آج زیادہ تر لوگوں کی زندگی ماضی کے لوگوں کی زندگی سے بہت بہتر ہے۔ عالمی اوسط لی جائے تو ایک سو سال پہلے پیداا ہونے والے کی اوسط متوقع عمر پینتیس سال تھی۔ جس وقت میں پیدا ہوا تھا تو یہ ساٹھ سال تھی۔ اب یہ ستر سال سے اوپر جا چکی ہے۔ آج غریب ترین ممالک، کانگو، ہیٹی یا برما میں بھی ایک بچے کا پیدائش کے پہلے سال میں وفات پا جانے کاکا امکان 1900 میں پیدا ہونے والے بچے سے کم ہے۔ شدید غربت میں رہنے والے لوگوں کی آبادی کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔ آج سے دو سو سال پہلے دنیا کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی کے لئے بھوک روز کی حقیقت تھی۔ آج سے پچاس برس پہلے یہ عدد پچاس فیصد تھا۔ اب یہ گر کر دس فیصد کے قریب آ چکا ہے۔
اس سب کا کریڈٹ ایسی ایجادات کے سر ہے، جن کا اس سلسلے میں ذکر ہوا ہے۔ لیکن اگر آپ نے اس کو پڑھا ہے تو نوٹ کیا ہو گا کہ کم ہی کوئی ایسی ایجاد ہے جس کی کہانی مکمل طور پر مثبت ہے۔ کئی ایجادات نے بڑے نقصان بھی پہنچائے ہے۔ کئی ایجادات ایسی رہی ہیں جن کو زیادہ بہتر استعمال کیا جا سکتا تھا۔
یہ ایک معقول خیال ہو گا کہ ہم تصور کریں کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی پیٹرن نظر آئے گا۔ نت نئی ایجادات ہوتی رہیں گی گی۔ یہ عام طور پر ہمیں زیادہ خوشحال بنائیں گی اور صحت مند کریں گی۔ لیکن ان سے ہونے والے فوائد ہر ایک کے لئے یکساں نہیں ہوں گے۔ کئی غلطیاں بھی ہوں گی۔ کئی مواقع سے ٹھیک فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا۔
مستقبل کیسا ہو گا؟ ایسی قیاس آرائیاں کر کے مزا آتا ہے۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ فیوچرولوجی یا مستقبل کی قیاسس آرائی کو ٹھیک سمجھ لینے سے ذرا احتیاط برتنی چاہیے۔ 1968 میں ہرمن کاہن اور انتھونی وائینر نے کتاب شائع کی جس میں مستقبل کی پیشگوئیوں کا فریم ورک بنایا گیا تھا اور اس فریم ورک کے مطابق سن 2000 کی دنیا کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ اس میں کلر فوٹوکاپی، لیزر کے کئی استعمال، دو طرف جیبی ریڈیو اور آٹومیٹک بینکاری کی پیشگوئی تو کسی حد تک پوری ہوئی لیکن زیا زیادہ تر نہیں۔ اس پیشگوئی کے سال کو بیس برس مزید گزرنے کے بعد بھی ہم زیرِ سمندر کالونیوں میں رہائش پذیر نہیں۔ خاموش ہیلی کاپٹر ٹیکسی پر سفر نہیں کرتے۔ شہروں میں رات کی روشنی ابابھی تک مصنوعی چاند کے ذریعے نہیں کی جاتی۔ ماضی کی ٹیکنالوجی سے زیادہ تیزی سے ماضی کی سائنس فکشن باسی ہو جاتی ہے۔
لیکن ہم دو پیشگوئیاں کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جتنا ایجادات کی حوصلہ افزائی ہو گی، اتنا زیادہ امکان ان کے ہو جانے کا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ہر نئی ایجاد کے ساتھ ہمیں کم از کم ان سوالات کو پوچھ لینا چاہیے کہ ان سے بہترین طریقے سے فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے اور ضرررساں اثرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ ایجادات کے لئے تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ کمپائلر گریس ہوپر کی ایجاد ہے یا لیو بیک لینڈ نے بیکیلائیٹ ایجاد کیا۔ کمپیوٹنگ اور میٹیرئل سائنس کی یہ اہم ترین ایجادات کرنے کا سہرا گریس ہوپر کے والد کے سر بھی جاتا ہے جنہوں نے اپنی بیٹی کو اس وقت ریاضی میں پی ایچ ڈی پر حوصلہ افزائی کی جب لڑکیاں اس شعبے میں نہیں جاتی تھیں۔ لیو بیک لینڈ کی والدہ کے سر ہے، جنہوں نے اپنی غربت اور والد کے مخالفت کے باوجود اپنے بیٹے کو رات کے سکول بھیج کر تعلیم دلوائی۔ اس کے بغیر گریس ہوپر یا بیک لینڈ تاریخ کی اہم شخصیات نہیں بلکہ نامعلوم ہوتے اور یہ ہمارے لئے بری خبر ہوتی۔ اس معاملے میں ہم پرامید ہو سکتے ہیں۔ سکولنگ میں بہتری کی ضرورت یقیناً ہے۔ لیکن اس وقت بھی کچی آبادی میں رہنے والا بچہ جسے انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے، اس سے زیادہ معلومات تک رسائی رکھتا ہے جتنی کہ میں نوے کی دہائی میں یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں کتابوں کی تلاشش کرتے وقت رکھتا تھا۔
ایجادات میں حکومت کا کردار بنیادی ریسرچ میں ہے۔ جس طرح سمارٹ فون کی ایجاد کے لئے بہت سی ٹیکنالوجیز کی مرہونِ منت تھی جو حکومت کی طرف سے کی گئی بنیادی ریسرچ کی وجہ سے ممکن ہوئی تھیں۔ لیکن بنیادی ریسرچ بنیادی طور پر ہی ایسی چیز ہے جس کے نتائج کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ کئی بار اس چیز میں دہائیاں لگتی ہیں کہ کوئی ق قابلِ عمل یا قابلِ ذکر نتیجہ برآمد ہو سکے۔ ایسی تحقیق حکومت یونیورسٹیوں کو فنڈ کر کے کر سکتی ہے۔
کئی بار ایجادات ہو جاتی ہیں اور استعمال بعد میں نکلتے ہیں۔ لیزر اس کی مشہور مثال ہے۔ کاغذ کو لپیٹنے کے لئے بنایا گیا تھا، لکھنے کے لئے نہیں۔ کئی ایجادات کسی خاص مسئلے کو حل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں لیکن اس سے بہت زیادہ پہنچ دے سکتی ہیں۔ ائیرکنڈیشنر کو رنگین چھپائی ٹھیک رکھنے کا مسئلہ حل کرنا تھا۔
کئی ایجادات کسی خاص انعام کے لئے کی گئیں۔ کلاک کی ایجاد کے پیچھے ملاحوں کو جگہ بتانے کا مسئلہ حل کرنے پر انعامم تھا۔ اس وقت بھی ایسا کیا جا رہا ہے۔ ڈارپا کے 2004 کے گرینڈ چیلنج کی وجہ سے خودکار چلنے والی گاڑیوں میں پیشرفت ہوئی۔ اینٹی بائیوٹک مدافعت کو ٹیسٹ کرنے مسئلہ حل کرنے پر نیسٹا فاونڈیشن کا انعام ہے۔ نمونیا اور گردن توڑ بخار کی کامیاب ویکسین پر ڈیڑھ ارب ڈالر کا انعام ہے جس کو پانچ حکومتوں اور گیٹس فاوٗنڈیشن نے فںڈ کیا ہے۔
کس قسم کے قوانین اور کس طرح کی ریگولیشن ایجادات کو تیزتر کر سکتی ہے؟ اس کا کوئی درست جواب نہیں۔ ایک عام مفروضہ ہے کہ بیوروکریسی کو اس کے درمیان میں سے ہٹ جانا چاہیے اور پھر یہ آسان ہو جائے گا۔ کئی بار ایسا کرنا ببالکل ٹھیک ہوتا ہے۔ انڈیا کی آئی ٹی انڈسٹری ہو یا غریب ممالک سے شروع ہونے والی موبائل منی، ان معاملات میں ایسا ہی ہوا۔ لیکن دوسری طرف، ریگولیشن مضبوط نہ ہونے نے ہمیں سیسے والے پٹرول کی مصیبت بھی دی۔ انٹرنیٹ سمیت کئی ایسی ایجادات ہیں، جو کی ہی حکومت نے ہیں۔ جبکہ کئی ایسی ایجادات ہیں جن کا حکومت کو روکنا ضروری ہے۔
