نشاة ثانیہ (Renaissance Age) کا آغازعالمی علم و ادب کی تاریخ میں قرونِ وسطیٰ (Medieval Age) کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کا دور بارھویں صدی عیسوی سے چودھویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔نشاطِ ثانیہ کا آغاز اٹلی کے شہر فلورنس میں ہوا۔فرانسیسی لفظ ریناساں کا مطلب دوبارہ جنم یا دوسرا جنم (Rebirth) ہے۔
29 مئی1453 کو بازنطینی سلطنت کا تختہ عثمانیوں نے الٹ دیا اور اس کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول میں یونانی سکالرز مقیم تھے۔ شہر کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث یہ تمام قسطنطنیہ سے ہجرت کرکے پورے یورپ میں پھیل گئے۔ ان سکالرز کے پاس قدیم یونانی اور رومی کتابوں کے اولین مسودات تھے۔ جیسے ہی وہ مسودات یورپ کے مختلف ممالک میں پہنچے علم، ادب ، تاریخ، سائنس اور فلسفہ کے میدان میں ایک انقلاب بپا ہو گیا۔کچھ عرصہ بعد چھاپہ خانہ کی ایجاد کے بعد قدیم مسودات کتابوں کی شکل میں ڈھلنا شروع ہو گئے جس سے سولھویں صدی میں ایک بہت بڑے ا نقلاب نے سر اٹھایا۔مسلمانوں کی سپین میں حکومت جو آٹھویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی تھی نے یورپ میں عیسائی حکومت کے زوال اور مسلمانوں کے عروج کا آغاز کیا تھا۔نشاطِ ثانیہ میں یہ ترتیب الٹ گئی۔ 1492 میں جب مسلمانوں کے ہاتھوں سے سپین چھن گیا تو عیسائی حکومتوں کا دوسرا عروج شروع ہوا۔
نشاة ثانیہ جس کا آغاز اٹلی سے ہوا کے اثرات بہت جلد پورے یورپ خاص کر برطانیہ میں پہنچ گئے۔ یہ دور پچھلے دور یعنی قرونِ وسطیٰ سے بالکل الٹ تھا۔ پچھلے دور میں خدا کو مرکزِ کائنات مانا جاتا تھا لیکن نشاطِ ثانیہ میں انسان کائنات کا مرکز سمجھ لیا گیا۔ اس واسطے اس عہد کو (Age of Humanism) بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی ادب کی تاریخ میں یہ عہد 1500 سے 1600 تک سمجھا جاتا ہے۔ اس دور کو ادب کے لحاظ سے کئی اور ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جن میں معروف نام مندرجہ ذیل ہیں۔
زمانہ جدید، الیزابتھ کا دور، پہلا رومانوی عہد، شیکسپیئر کا زمانہ، دولت،طاقت اور علم کی لالچ کا عہد، مادیت پرستی کا دور وغیرہ۔ ادب کے میدانوں میں ڈرامہ نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ شاعری میں سپینسر، جان ڈن اور شیکسپیئر نے رومانوی شاعری کی بنا ڈالی۔ ڈرامہ میں نوجوانوں کا ایک گروہ جس کو Univeristy Wits کہا جاتا تھا نے کئی کامیاب ڈرامے تخلیق کیے۔ شیکسپئر کے لکھے گئے 37 ڈرامے انگریزی ادب کا سرمایہ ہیں۔ کرسٹوفر مارلو جو شیکسپیئر کا ہم عصر تھا نے چار پانچ ڈرامے لکھے لیکن اپنے عہد کی ضروریات کو پورا کرنے کے باعث اسے منفرد مقام حاصل ہے۔
نشاة ثانیہ کی خاص بات انگریزوں کی مذہب سے دوری ہے۔ مذہب کا نام موجود تھا لیکن حقیقی مذہبی روح غائب ہو چکی تھی۔ چرچ جانے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔ عیسائیت کے دو گروہوں میں فاصلے بڑھنا شروع ہو گئے تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ کی چلائی گئی اصلاحی تحریک نے کیتھولک عیسائیت کی گود سے پروٹیسٹنٹ مذہب کو جنم دیا۔ سولھویں صدی سے آج تک ڈرامے ، شاعری، تاریخ ، فلسفہ اور دوسرے علمی میدانوں میں عیسائی فرقوں کی کشمکش واضح دکھائی دیتی ہے۔انگریز نقادوں کے مطابق نشاة ثانیہ میں انسان سویا ہوا تھا لیکن جیسے ہی نشاطِ ثانیہ کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں انسان بیدار ہو گیا۔