عطارد یعنی مرکری نظامِ شمسی کا سب سے تیز رفتار سیارہ ہے۔ جو خلا میں سورج کے گرد اپنے مدار میں 47 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گھومتا ہے۔اسکے مقابلے میں زمین سورج کے گرد اوسطاً 29.78 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گھومتی ہے۔ جو سیارہ سورج کے زیادہ قریب ہو گا وہ زیادی تیزی سے اسکے گرد گھومے گا۔ بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ سورج زمین کو یا دیگر سیاروں کو اپنی کششِ ثقل کے باعث نگل کیوں نہیں لیتا تو اسکا جواب ہے سیارے کی رفتار ۔ ایک سیارہ اپنے مدار میں جب سورج کے قریب ہونے لگتا ہے تو اسکی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے یوں یہ سورج کی کششِ ثقل کو ایک طرح سے غچہ دیکر آگے کو بڑھ جاتا ہے۔ اسکی مثال رسی سے باندھے پتھر سے لیں جہاں پتھر پر آپکا ہاتھ اسے گھمانے کے لیے اندر کی طرف کھینچتا ہے تاہم پتھر کی رفتار اسے دائرے میں گھماتی ہے۔ زمین اور دیگر سیارے بھی دراصل سورج کی طرف مسلسل گر رہے ہیں تاہم اپنی رفتار کے باعث یہ سورج میں گرنے کو مِس کر جاتے ہیں۔ یہ ایک توازن کا کھیل ہے رفتار کا اور کششِ ثقل کا۔
اسکی دوسری مثال ہم یوں لیتے ہیں۔ فرض کیجئے آپ ایک توپ سے گولہ پھینکتے ہیں۔ گولہ اگر زیادہ قوت سے پھینکا جائے گا تو وہ بہت دور جا کر گرے گا۔ فرض کیجئے 10 کلومیٹر دور۔ اب اگر اور قوت سے پھینکیں گے تو 100 کلومیٹر دور۔ اور اسی طرح اگر آپ قوت بڑھاتے جائیں گے تو یہ گولہ پوری زمین کا چکر کاٹ کر واپس اسی مقام پر آئے گا جہاں سے اسے چھوڑا تھا۔ تاہم اگر ہم زمین کی فضا کی مزاحمت ختم کر دیں تو یہ گولہ نیچے گرنے کی بجائے مسلسل زمین کے گرد گھومنا شروع کر دے گا۔ دراصل یہ زمین پر مسلسل گرنے کی ہی کوشش کر رہا ہو گا تاہم اپنی رفتار کے باعث ہر بار دائرے میں خم کھاتے کھاتے نہیں گر پائے گا۔
خلا میں سیٹلائٹ بھی اسی طرح زمین کے گرد مدار میں گھومتے ہیں۔ انہیں راکٹ میں اوپر لے جا کر ایک خاص زاویے پر ایک خاص رفتار پر پھینکا جاتا ہے اور یوں یہ ایک مدار کی صورت زمین کے گرد مسلسل گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔
نیوٹن نے جب سترویں صدی میں گریویٹی کا تصور دیا تو اس نے سوال کیا کہ چاند زمین پر کیوں نہیں گرتا؟ پھر اس نے یہ خیالی تجربہ یعنی thought experiment کیا کہ توپ کا گولہ زیادہ قوت سے پھینکا جائے تو وہ زمین کے گرد گھومنا شروع کر دے گا۔ چاند زمین کی طرف گر رہا ہے جیسے توپ کا گولہ زمین کی طرف گرتے گرتے گھوننا شروع کر دیتا ہے۔ زمین سورج میں گر رہی ہے تاہم گرنے کی بجائے اسکے گرد گھوم رہی ہے۔ یوں نیوٹن کو معلوم ہوا کہ گریوٹیی یا کششِ ثقل ایک کائناتی قوت ہے جسکی وجہ سے سیارے اور چاند اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی زمین کی طرف گر رہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ جب کوئی شے زمین کی طرف گر رہی ہو تو اسے فری فال کہا جاتا ہے۔ فری فال میں گرنے والی اشیا پر محض ایک ہی قوت اثر کرتی ہے جو گریوٹیی ہے۔ تبھی انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر خلاباز بے وزنی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ آپ ایک پانی کی بوتل میں سوراخ کئی کیجئے اور اسے ہاتھ میں پکڑیں۔ پانی سوراخوں سےنیچے کو گرے گا۔ البتہ اگر اپ اس بوتل کو کسی اونچی جگہ سے نیچے پھینکیں تو یہ فری فال میں ہو گی اور گرنے کے دوران پانی اسکے سوراخوں سے نہیں نکلے گا۔ یہ تجربہ اپ گھر پر کر کے دیکھ لیجیے اور اپنے بچوں کو گریوٹیی کا بہتر کانسپٹ سکھائیے۔
واپس آتے ہیں عطارد پر جو نظامِ شمسی کا سب سے تیز رفتار سیارہ ہے۔ چونکہ یہ سورج کے قریب ہے تو اسکا مدار باقی سیاروں کی نسبت چھوٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عطارد محض 88 دن میں سورج کے گرد ایک چکر کاٹتا ہے گویا یہاں پر ایک سال 88 دن کا ہوگا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...