سپیس سے لے کر سائبر سپیس تک ضروری ریگولیشن بھی مفقود ہے۔ اگر ریگولیشن نہ ہو تو بھی ایجادات رک جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ڈرون ٹیکنالوجی میں کام کر رہا ہے تو کسی نہ کسی نے کو یہ یقینی بنانا ہے کہ غیرذمہ دارر مقابلہ بازی کے نتیجے میں اس کا حریف غیرمحفوظ پراڈکٹ کے ذریعے حادثات کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی ہی نہ بند کروا دے۔ ائیرشپ کی صنعت ایک بدقسمت حادثے نے ختم کر دی تھی۔
کئی ٹیکنالوجیز ایسی ہیں، جیسا کہ پبلک کی کرپٹوگرافی، جو اچھے اور برے، دونوں کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ یہ زیادہ پریشان کن ہوتا جائے گا۔ نیوکلئیر میزائل پروگرام تو اس قدر مہنگے ہیں کہ صرف بڑے اور امیر ممالک افورڈ کر سکتے ہیں لیکن جینیاتی انجینر کردہ بیکٹیریل ہ ہتھیار تو شاید مستقبل میں گھر میں بنائے جا سکیں۔ اور اسی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہی جس سے نئی اچھوتی ادویات بن سکیں۔ کیا کیا جائے؟
اور اس چیلنج کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایجادات کا پوٹینشل اس وقت واضح ہوتا ہے جب یہ دوسروں کے ساتھ ملکر کام کرتی ہیں۔ تصور کریں کہ کوئی شخص ایک اچھا ڈرون لے۔ اس میں چہرہ پہچاننے والا اور جیولوکیشن کا سافٹ وئیر ڈالے۔ تھری ڈی پرنٹر میں پستول کا تھری ڈی ڈیجیٹل ٹیمپلیٹ ڈالے۔ اب گھر میں بیٹھ کر ایک خودکار ٹھیک نشانہ لگانے و والا قاتل تیار ہے جو کسی وقت اور کسی جگہ پر آسانی سے نشانہ لے کر اپنا کام کر سکتا ہے۔ (یہ سب ٹیکنالوجیز دستیاب ہیں)۔ مستقبل میں کونسی ایجادات سے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مضر اثرات سے بچاوٗ کے لئے حکومتوں، سیاستدانوں یا بیوروکریٹ سے ٹھیک پالیسی کی توقع رکھنے کے لئے کسی کو حد سے زیادہ پرامید ہ ہونے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ٹیکنالوجی سے ہونے والا سب سے بڑا چیلنج کچھ اور ہے۔ ہر ایجاد اپنے جیتنے والے اور ہارنے والے پیدا کرتی ہے۔ ا اور ہم ہارنے والے کی قسمت کو دیکھ کر کندھے اچکا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب گراموفون نے دوسرے درجے کے فنکاروں کا گزر بسر ختم کی تو وہ بس ہو گئی۔ جب بار کوڈ اور شپنگ کنٹینر نے چھوٹے کاروبار ختم کئے تو وہ بس ہو گئے۔
جب یہ ہارنے والے زیادہ ہوں تو اس سے اثرات سیاسی اور سماجی بھی ہوتے ہیں۔ صنعتی انقلاب نے عام آدمی کا معیارِ زندگی اس قدر تیزی سے اتنا زیادہ بلند کیا جس کا اٹھارہویں صدی میں کوئی تتصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اس میں ہارنے والے ہنرمند لڈائیٹ تھے جن کے لئے یہ انقلاب تباہ کن رہا تھا۔ ان کو ختم کرنے کے لئے فوج بلوانا پڑی تھی۔ نئی عالمی سیاست میں نئے پاپولسٹ شخصیات کا ابھرنا واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ ان کی وجہ نئی ٹیکنالوجی سے ہار جانے والے بھی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن نے دنیا بھر سے لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ اس کی بڑی مثال چین ہے جو نصف صدی پہلے دنیا کی غریب ترین جگہوں میں سے تھا۔ لیکن اسی نے کئی ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع مشکل کر دیا ہے۔ اس صورت میں ایسے لیڈر جو ولن تخلیق کرنے کے ماہر ہیں۔ “ہمسایہ ملک، امیرترین ایک فیصد، آزاد تجارت، نااہل حکومت وغیرہ وغیرہ” مقبول ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر بالفرض خودکار گاڑیاں لاکھوں ڈرائیوروں کو بے روزگار کر دیتی ہیں تو سیاستدان کیا کریں گے؟ اس کا جواب میرے یا آپکے پسندیدہ مقبول سیاستدان کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ کم ہی کسی کے پاس ہے۔
ٹیکنالوجی ایک اور قسم کا فرق بہت آسانی سے واضح کر سکتی ہے۔ اگر خوشحال ممالک کو پسماندہ ممالک کی سستی مزدوری کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر خودکار مشینیں اور مصنوعی ذہانت سے فوائد بڑے پیمانے پر حاصل کئے جا سکتے ہیں تو خوشحال ممالک اپنی آمدنی سے اپنے شہریوں کو یونیورسل بنیادی آمدن کی سہولت جیسے خیالات کی طرف مسقتبل میں جا سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہوا تو یہ کم خوشحال ممالک کے لئے بہت تاریک خبر ہو سکتی ہے۔ انحصار نہ ہونے کا مطلب لاتعلقی بھی ہے۔ تجارت کا خاتمہ بھی ہے۔ پاسپورٹ، ویزا، ویلفئیر سٹیٹ اور سرحد پر اونچی اور مضبوط دیوار جیسی ایجادات کی مدد سے ایلیٹ ممبرشپ بن سکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے معیشت، معاشرت اور سیاست کے بڑے نتائج نکل سکتے ہیں۔ لیکن اس کے بارے میں بڑی پیشگوئیاں قبل از وقت ہیں۔۔۔ دنیا میں سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ کے طور پر 2006 میں MySpace گوگل کو پار کر کے اول نمبر پر آ گئی۔ اب اس کو بھلائے ہوئے بھی برسوں بیت چکے۔ وائینر نے 1968 میں مستقبل کے اندازوں میں فیکس مشین کا بہت بڑا کردار رکھا کیونکہ یہ اسوقت کی hot ٹیکنالوجی تھی۔ فیکس مشین اہم رہی لیکن آج یہ میوزیم کا حصہ بننے کے قریب ہے۔ آج کی سب سے زیادہ توجہ حاصل کر لینے والی ٹیکنالوجی ہی کیا مستقبل کو شکل دے گی؟ یہ بھی صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکنالوجی ہمیشہ پیچیدہ نہیں ہوتی۔ کسان کا ہل آج ہماری تہذیب کا مرکز نہیں لیکن یہ اتنا بہترین کام کرتا ہے ہماریی تہذیب کے لئے اتنا ہی اہم ہے۔ دوسرے سیارے سے اگر کوئی انجنیر آئے تو ہمیں بتائے گا کہ نئی نویلی ٹیکنالوجی سے زیادہ ہمیں S-bend لگانے کی اور کنکریٹ والے فرش انڈیلنے کی ضرورت زیادہ ہے۔ یہ ہم سب کی زندگیوں کو بہتر کر سکتا ہے۔
برے فیصلے لمبے سائے رکھتے ہیں۔ لیکن اچھے فیصلے بہت زیادہ پائیدار ہوتے ہیں۔ اور اپنے غیرمتوقع برے اثرات اور سائیڈ ایفیکٹس کے ساتھ ساتھ (جن کا ذکر اس سلسلے کی ایجادات کے ساتھ کیا گیا ہے)، ہماری تصوراتی اور مادی ایجادات ہمارے لئے برے اثرات کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھے اثرات رکھتی رہی ہیں۔