ہمیں 1990 کی دہائی سے پہلے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ نظامِ شمسی کا موازنہ باقی کہکشاں سے کیسے کیا جائے۔ ہمیں کسی بھی دوسرے ستارے کے گرد گردش کرنے والے کسی بھی سیارے کا علم نہیں تھا۔ ہمارے لئے سورج اور یہ نظام شمسی کائنات کی عجیب چیز تھا۔ پہلے دو غیرشمسی سیاروں کی دریافت ریڈیو آسٹرونومرز نے1992 میں پبلش کی۔ اس کے بعد تو جیسے سیلاب ہی آ گیا۔ طاقتور ٹیلی سکوپ ہماری کہکشاں میں ساڑھے تین ہزار سیارے دریافت کر چکی ہیں اور اب ہمیں لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی ستارہ ایسا ہو جس کا سیارہ نہ ہو۔ (اس پر تفصیل نیچے لنک سے)۔ ہمارا نظامِ شمسی ایک بڑے ہجوم کا بس ایک چہرہ ہے۔
لیکن ہزاروں دوسرے سیاراتی نظاموں میں کوئی بھی نظامِ شمسی جیسا نہیں۔ یہ ذرا سا عجیب ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظامِ شمسی کیسے بنا؟ اس کے بارے میں 1755 میں فلسفی کانٹ نے نیوبولر ہائیپوتھیسز پیش کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے سائنسدانوں کے علم کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا تھا۔ اور خیال پیش کیا تھا کہ سورج اور سیارے گیسی بادلوں سے ارتقا پذیر ہوئے۔ جو گریویٹی کے زیرِ اثر اپنے بوجھ تلے ڈسک بن گیا اور پھر اربوں سال میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے یہ مستحکم حالت میں جاتا چلا جاتا ہے اور یہ وہ پلین ہے جس میں سیارے محوِ گردش ہیں۔ یہی بنیادی خیال ابھی تک ہے کیونکہ یہ نظامِ شمسی کی اچھی طرح وضاحت کر دیتا ہے۔ اور دوسرے ستاروں کے نظاموں کی بھی۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ تمام سیارے ایک ہی سمت میں کیوں گردش کرتے ہیں، ایک ہی پلین میں کیوں رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھئ پتا لگتا ہے کہ ہمیں کئی مرتبہ نئے ستاروں کے گرد ڈِسک کیوں نظر آتی ہے۔
لیکن یہ ہر چیز کی وضاحت نہیں کرتا۔ مریخ کی مثال لیں۔ بہت ہی چھوٹا ہے۔ زمین کے مقابلے میں ننھا منا۔ ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نیوبولر ماڈل یہ بتاتا ہے کہ جب مریخ بن رہا تھا، اس وقت مریخ کی جگہ پر اتنا مادہ ہونا چاہیے تھا جس کی وجہ سے یہ اس سے بہت بڑے سائز کا ہوتا۔ اور زیادہ تر سمولیشنز یہ بتاتی ہین کہ اس کو زمین کے ماس کے قریب کا ہونا چاہیے تھا۔
اور صرف مریخ کا مسئلہ نہیں۔ نظامِ شمسی میں سیاروں کے سائز میں بڑا فرق ہے۔ مشتری جیسے دیو سے لے کر عطارد جیسے سیارے تک۔ لیکن ایک سیاراتی نظام کے سیاروں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ سائنسدان ایک نظام کے سیاروں کو مٹر کی پھلی کے دانوں کی طرح کہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا سائز اور ان کا آپس میں فاصلہ قریب قریب برابر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور چیز جو ہمارے نظام میں نہیں، وہ اس طرح کے سیارے ہیں جن کو سپرارتھ کہا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ زمین سے بڑے لیکن نیپچون سے چھوٹے۔ سورج جیسے ستاروں میں سے اکثر کے گرد ایسے سیارے پائے جاتے ہیں۔
