’’آج میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس سینیٹ میں تقریباً دس سے بارہ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوں شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ ووٹ پارٹی کی امانت تھی جو میں نے پوری کی۔ ……… میں نے آج اپنے ضمیر کے خلاف ………‘‘
یہاں پہنچ کر جناب رضا ربانی کی آواز بھرا گئی۔ اور وہ سینیٹ میں اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ اپنے ضمیر کے خلاف یہ ووٹ انہوں نے اکیسویں ترمیم کے حق میں دیا تھا اس لیے کہ پارٹی کا حکم یہی تھا۔
رضا ربانی آئین کا دفاع کرنے والے نڈر سپاہی ہیں۔ آئین کی روح جب بھی کچلی جائے‘ ان کی آواز بھرا جاتی ہے۔ دلگیر ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں چھلک چھلک اٹھتی ہیں۔ دستور کے لیے اتنی محبت‘ اتنا خلوص‘ اتنا سوزوگداز آج شاید ہی کسی اور دل میں ہو؟ انہیں اٹھارہویں ترمیم کا خالق سمجھا جاتا ہے جس نے بہت سے اختیارات مرکز سے لے کر صوبوں کو سونپ دیے‘ یہ ان کی بڑائی ہے کہ وہ اس کا کریڈٹ اپنے آپ کے بجائے ستائیس رکنی کمیٹی کو اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو دیتے ہیں!
پرسوں ایک میڈیا ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھے ہیں کہ آئین اور پارلیمانی تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو یہ بھی معلوم ہو سکے کہ آئین کن مشکلات میں تیار کیا گیا اور اس کی کتنی اہمیت ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ جناب رضا ربانی کے اس جذبے کی تفہیم اس کی اصل روح کے مطابق ہونی چاہیے۔ اور اس ضمن میں وہ تمام اقدامات‘ وہ تمام واقعات اور وہ تمام سانحے تاریخ کا حصہ بنانے چاہئیں جنہوں نے ہمارے آئین کا چہرہ وقتاً فوقتاً مسخ کیا۔ جناب رضا ربانی یہ بھی ضرور چاہیں گے کہ نوجوانوں کو آرڈیننسوں کی سیاہ تاریخ سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ مثلاً جب 2007ء کے اکتوبر میں ایک آمر نے این آر او جاری کیا تو اگر میڈیا والے جناب رضا ربانی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو وہ اُس وقت بھی ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کے موتی دیکھتے۔ ان کی آواز اس وقت بھی یقینا بھرا گئی ہو گی۔ نوجوانوں کے نصاب میں اس حقیقت کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے کہ اس آرڈیننس‘ یعنی این آر او کی رُو سے 1986ء اور 1999ء کے درمیان جن سیاست دانوں‘ جن سیاسی کارکنوں اور نوکر شاہی کے جن نمائندوں نے غبن‘ منی لانڈرنگ‘ قتل اور دہشت گردی سمیت جو جو جرائم کیے تھے‘ وہ سب معاف کر دیئے گئے۔ نصاب میں یہ بھی لکھا جانا چاہیے کہ اس عام معافی سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف علی زرداری‘ بے نظیر بھٹو‘ حاکم علی زرداری‘ رحمن ملک‘ سلمان فاروقی‘ سراج سلیم شمس الدین جیسے پارٹی کے زعما اور وفادار شامل تھے۔
جناب رضا ربانی نے بالکل درست فرمایا کہ جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کر کے صوبائی خودمختاری سلب کر لی اور صدارتی نظام کو مضبوط کر لیا۔ بالکل درست فرمایا آپ نے۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ قوم کے نونہالوں کو مجلسِ شوریٰ کے اُن ارکان کے ناموں سے بھی آگاہ کیا جائے جنہوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ پیپلز پارٹی کے افراد تو ان میں یقینا نہیں ہوں گے۔
اور پھر نوجوانوں کے نصاب میں صرف پارلیمانی تاریخ ہی کیوں؟ پوری کی پوری تاریخ کیوں نہ پڑھائی جائے۔ کہیں نوجوان یہ نہ سمجھ لیں کہ ملک میں جو کچھ ہوتا رہا‘ آئین کے خلاف ہوتا رہا کیونکہ جب ملک میں جناب رضا ربانی جیسے آئین کے سپاہی موجود تھے تو کس کی مجال تھی کہ آئین کی خلاف ورزی کرتا! مثلاً سوئٹزرلینڈ کا ہماری تاریخ میں کیا کردار رہا ہے؟ اس سے آئندہ نسل کو ضرور واقفیت ہونی چاہیے۔ سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں مشہور مقدمہ کون سا تھا؟ اس کی بنیاد کیا تھی؟ یہ کون تھا جو لندن سے خفیہ طور پر سوئٹزرلینڈ آیا تھا؟ جو بارہ کارٹن سوئٹزرلینڈ سے پاکستانی سفارت خانے نے حاصل کیے ان میں کون کون سی دستاویزات تھیں؟ یہ کارٹن اس وقت کہاں ہیں؟
پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے نصاب میں یہ واقعہ بھی ضرور لکھا جانا چاہیے کہ 2010ء میں جب ملک میں سیلاب زوروں پر تھا‘ پندرہ سو سے زیادہ پاکستانی ہلاک ہو گئے
تھے اور پچاس لاکھ افراد بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے پڑے تھے تو ملک کی کون سی اعلیٰ شخصیت فرانس کی ایئرفورس کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر اندرونِ فرانس تشریف لے گئی تھی۔ سولہویں صدی میں تعمیر کیا جانے والا یہ محل جو بادشاہ فلپ ششم کی بیوہ کے لیے بنایا گیا تھا‘ کس پاکستانی کی ملکیت تھا۔ موسم گرما وہاں کون باقاعدگی سے گزارتا تھا؟ پاکستان کی تاریخ میں سرے محل کی کیا اہمیت ہے؟ انٹرنیٹ کے وہ لنک بھی شامل نصاب ہونے چاہئیں جو دبئی کا ایک عظیم الشان‘ پرشکوہ‘ محل دکھاتے ہیں۔ محل تو شاید اس عمارت کے لیے مناسب نام بھی نہیں! یہ تو بادلوں سے اترا ہوا پرستان ہے۔ ایک ایک فانوس‘ ایک ایک چھت‘ ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کرسی‘ ایک ایک ڈیکوریشن پیس ایسا ہے کہ انسانی آنکھ چندھیا سکتی ہے مگر بھرپور نظر سے دیکھ تک نہیں سکتی۔ نصاب میں سینئر صحافی انجم نیاز کا وہ مضمون ضرور شامل ہونا چاہیے جس میں اس پُراسرار‘ طلسماتی اپارٹمنٹ کا ذکر ہے جو سیما بوئسکی نے فروخت کیا تھا۔ نوجوان یوں بھی طلسماتی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ مشہور تھا کہ اس اپارٹمنٹ کو خریدنے والا بچ نہیں پاتا۔ یہ ضرور بتانا چاہیے کہ یہ محل نما بے نظیر و بے مثال اپارٹمنٹ سیما سے کس نے خریدا تھا اور کتنے میں خریدا تھا؟
جناب یوسف رضا گیلانی اور جناب راجہ پرویز اشرف کے ادوارِ حکومت ہماری تاریخ‘ بالخصوص پارلیمانی تاریخ کے وہ درخشاں ابواب ہیں جو نصاب کا لازمی حصہ بننے چاہئیں۔ اس زمانے میں عجیب و غریب اصطلاحات وضع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئیں مثلاً ایم بی بی ایس۔ جو مخفف تھا‘ میاں بیوی بچوں سمیت کا! کچھ واقعات وزارت حج میں بھی رونما ہوئے۔ زنداں کے ساتھیوں کو بھی کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ بالخصوص یہ مکالمہ جو کل جناب ہارون الرشید نے روایت کیا ہے‘ پرائمری جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہر نصاب کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے…
’’شاہ محمود قریشی نے مجھ سے بیان کیا زرداری صاحب سے میں نے عرض کیا یوسف رضا گیلانی دھڑا دھڑ مال بنا رہے ہیں۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا کا جواب یہ تھا تو اس میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہ واقعہ اگرچہ ہماری تاریخ کا سنگِ میل نظر آتا ہے مگر چونکہ اس میں اٹھارہویں ترمیم کی کوئی بے حرمتی نہیں ہوئی‘ اور آئین پر اس سے کوئی داغ نہیں لگا‘ اس لیے عین ممکن ہے جناب رضا ربانی کی آنکھوں میں موتیوں جیسے آنسو بھر آئیں نہ آواز بھر آئے مگر اس کے باوجود اس مکالمے کو نصاب میں مناسب مقام ضرور ملنا چاہیے!
ستمبر 2008ء سے لے کر ستمبر 2013ء تک کا عرصہ پاکستانی تاریخ کے سلگتے ریگزار میں نخلستان کی طرح ہے۔ بہتے پانیوں کے چشموں سے بھرپور ہرا بھرا نخلستان! بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کوئی مخلص اور بے لوث قیادت اس ملک کو نصیب ہوئی تو وہ اسی مدت کے دوران ہوئی۔ آئین اور قانون سے اس عرصہ میں سرِ مو انحراف نہ کیا گیا۔ تمام تعلیمی اداروں میں اور تمام کلاسوں‘ تمام درجوں میں ان پانچ سالوں کی تاریخ کو نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“