میرے کاشتکار بھائیوں نے کسان دوست کیڑوں کا نام تو سنا ہی ہو گا. لیکن آپ کو یہ جان کر شائد حیرانی ہو کہ فصلوں پر بیماریاں پھیلانے والے جراثیموں میں بھی کچھ ایسے جراثیم ہیں جو کسانوں اور فصلوں کے دوست ہیں.
پھلی دار پودوں کے ساتھ کس جرثومے کی دوستی ہے؟
کسان دوست مرثوموں میں سے ایک جرثومہ وہ ہے جن کی دوستی ایسے پودوں یا درختوں کے ساتھ ہے جن پر پھلیاں لگتی ہیں. اس جرثومے کو سائنس دان رائی زوبیم کا نام دیتے ہیں.
طاقتور شیشوں کے نیچے رائی زوبیم اس طرح کا نظر آتا ہے۔ اس کی دوستی پھلی دار پودوں کے ساتھ ہے
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ برسیم، لوسرن، مونگ، ماش، چنا، مسور، مٹر، جنتر، گوار، مونگ پھلی، سویا بین وغیرہ سب پھلی دار پودے ہیں. حتی کہ شیشم اور کیکر وغیرہ بھی پھلی دار ہی کہلاتے ہیں.
غیر پھلی دار پودوں کی یاری کن جرثوموں کے ساتھ ہے؟
رائی زوبیم کے علاوہ دو مزید جرثومے ایسے ہیں جن کی یاری اُن پودوں کے ساتھ ہیں جنہیں پھلیاں نہیں لگتیں. سائنس کی دنیا میں ان جراثیموں کو ایزو بکٹر اور ایزو سپائرِاللہ کا نام دیا جاتا ہے.
ایزو بیکٹر جرثومہ طاقتور شیشے کے نیچے اس طرح نظر آتا ہے۔ یہ غیر پھلی دار پودوں کے لئے کھاد بناتا ہے
آپ کے یاد دہانی کے لئے عرض کر دوں کہ غیر پھلی دار فصلوں میں گندم، مکئی، چاول، کپاس، جوار گنا، سبزیات، پھل دار پودے وغیرہ سب شامل ہیں.
طاقتور شیشے کے نیچے نظر آنے والا ایزو سپائر اللہ جرثومہ ۔ ۔ یہ بھی غیر پھلی دار پودوں کا دوست ہے
چراثیموں کی دوستی سے پودے کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپر والے تینوں نسل کے جراثیم، زمین میں بیٹھ کر پودوں کے لئے نائٹروجن کھاد بناتے رہتے ہیں.جہاں جہاں تک پودوں کی جڑیں پائی جاتی ہیں وہاں وہاں تک یہ جرثومے اللہ کی قدرت سے موجود رہتے ہیں. اور مسلسل نائٹروجن کھاد بنا تے رہتے ہیں جسے پودے اپنی جڑوں کے ذریعے حاصل کرتے رہتے ہیں.
یہ جراثیم ایک سال میں کتنی کھاد بنا لیتے ہیں؟
اس بات کو اس طرح سے سمجھیں کہ پوری دنیا کے مشرق اور مغرب میں موجود، کھاد بنانے والی فیکٹریاں، ایک سال میں محض 4 کروڑ ٹن نائٹروجن کھاد بناتی ہیں. جبکہ زمین کے اندر موجود یہ کسان دوست جراثیم ایک سال میں 19 کروڑ ٹن یعنی تقریباََ 5 گنا زیادہ نائٹروجن کھاد بنا ڈالتے ہیں.
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام جو فیکٹریاں کروڑوں، اربوں روپیہ لگا کر رہی ہیں وہی کام یہ جراثیم کسان کے لئے مفت میں کر رہے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان جراثیموں کو فصل دوست یا کسان دوست مراثیم کہا جاتا ہے.
سائنس دان ان جراثیموں کے ذریعے جراثیمی ٹیکہ کیسے بناتے ہیں؟
ایک بات ذہن میں رہے کہ یہ جراثیم انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں صرف طاقتور شیشوں کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے.
سائنسدان، ان چراثیموں کو انتہائی احتیاط کے ساتھ مٹی سے الگ کرلیتے ہیں اور پھر انہیں بوتلوں کے اندر مخصوص شربتوں میں محفوظ کر لیتے ہیں.
اب یہ جراثیمی شربت، لسی یا دہی کی طرح جاگ کا کام کرتا ہے. بڑے بڑے ٹبوں میں جرثوموں کی خوراک ڈال کر وہاں اس جراثیمی شربت کا جاگ لگا دیا جاتا ہے.
جاگ لگنے کے بعد جراثیم مکھیوں کی طرح ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ اور اسی طرح دوگنے ہوتے چلے جاتے ہیں. کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد یہ سارے کا سارا ٹب چراثیموں سے بالکل اسی طرح بھر جاتا ہے جیسے جاگ لگنے کے بعد رات بھر میں دودھ، دہی میں تبدیل ہو جاتاہے.MUHAMMAD IMRAN KHAN BALOCH, BALOCH HOUSE STREET NO #1 SAJOOKA ROAD FAROOKA TEHSIL SAHIWAL DISTRICT SARGODHA PUNJAB PAKISTAN POST CODE 40040.PH 03447575775
اب اس مرحلے پر ایک خاص ترکیب کے ساتھ مٹی تیار کی جاتی ہے. اور ٹب والے جراثیمی مواد کو مٹی کے ساتھ اچھی طرح مکس کر کے چھوٹے بڑے پیکٹوں میں بھر کے پیک کر دیا جاتا ہے.
لیجئے جراثیمی ٹیکہ تیار ہے.
یہ جراثیمی ٹیکہ کتنے عرصے تک قابلِ استعمال رہتا ہے؟
ایک بات ذہن میں رہے کہ اس ٹیکے کے اندر جراثیم موجود ہوتے ہیں جو بہرحال ایک زندہ چیز ہے اور اس نے اپنی زندگی پوری کر کے مر جانا ہے.
لہذا یہ ٹیکے کے اندر موجود یہ جراثیم کم از کم 3 اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ تک زندہ رہتے ہیں.
اس لئے ایک تو یہ بات اہم ہے کہ جب بھی آپ نے ٹیکہ استعمال کرنا ہو تو تازہ مال بنوائیں. اور دوسرے یہ کہ ٹیکہ تیار ہونے کے 3 ماہ کے اندر اندر اسے استعمال کر لیں تو بہتر ہے.