کوئی وقت تھا کہ ’نرالا سویٹس‘ کو پاکستان میں مٹھائیوں کی دنیا میں ایک بے تاج بادشاہ کی سی حیثیت حاصل تھی۔ اس نے پاکستان میں مٹھائی کے کاروبار کو ایک نئی طرح دی تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میں جیسے ہی مٹھائی کا خیال آتا تو دھیان ’نرالا سویٹس‘ ہی کی طرف جاتا تھا۔ ’نرالاسویٹس‘ کو شروع کرنے والی اور پھر ترقی کی معراج تک لے جانے والی فیملی کو ’نرالا فیملی‘ کہتے تھے۔ ان کی ترقی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شایداپنے وقت میں مٹھائیوں کا واحد پاکستانی ادارہ تھا جس نے اپنے قدم بیرون ملک تک پھیلا لئے تھے لیکن پھر اس کے مالکان کے ایک غلط فیصلے نے ’نرالا سویٹس‘ کو تباہ اور کنگال کرکے رکھ دیا۔
’نرالاسویٹس‘ آج بھی پاکستان کے کچھ شہروں میں موجود ہے لیکن اس کی مالک ’نرالا فیملی‘ نہیں ہے۔014 ء تک ’نرالاسویٹس‘ کو نرالا فیملی چلا رہی تھی، ’نرالاسویٹس‘ کی پاکستان اور بیرون ملک 39 برانچز تھیں۔ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ تک ’نرالا‘ پھیل چکا تھا۔مٹھائیوں کے علاوہ ’نرالا‘ کی اپنی ڈیری پراڈکٹس اور سنیکس بھی تھے۔ یہ کمپنی اربوں کی مالک تھی۔
’نرالا سویٹس‘ کو شروع کرنے والے شخص کا نام تاج دین ہی، یہ کشمیر میں رہا کرتے تھے اور وہاں گرم شالیں بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں لاہور منتقل ہوگئے اور گرم شالیں ہی بیچنے لگے لیکن انھیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ لاہور میں گرم شالوں کا سیزن صرف کچھ مہینوں کا ہوتا ہے۔ اس لئے انھیںکوئی اور کاروبار شروع کرنا چاہئے۔ انھیں پتہ تھا کہ لاہوری میٹھا کھانے کے بے حد شوقین ہیں۔
پاکستان نیا وجود میں آیا تھا، اس وقت لاہور میں مٹھائی کی زیادہ دکانیں نہیں تھیں۔ تاج دین نے فلیمنگ روڈ پر ’نرالاسویٹس‘ کے نام سے ایک دکان شروع کی جہاں یہ مٹھائی اور ناشتے میں حلوہ پوری بیچا کرتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دکان نہ صرف لاہور بلکہ گردونواح میں بھی مشہور ہوگئی۔ لوگ دور دراز سے بھی مٹھائی خریدنے کے لئے آنا شروع ہوگئے۔ تاج دین نے یہ دکان اپنے بڑے بیٹے فاروق احمد کو دیدی۔بیٹے نے ’نرالاسویٹس‘ کو سنبھال لیا۔ فاروق احمد ’نرالاسویٹس‘ کو پورے پاکستان میں پھیلانا چاہتے تھے۔انھوں نے مٹھائی کے کاروبار سے متعلق مزید جاننے کے لئے مختلف ممالک کے دورے کرنا شروع کردئیے تاکہ وہ مٹھائی بنانے کی تکنیک کو بہتر کرسکیں اور اس سے ان کے کاروبار میں مزید بہتری آئے۔ فاروق احمد نہ صرف ایک کاروباری بلکہ دیگر کئی حوالوں سے بھی لاہور کی ایک مشہور شخصیت بن چکے تھے۔ اس کی ایک دوسری وجہ ان کاکھلا دل اور سخاوت بھی تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب ’نرالاسویٹس‘ پر کام کرنے والے ورکرز کے ہاتھ مٹھائی بناتے ہوئے جل جایا کرتے تو فاروق احمد نے لاہور کے ایک مشہور حکیم سے ایک ‘برن کریم تیار کروائی جو وہ اپنے ورکرز کو دیاکرتے تھے۔ یہ کریم انتہائی سریع الاثر تھی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ پورے لاہور میں مشہور ہوگئی۔ اب فاروق احمد نے یہ کریم ہر کسی کو مفت میں دینا شروع کردی چاہے وہ کوئی بھی ہو، فاروق احمد اس کی ایک پیسہ قیمت بھی کسی سے نہ لیتے۔ لوگ ان کی اس عادت سے بے حد متاثر تھے۔
اسّی کے عشرے کے اواخر میں فاروق احمد کی صحت خاصی خراب ہوگئی۔ نتیجتاً یہ فیملی بزنس فاروق احمد کے بڑے بیٹے فیصل فاروق کے حوالے کردیا گیا جن کی عمر اس وقت صرف بیس سال تھی۔ تاہم انھوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’نرالاسویٹس‘ کے کاروبار کو مزید پھیلا دیا۔ یوں ’نرالاسویٹس‘کامیابی کی مزید منزلیں طے کرنے لگی۔ اگرچہ یہ نوجوان کم عمر تھا لیکن وہ نرالا سویٹس کی برانچز ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ کئی برس تک نرالا سویٹس کو کامیابی سے چلانے کے بعد، اسے ایک برانڈ بنادینے کے بعد فیصل فاروق کے ایک غلط فیصلے نے نہ صرف ان کی بلکہ ان کی پوری فیملی کی زندگی تبدیل کرکے رکھ دی۔ نتیجتًا اربوں روپوں کی مالک نرالا فیملی اب کرائے کی مکان میں رہنے پر مجبور ہوگئی۔
یہ ہوا کیسے؟
نرالا سویٹس کامیابی سے چل ہی رہی تھی لیکن فیصل فاروق نے ’نرالاسویٹس‘ کے ساتھ مزید کئی کاروباروں میں سرمایہ لگانا شروع کردیا۔ انھیں ڈیری کاکام کرنے کا بے حد شوق تھا۔ یہ ڈیری کی ایک بہت بڑی فیکٹری کھولنا چاہتے تھے لیکن اس کے لئے بہت زیادہ پیسے درکارتھے۔ چنانچہ اس نے بنک آف پنجاب میں قرضے کے لئے درخواست دیدی۔ ان کی ہرجگہ بہت جان پہچان تھی اور نرالا کا بھی بڑا نام تھا کہ یہ بنک آف پنجاب سے ڈیڑھ ارب روپے کا قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بات 2004 کی ہے۔ اُس وقت کے ڈیڑھ ارب آج کے چار یا پانچ ارب کے برابر ہوں گے۔اس کے بدلے میں فیصل فاروق نے اپنی ساری جائیداد بنک آف پنجاب کے پاس گروی رکھوا دی۔ قرضہ حاصل کرنے کے بعد فیصل فاروق نے فیصل آباد سے اوکاڑہ جانے والی روڈ پر ایک بہت بڑی ڈیری فیکٹری کی بنیاد رکھ دی۔ اس وقت ملک بھر میں ڈیری کے کام میں منافع نہ ہونے کے برابر تھا۔فیصل فاروق کو ان کی فیملی اور دوستوں نے کافی سمجھایا کہ وہ اس قدر بڑا رسک نہ اٹھائے لیکن فیصل نے کسی کی نہ سنی۔ ان کے سر پر صرف ڈیری کا کاروبار کرنے کا بھوت سوار تھا۔
