غیر جانبدار رہنا نسبتاً آسان کام ہے۔ کیونکہ غیرجانبداری میں خرچہ نہیں لگتا اور تعلقات بھی بچ جاتے ہیں۔ جبکہ حق انصاف کی بات کرنا کسی نہ کسی جانب پلڑا جھکا دیتی ہے اور ہمارے ہاں رواج نہیں پڑا کہ ہم اصولی بات کو اسی کے میرٹ پر پرکھ سکیں۔
کسی بھی سماج کے زندہ رہنے کے لیے اصول ہی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ نیتوں کا حال رب جانتا ہے اور اس نے اعمال کی بنیاد نیتوں پر رکھ کر معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ مگر سماج کے لیے دین فطرت کی شرائط وہی ہیں جو اصول بیان کرتا ہے۔ اچھی نیت کے ساتھ درخت کو غلط پیوند لگاؤ گے تو فصل کم آئیگی، خلوص نیت کے ساتھ منافق کا جنازہ پڑھاؤ گے تو بھی رب کے انصاف سے بچ نہیں پائے گا۔ پیامبر پیغمبرﷺ نے ساری مثالیں اپنی زات سے دے دیں مگر شائد (نعوذ بااللہ) ہم دین فطرت کو بہتر سمجھنے لگ گئے ہیں، کہ اب حدیث و آیات کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے لگے ہیں۔
فیس بک کا حالیہ تنازعہ ہارون ملک Haroon Malik کی اس لسٹ سے شروع ہوا جس میں اس نے دعوٰی کیا کہ فیس بک کو کچھ لوگ برے مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں، ان میں سے ایک برا کام لوگوں سے پیسے بٹورنے کا ہے۔ اس پوسٹ میں فیس بک سے کچھ دوستوں کے نام بھی لکھے گئے۔ عمومی طور پر پوسٹ کا مقصد درست بھی ہوتا تو انداز اور ترتیب بحرحال غلط تھی۔ جس پر میں نے اسکی تمہیدی پوسٹ پر اپنے کمنٹ میں ہارون صاحب کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا اور بغیر کسی واضح ثبوت اور گواہان کے کسی پر خوامخواہ کا الزام لگانے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ ہارون ملک کی پوسٹ پر میری رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک غیر محتاط پوسٹ تھی، اور جن لوگوں کے نام لکھے گئے انکے بارے میں مناسب احتیاط نہیں کی گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہ اعتراض کیا بھی، اور میرے خیال میں اسکا جواب ہارون ملک ہی کو دینا چاہیے۔
میں البتہ سوشل میڈیا کے مجموعی رویے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں۔ اور کل سے حیران ہی ہوتا چلا جا رہا ہوں۔ مگر اس سے پہلے آپ کو سوشل میڈیا سے ہٹ کر کچھ رویے دکھاتا ہوں، تاکہ آپ کو میری حیرانی کی سمجھ آ سکے۔
دوستوں کو یاد ہوگا، پچھلے سال مولوی گھمن پر الزام لگا تھا۔ اسکی بیوی نے لگایا تھا، بچوں نے لگایا تھا۔ الزام کی سچائی میں کافی سے زیادہ حقائق موجود تھے۔ مگر تب سب نے دیکھا کہ گھمن کی مولوی برادری ایک سے بڑھ کر ایک حدیث نکال کر لے آئی کہ دیکھیے جناب کسی پر تہمت سے پہلے یہ دیکھ لیجیے، وہ دیکھ لیجیے۔ اور ہاں، جب تک الزام ثابت نہ ہو، ہم گھمن کو بے قصور ہی سمجھیں گے۔ میرا سوال تب بھی یہی تھا کہ گھمن کے یہ حمائتی دوسروں پر گھٹیا اور رکیک الزامات لگاتے ہوئے کیا انہی تمام اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں؟ یا یہ اپنے قبیلے کو بچانے کی گھٹیا روائت کا تسلسل ہے؟
وکیلوں کی مثال لے لیجیے۔ کل ہی ایک وکیل کی عام آدمی کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو شئیر کی ہے۔ پرسوں وکیل ایک عدالت میں جج کے سامنے انسپکٹر کو گھونسے لاتیں مار رہے ہیں۔ اس سے پہلے ایک وکیل کو سرعام ٹریفک والوں اور عوام کو مارتے دیکھا گیا۔ ان تمام مثالوں میں وکلاء اور ججز، اور خود چیف جسٹس کے کان پر کتنی جوں رینگی؟ کہ اپنا قبیلہ اور اس کے لیے اپنے اصول، بلکہ کوئی اصول نہیں؟ وہی وکیل جو کسی کی زبانی دھمکی کو اقدام قتل ثابت کر سکتے ہیں، ایسے تمام واقعات پر خاموش، یا اپنے پیٹی بھائی کے حمائتی ہیں۔
