نصف صدی کی مسلسل تحقیق کے بعد سدا بہار پھول کا اہم طبی راز دریافت
اب سے 60 سال قبل سدا بہار کے پودے میں ضدِ سرطان جزو دریافت ہوا تھا لیکن اب اس راز سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے کہ آخر اس پھول میں یہ مرکبات کیونکر پیدا ہوتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق مڈغاسکر پیری ونکل یا روز پیری ونکل سدا بہار پھول کی ایک قسم ہے۔ اس کے پتوں سے وِن بلاسٹین نامی مرکب نکالا جاتا ہے۔ 1950 میں معلوم ہوا کہ یہ مرکب کینسر کے خلاف انتہائی مؤثر کردار ادا کرتا ہے اور یہ کیمیکل خلیات کو تقسیم ہونے سے روک کر مثانے، پھیپھڑوں، اووری اور چھاتی کے کینسر کو درست کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
وِن بلاسٹین کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسے اخذ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور 500 کلوگرام خشک پتوں سے اس کی صرف ایک گرام مقدار ہی نکالی جاتی ہے اور اس کے باوجود یہ عمل بہت سست اور مہنگا ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ماہرین وِن بلاسٹین کے بننے کے عمل پر 60 سال سے غور کررہے ہیں تاکہ اسے مصنوعی طور پر تجربہ گاہ میں تیار کیا جاسکے۔
برطانیہ میں واقع جان آئنز سینٹر سے وابستہ پروفیسر سارہ او کونر اور ان کی ٹیم نے گزشتہ 15 برس سے مڈغاسکر سدا بہار پھول پر جینیاتی تحقیق کررہے ہیں۔ اب یہاں کے ڈاکٹر لورینزو کیپیوٹی اور فرانس کے ماہرین نے ملکر اس معمے کا آخری حصہ بھی حل کردیا ہے جس کے لیے جینوم ڈرافٹنگ کی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہیں اور انہوں نے وِن بلاسٹین پیداوار میں اب تک اوجھل رہنے والے اہم جین دریافت کرلیے ہیں۔
ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ وِن بلاسٹین کسی بھی پودے میں اب تک دریافت ہونے والا پیچیدہ ترین مرکب ہے۔ اسی لیے گزشتہ 60 برس سے اس کا معمہ حل نہیں ہورہا تھا۔ اب یقین نہیں آتا کہ ہم نے یہ کام کردکھایا ہے۔‘
ماہرین نے اعتراف کیا کہ پوری دنیا کے ماہرین نے برسوں کی محنت کے بعد اس راز کو دریافت کیا ہے جسے بلاشبہ ایک عالمی کاوش کہا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے دو اہم اینزائم (خامروں) کیتھرنتھائن اور ٹیبرسونائن کا پتا لگایا ہے جس کے ذریعے وِن بلاسٹین کی مصنوعی تالیف یعنی لیبارٹری میں تیاری میں مدد مل سکے گی۔
ماہرین کے مطابق 1960 اور 1970 کے عشرے میں ہونے والی تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وِن بلاسٹین کے بننے میں 31 مختلف مراحل ہوتے ہیں لیکن دو اینزائم اس عمل کو مختصر کرسکتے ہیں۔
سارہ او کونر کے مطابق اس دریافت کے بعد یا تو پودے یا پھر تجربہ گاہ میں وِن بلاسٹین کی پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ اگلے ایک سے ڈٰیڑھ برس میں وِن بلاسٹین کی خاطرخواہ مقدار بنانے میں اہم کامیابی حاصل ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے ممتاز کیمیاداں ڈاکٹر عطاالرحمان نے بھی سدا بہار کے پودے سے ون بلاسٹین اور ون کرسٹین نامی دو اہم مرکبات پر قابلِ قدر کام کیا ہے جو کئی اقسام کے کینسر کے علاج میں انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ وِن بلاسٹین کو پھیپھڑوں کے کینسر میں کیموتھراپی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جس سے مریض کو فائدہ ہوتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