نظامِ شمسی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ اب کمپیوٹر کی سمولیشن سے مدد لیتے ہوئے ہم اس کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک جو ہمیں اندازہ ہوا ہے، اس کے مطابق ہمارے عجیب ہونے میں بڑا قصوروار مشتری لگ رہا ہے۔ شہابیوں سے اخذ کردہ نتائج کی وجہ سے یہ خیال ہے کہ مشتری کی پیدائش نظامِ شمسی میں جلد ہوئی تھی اور اپنے موجودہ مدار میں سیٹل ہونے سے پہلے یہ ذرا آوارہ گردی کرتا رہا تھا۔ 2011 میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے گرینڈ ٹیک ماڈل پیش کیا۔ اس پر ابھی بحث کی جا سکتی ہے لیکن یہ بتاتا ہے کہ سورج کے بچپن میں اس کے گرد گھومتی گیسوں نے مشتری کو کھینچ اندر کی طرف گھسیٹ لیا تھا۔ یہ اس مدار تک پہنچ گیا تھا جہاں پر آج مریخ ہے۔ پھر دوسری طرف نئے پیدا ہونے والے زحل نے اس کی لگام کھینچ لی۔
لیکن جتنی دیر یہ مدار میں اندر رہا، اس نے یہاں کا بہت سا مادہ چرا کر اپنا حصہ بنا لیا۔ یہ وہ مادہ تھا جس سے مریخ نے بننا تھا۔ جب اس ڈسک سے گیس صاف ہوئی اور اس نے ان دو دیوہیکل سیاروں پر اپنا زور چھوڑا، یہ بیرونی طرف نکل گئے۔ کچھ آسٹرونومرز کا یہ خیال بھی ہے کہ مشتری اور زحل کی ان حرکتوں نے دوسرے سیاروں کے بننے میں بھی مداخلت کی۔ سیاروں کے سائز میں زیادہ فرق ہونے کی یہ وجہ ہے۔
گرینڈ ٹیک ماڈل کے مطابق مشتری نے ہونے والی سپر ارتھ کو بھی نہیں بننے دیا۔ وہ مادہ ہی راستے سے ہٹا دیا جو انہیں بننے دیتا۔ اگر ایسا ہے تو یہ والا ماس سست ہو کر سورج کی طرف جا کر اس میں گر گیا ہو گا۔ ہم ٹھیک سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ لیکن ایک چیز جو واضح ہے، وہ یہ کہ ایسا نہیں ہوا کہ نفاست کے ساتھ تمام سیارے اپنی اپنی جگہ پر بن گئے ہوں اور اسی جگہ پر ٹِک گئے ہوں۔ نظامِ شمسی کا ماضی خاصا ڈرامائی رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ ماضی اتنا بے چینی والا لگ رہا ہے تو پھر نیچون سے پرے کے آبجیکٹس کو زیادہ بڑے جھٹکے ملے ہوں گے۔ یہاں پر پائے جانے والے آبجیکٹ بے ہنگم مداروں میں ہیں اور عام طور پر سیاروں کے پلین میں ہی نہیں ہیں۔ اگر نیوبولر ماڈل پر بھروسہ کیا جائے کہ ان کا ارتقا زمین کی ہی ڈِسک سے ہوا تو پھر ان کے ساتھ کچھ واقعہ ہوا ہو گا جس کی وجہ سے یہ ایسے ہیں۔ کچھ آسٹرونومرز کا خیال ہے کہ قریب سے گزرتے کسی ستارے نے ان کو ہلا دیا تھا۔ پہلے لگتا تھا کہ اس کا امکان نہیں لیکن 2018 میں شائع ہونے والے پیپر میں اس امکان کو تفصیل سے دیکھا گیا۔ ان کو پتا تھا کہ سورج ستاروں کے ایک جمگھٹے میں پیدا ہوا تھا جو ایک کروڑ سال بعد الگ ہوا تھا۔ انہوں نے اورائن نیوبولر کلسٹر پر اپنا ماڈل بنایا، جس میں اتنے ستارے تھے جو سورج کے بننے والے کلسٹر میں۔ اس پر چلائی گئی سمولیشن سے پتا لگا کہ کسی ستارے کی سورج کے قریب سے گزرنے کا امکان بیس سے تیس فیصد تھا۔ اگر ایسا ہوا تو اس نے آبجیکٹس کو ان مداروں میں بکھیر دیا ہو گا جہاں یہ آج نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظامِ شمسی کے ساتھ ابتدا میں جو کچھ بھی ہوا، آج زمین اسی وجہ سے ہے۔ اور اسی جگہ پر ہے کہ زندگی اس پر موجود ہے۔ نظامِ شمسی کے بننے کے بارے میں ٹھیک انفارمیشن سے ہمیں یہ پتا لگ سکتا ہے کہ آیا دوسرے ستاروں کے نظاموں میں ہماری زمین جیسے سیارے ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں۔
کیا پتا کہ ہمیں اپنی طرح کا عجیب نظامِ شمسی بھی کہیں مل جائے، جو ٹھیک طرح کا عجیب ہو۔