صحافیوں کی مثال لے لیجیے۔ وہ صحافی جو لوگوں کے بیڈروم، باتھ روم، حتی کے قبر کشائی کی ویڈیو عوام کو دکھاتے رہتے ہیں۔ چادر اور چاردیواری کا تقدس تو کب سے پائمال ہے، غنڈے صحافیوں کا کارڈ گلے میں لٹکائے کسی بھی راہ چلتے کو ذلیل کر سکتے ہیں، جب ان صحافیوں کی اپنی ویڈیو وائرل کی گئی تو چند ایک باضمیر لوگوں کے باقیوں نے مڑ مڑ کر ہمیں سمجھانا شروع کردیا کہ جناب آپ نہیں جانتے ہمارا کام کتنا مقدس ہے، ہمیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ان مشکلات کی وجہ سے ہمیں مقدس گائے کا درجہ دے دیا جائے اور ہمیں معاشرے میں من مانی کی اجازت ہونا چاہیے کیوںکہ ہم ہی سب کے نجات دہندہ ہیں۔ روائیت وہی، اپنا قبیلہ اور کوئی اصول نہیں۔
سوشل میڈیا (پاکستان) سے مجھے حسن ظن ہے کہ یہ وہ میڈیا ہے جہاں اپنی منجی تھلے ڈانگ پہلے پھیری جاتی ہے۔ یہاں پر بات کرنے والوں کا ہر روز احتساب ہوتا ہے اور بھلے کوئی کتنا دانشور بنتا نظر آئے سوال و جواب سے ماورا نہیں ہے۔ اسکے بارے میں سوال اٹھتا ہے تو اسکو جواب دینا ہوتا ہے، وضاحت دینا ہوتی ہے۔ مگر حیرت سے دیکھ رہا ہوں کہ کل سے جن لوگوں کے نام ایک غیر محتاط پوسٹ میں آئے ہیں، انہوں نے اس سے بڑھ کر غیر سنجیدہ جواب دیا ہے۔ ایک صاحب جن کے بارے میں بہت سے لوگ اچھی رائے رکھتے تھے، خود خاموش رہتے تو اچھا ہوتا، جواب الجواب میں ایک گھٹیا لطیفہ نما پوسٹ سے دفاع کرتے نظر آئے۔ بجائے کہ اپنے اچھے کام کے بارے میں بتانے کے اس بہترین موقعے سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے جنسی لطیفے کے تلذذ کا سہارا لے کر "بدلہ" لینے کی کوشش کی۔
ایک دوسرے دوست نے بھی اسی طرح سے اپنا دفاع کیا جیسے ملک و قوم پر عظیم احسان کر رہے ہوں، اور آخر میں "فرما دیا" کہ اب مزید وضاحت نہیں دونگا۔ کیونکہ میری نیت صاف تھی۔
اسی طرح دیگر کئی دوستوں نے دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنے والی آیات و احادیث کا ورد شروع کردیا، بغیر اصول جانے۔
اصول کیا ہے؟ انسان کے زاتی افعال، زاتی گناہ جس کا تعلق بندوں کے حقوق سے نہیں ہے ان پر ستارالعیوب پردہ ڈالتا ہے۔ انسانوں کو بھی ایسی چیزوں کی جستجو سے منع کیا گیا ہے۔ کوئی غریب ہے، کسی میں چغلی کی عادت ہے، کوئی گھر میں چھپ کر شراب پیتا ہے، کوئی نماز میں سستی کرتا ہے۔ کسی کے کسی ماضی گناہ کی شرمندگی ہے۔ کوئی اپنی غلطی پر شرمندہ ہے۔ اس کا دوسروں پر آشکار کرتے مت پھرو۔ یہ اصول دیا رب کائنات نے۔
مگر جہاں معاملہ بندوں کے حقوق کا آیا تو کسی رو رعایت کا ذکر نہیں ہے۔ کسی حق مارنے والے کو، دھوکا دینے والے کو اس "حدیث" کی رعائت نہیں دی گئی۔ جو شخص معاشرے میں بے چینی پھیلانے کا سبب بنے اس کا حال آشکار کرنا عین فرض ہے کہ اس سے انسانوں کا بھلا ہوتا ہے۔ صحافت کا پیشہ اسی سے جنم لیتا ہے۔
میں حیرانی و پریشانی سے دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا، جس کی بنیاد ہی ہر پوسٹ کو دیکھے بن دیکھے شئیر کر دینے پر ہے۔ وہاں کے لوگ اپنے تعلق نبھانے کو "فاسق کی سنی ہوئی بات" والی حدیث نکال لا رہے ہیں۔ زرا بتائیے تو سہی آپ نے آج جتنی ویڈیوز شئیر کی ہیں، ان سب کے بنانے والے کے "مومن" ہونے کے کتنے لوگوں نے تصدیق کی ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