نشتر میڈیکل کالج میں این ایس او کی بنیاد کیسے پڑی تھی؟
یہ غالبا" 1971 کی بات ہے۔ موسم کونسا تھا، یاد نہیں۔ نشتر میں بائیں بازو کے طلباء کی ایک ہی تنظیم ہوا کرتی تھی، این ایس ایف، جس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ بھٹو کا البتہ میں فین ہوا کرتا تھا۔
این ایس ایف نے ہی مینار پاکستان لاہور پر ہونے والے بھٹو کے جلسے میں " مین پاور" لے جانے کی غرض سے بس کا انتظام کیا تھا۔ مجھے غالبا" فواد علی شاہ نے جانے کی دعوت تھی۔ دس روپے دینے تھے اور لاہور جانا اور آنا پکا، ساتھ بھٹو کا جلسہ بھی سننے کو ملتا۔
بس میں سوار ہو گئے۔ میرے ساتھ ایک سیاہ فام شخص بیٹھا ہوا تھا جس کی عینک کا فریم انتہائی سستا اور سادہ تھا۔ پتلون قمیص واجبی سے ، تسموں والے بوٹ پرانے اور گرد آلود ویسے ہی جیسے اس کی عینک کے شیشے میلے تھے۔ میں ہمیشہ سے نستعلیق، میں نے اسے درخور اعتنا ہی نہیں جانا تھا۔
خانیوال یا چیچہ وطنی سے گذرنے کے بعد نعرے لگنے شروع ہوئے "سرخ ہے، سرخ ہے ایشیا سرخ ہے" مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ ایشیا کیوں سرخ ہے۔ "انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب" سوشلزم سے متعلق پیپلز پارٹی کی وجہ سے جانتا تھا کہ عام لوگوں کے لیے بھلائی کی کوئی بات ہے۔
میں ایک سڑک کے حادثے میں بہت دیر تک بینائی کے مسائل سے دوچار ہو کر تبلیغی جماعت سے تازہ فراری تھا چنانچہ "انقلاب انقلاب" کے نعرے کے جواب میں میرے منہ سے پورے زور سے نکلا "اسلامی انقلاب"۔ بس میں موجود سب پہلے حیران ہوئے پھر ہنس دیے۔
ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے سنجیدگی سے سوشلزم کے بارے میں بتانا شروع کر دیا تھا اور میں بھی توجہ سے سنتا رہا تھا۔ آخر میں اس نے مجھے دو ایک پمفلٹ اور بڑا سا پوسٹر پکڑا دیا تھا جس پر وہی تصویر تھی جو قیصر نذیر کے لگائے گئے دہقان کے شمارے پر ہے۔ اس شخص نے اپنا نام نذیر احمد بتایا تھا اور مجھے کہا تھا کہ نشتر میں این ایس کی برانچ کھولو۔
لاہور سے واپس آتے ہی میں نے اپنے دو ایک دوستوں کو این ایس کو رکن بنا کر وہ بڑا سا پوسٹر اپنے ہوسٹل کے کمرے کے دروازے پر چسپاں کر دیا تھا جو این ایس او کا پوسٹر تھا۔
شام ہوئی تو چند لوگ مجھے سمجھانے آ گئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ "ساتھی، ایک متوازی تنظیم بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے، ایک تنظیم پہلے سے کام کر رہی ہے"۔ مجھے کچھ معلوم ہوتا تو میں ان سے بحث کرتا۔ لاعلمی کوچھپانے کی خاطرمیں نے ان میں سے ایک سے کہا تھا "پہلے بولنا تو سیکھ کر آو" یہ میرے محترم محبوب مہدی تھے۔ دوسرا مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا، اس سے میں نے کہا تھا،"تم اپنے آپ کو بدمعاش خیال کرتے ہو؟" یہ میرا پیارا دوست عزیز نیازی تھا۔
کمرے میں میرے ساتھ میرا محبوب دوست شمعون سلیم بھی تھا جو ان دنوں اسلامی جمیعت طلباء کو مسجد میں قرآن کے دروس بھی دیا کرتا تھا۔ اسے کچھ معلوم تھا اس لیے وہی ان سے بحث کرتا رہا تھا کہ انہیں دوسری تنظیم بنائے جانے پر کیا اعتراض ہے۔
وہ مایوس ہو کر چلے گئے تھے۔ یوں نشتر میڈیکل کالج میں این ایس او کی بنا پڑی تھی۔ نذیر آتا رہا تھا۔ ہمارا کنوینر ایمرسن کالج کا تنویر اقبال اور جنرل سیکرٹری غالبا" اسلام تھا۔ میرے توسط سے نذیر شمعون سے متعارف ہوا تھا اور پھر شمعون این ایس او کے لیے مجھ سے کہیں زیادہ فعال ہو گیا تھا، بقول اس کے "مجھے دریا میں دھکا دے کر خود کنارے پر بیٹھے تماشا کرتے رہے"۔
لیکن ایسی بات نہیں تھی۔ میں ملتان این ایس او کا واحد رکن تھا جسے پولیس کی بے تحاشا مار پڑی، جیل گیا اور ایک عرصہ مقدمات سہے لیکن این ایس او کی وجہ سے نہیں۔ ایک بار پھر اس جلوس میں مجھے این ایس ایف کا فواد علی شاہ اور ہمارا مشترکہ دوست علی شمس القمر زبردستی لے گئے تھے۔
ریمانڈ کے لیے جب کچہری کے احاطے میں لایا گیا تھا تو این ایس او کے اراکین طاہر مرحوم، شریف اور فدا ہی مجھ سے احاطے میں ملے تھے۔ مجھے کچھ کتابیں رسالے اور چند سو روپے دیے تھے۔ ان کتابوں رسالوں کی وجہ سے ہی جیل میں جام ساقی میرا دوست بنا تھا۔
باقی فیاض باقر جانتا ہے کہ میں نے کتنا حصہ لیا اور کتنا نہیں۔ جب فائنل میں پہنچے تو ایک بار جب عزیزالدین صاحب اپنے عمومی دورے پر ملنے آئے تھے تو شمعون سے زیادہ میں ان کے ساتھ تلخی سے بولا تھا مگر جب انہوں نے مکتبہ فکر و دانش بنایا تھا تو ان کے ساتھ پھر سے سلسلہ جنبانی ہو گیا تھا ساترھ ہی جمیل عمر کے ساتھ بھی۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1638625726163531
“