۔
چلیے اب جانتے ہیں کہ ایریس کا سورج سے اس اکائی میں کتنا فاصلہ ہے۔ تو ایریس سورج سے اوسط 68 “اے یو” دور ہے۔
تاہم اسکا مدار بیضوی ہے گول نہیں۔لہذا اسکا سورج سے فاصلہ کم سے کم 38 اے یو اور زیادہ سے زیادہ 97 اے یو تک ہے۔
ایریس کو سورج کے گرد ایک چکر کاٹنے میں 559 سال لگتے ہیں
ایریس کو 2005 میں دریافت کیا گیا تھا گویا جب اسے دریافت کیا گیا تب یہ جہاں تھا ، وہاں یہ اس سے 559 سال پہلے تھا۔ یعنی 1446 میں۔
تب زمین پر کیا ہو رہا تھا؟
دہلی پر باہمنی سید خاندان کی بادشاہت تھی اور علاؤ الدین شاہ حاکم تھا۔ ایسے ہی انطولیہ میں بزنطین سلطنت کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ انکی سرحدوں پر عثمانیہ سلطنت کے بادشاہ حملے کر رہے تھے۔ اور محض چند سالوں بعد یعنی 1453 میں قسطنطنیہ یعنی موجودہ استنبول فتح کر لیا گیا۔
خیر ایریس کے تقابل میں پلوٹو سورج سے تقریباً 39 “اے یو” دور ہے۔
تو کیا ہم ایریس کو نظامِ شمسی کا سب سے دور کا فلکیاتی جسم کہہ سکتے ہیں؟ نہیں۔
ایریس کی دریافت کے بعد کئی ایسے چھوٹے چھوٹے اجسام دریافت ہو چکے ہیں جو پلوٹو سے بھی دور ہیں۔ انہیں سائنسدان ٹرانس نیپچون آبجیکٹس کہتے ہیں۔ یعنی وہ اجسام جنکا فاصلہ سورج سے نیپچون کے اوسط فاصلے یعنی 30 اے یو سے بھی زیادہ ہے۔ پلوٹو اور ایریس دونوں ٹرانس نیپچون آبجیکٹ ہیں۔
2018 میں سائنسدانوں نے دو اور چھوٹے اجسام ڈھونڈے ۔ ان میں سے ایک سورج سے تقریباً 124 اے یو دور تھا۔
جبکہ دوسرا جسے ڈھونڈا تو فروری 2018 میں گیا تاہم اس حوالے سے مکمل طور پر یقین دہانی 2021 میں ہوئی ، یہ چھوٹا سا سیارہ نما جسم جسے 2018 AG37
کا نام دیا گیا اور جسے سائنسی حلقوں میں “فار فار آؤٹ” یعنی “دور دور باہر” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ سورج سے تقریباً 132 اے یو دور ہے۔ یعنی پلوٹو اور سورج کے فاصلے سے بھی تقریباً 3.4 گنا زیادہ فاصلے پر۔
تو کیا “فار فار آؤٹ” نظامِ شمسی کا آخری ایسا فلکیاتی جسم ہے جو سورج سے سب سے دور ہے؟
دراصل کچھ ناہنجار اجرامِ فلکی ایسے بھی ہوتے ہیں جنکا مدار بدلتا بھی ہے اور ہوتا بھی واضح طور پر بیضوی اور بہت بڑا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں دمدار ستاروں کی جو دراصل برف اور خلائی گرد سے بنے سیارچے ہوتے ہیں اور یہ سورج کے گرد ایک بیضوی اور بڑے مدار میں چکر کاٹتے ہیں۔
ایسا ہی ایک دمدار ستارہ 1680 میں دوربین کی مدد سے دریافت کیا گیا اسے نیوٹن کومٹ بھی کہتے ہیں۔
یہ اپنی دریافت کے وقت سورج کے بے حد قریب تھا محض 9 لاکھ 30 ہزار کلومیٹر دور۔ مورخین کے مطابق 29 دسمبر 1680 کو یہ اتنا روشن تھا کہ دن کے وقت بھی زمین سے نظر آیا۔
اور پھر یہ اپنے بیضوی مدار میں سورج سے دور ہوتا گیا۔ یہ سورج کے ھرد 10 ہزار سال میں ایک چکر کاٹتا ہے۔اس وقت یہ سورج سے تقریباً 260 اے یو دور ہے۔
اب بتائیے بندہ بشر نظامِ شمسی کی حدود کہاں کھینچے بھلا؟
اس سب مسئلے کو پیچیدہ کرتا ہے یہ خیال کہ نظامِ شمسی میں ایک اور بڑا سیارہ بھی موجود ہے جسے “پلینٹ نائن” کہتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی سائنسی ماڈلز موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ایسا سیارہ موجود ہے تاہم اگر موجود ہے تو یہ سورج سے اندازہ 400 سے 800 اے یو کے درمیان یے۔ اسے ڈھونڈنا آسان نہیں۔ کیوں؟
دیکھیے، سیارے اپنی روشنی پیدا نہیں کرتے یہ سورج کی روشنی کو منعکس کر کے چمکتے یا نظر آتے ہیں۔
اس قدر دور اگر کوئی سیارہ موجود ہے تو اس پر سورج کی روشنی نہ ہونے کے برابر ہو گی۔اور اس قدر وسیع خلا میں ایک مدہم یا نہ دِکھنے والے سیارے جو ڈھونڈنا جوئے شیر لانا ہے۔
چلیے اب آپکو یہ بتا دوں ناسا نے وائجر ون نامی سپیس کرافٹ کو 1977 میں خلا میں نظامِ شمسی کے تفصیلی جائزے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ اس وقت سورج سے 156 اے یو دور ہے۔ تو کیا یہ نظامِ شمسی کی حدود سے باہر ہے؟
نظامِ شمسی کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے۔ سائنسدان سورج سے 100 اے دور کی خیالی لکیر کو “ہیلیو پاز” کہتے ہیں جہاں سورج کی تابکاری شعاعوں کا اثر نہایت کم ہو جاتا ہے۔ تاہم جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا کہ اسکے باوجود سورج کی کششِ ثقل اتنی با اثر ہے کہ یہ دمدار ستاروں اور ان دیکھے سیاروں اور چھوٹے اجسام کو اپنے گرد مدار میں رکھ سکتا ہے۔ لہذا ہم نظامِ شمسی کی کوئی حد مقرر متعین نہیں کر سکتے۔
کائنات ایک حیرت کدہ ہے اور اس میں نظامِ شمسی یا اس بھی پیچیدہ نظام جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...