آغاز ہی سے یہ ڈیری فیکٹری نقصان میں جانے لگی۔ فیصل ’نرالاسویٹس‘ کی آمدنی سے اس فیکٹری کا نقصان پورا کرنے لگے جس سے ’نرالاسویٹس‘ پر بھی برا اثر پڑنے لگا۔ کئی مہینے گزر گئے اور فیصل اپنی جیب سے اس ڈیری فیکٹری کا نقصان پورا کرتے رہے۔ انھیں امید تھی کہ جلد ہی یہ نقصان منافع میں بدل جائے گا لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ فیصل نے بنک آف پنجاب سے بھاری سود پر قرضہ لیا ہی تھا، ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مزید کئی جگہوں سے قرضہ لینا شروع کردیا تھا۔ یہ سب پیسے ڈیری فیکٹری کے ہرمہینے کا نقصان پورا کرنے میں لگ جاتے۔ فیصل فاروق بنک کے اصل قرضے کی قسط تو دور کی بات، اس پر اُٹھنے والا سود بھی ادا نہیں کرپارہے تھے۔ انھوں نے جو پراپرٹی بنک کے پاس گروی رکھوائی تھی، اس میں ملتان روڈ پر کئی سو کنال زمین، جیل روڈ، مون مارکیٹ، حفیظ سنٹر میں درجنوں دکانیں اور لاہور ہی میں فیکٹریز بھی اس میں شامل تھیں۔ اس ساری پراپرٹی کی مالیت کافی زیادہ تھی۔ بنک نے ان کی ساری پراپرٹی ضبط کرلی، فیصل فاروق شدید ڈپریشن میں چلے گئے۔ ’نرالاسویٹس‘ بھی آہستہ آہستہ قرضے میں ڈوبنے لگی۔ ڈیری کا نقصان پورا کرتے کرتے ’نرالا‘ کے لئے بھی مسائل کھڑے ہوگئے تھے۔اس پریشانی کے ساتھ ساتھ فیصل پر ایک اور مشکل آن پڑی۔ان کی گاڑی کی ٹکر سے ایک نوجوان چل بسا۔ فیصل کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اسے دس دن کے لئے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ بعد میں انھوں نے اس لڑکے کی فیملی کو پیسے دے کر معاملہ ختم کرایا۔
فیصل فاروق کی زندگی میں ڈپریشن اور سٹریس بڑھ چکا تھا۔ اس وقت کے ’نرالاسویٹس‘ متحدہ عرب امارات کے مینجر کے مطابق فیصل کو ان کے دوست چھوڑکرجانے لگے۔ ’نرالاسویٹس‘ کے ملازمین بھی دوسری جگہوں پر جانے کی کوششیں کرنے لگی، فیصل فاروق کی زندگی بالکل بکھر گئی تھی لیکن انھوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ’نرالا سویٹس‘ کو جیسے تیسے چلاتے رہے لیکن یہ سلسلہ 2014 میں آکر رک گیا۔ یہ سال فیصل اور نرالا فیملی کے لئے آخری کاروباری سال ثابت ہوا۔
’نرالاسویٹس‘ کی وارث روڈ پر قائم فیکٹری کو ٹیکس نہ ادا کرنے پر سیل کردیا گیا۔ فیصل فاروق اس وقت ملک سے باہر تھے ، ان کی غیرموجودگی میں انھیں ’مفرور‘ قرار دیدیاگیا۔ کوئی وقت تھا کہ وہ ملک کے بڑے سیاست دانوں اور کاروباری افراد کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے لیکن اب وہ ’بھگوڑا‘ قرار دیدیے گئے تھے۔ فیصل فاروق کچھ عرصہ بعد خود ہی وطن واپس آگئے۔ ان کا سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ فیصل فاروق اب اکہتر برس کے ہوچکے ہیں۔ لاہور کے نواحی علاقے میں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بیٹے ملازمتیں کرکے گھر چلاتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ فیصل فاروق نے دولت کے نشے میں اپنے خاندان کو بھی بھلا دیا تھا اور اپنے چچائوں کو کاروبار سے علیحدہ کردیا تھا
“