عبدالحق کے ہاتھ میں ایک سرکاری خط تھا۔ یہ رہائی کا پروانہ تھا، عبدالحق جلد از جلد یہ خط متعلقہ حکام کو پہنچانا چاہتا تھا تاکہ اس کے والد کو رہا کردیا جائے۔وہ 13 فروری 1861ء کو پورٹ بلیئر پہنچا۔ کشتی سے اتر کر جزیرے میں پائوں رکھا ہی تھا کہ سامنے جنازہ دیکھا۔پوچھا کس کا ہے؟ جواب ملا، فضل حق خیر آبادی کا، جو اس کے والدتھے!
مولانا فضل حق خیر آبادی جزائر انڈیمان کے واحد قیدی نہیں تھے۔1857ءکا محشر تھما تو درختوں کی شاخیں مجاہدین کی گردنوں کے لئے کم پڑگئیں۔انگریزوں کے پاس جغرافیے کا علم بھی تھا اور جہازرانی کے وسائل بھی۔ انہوں نے جزائر انڈیمان کو قید خانہ قرار دیا اور سزایافتگان کو جہازوں میں لاد کر لے گئے۔ہندوستانیوں نے جزائر انڈیمان کا نام کالا پانی رکھا۔ اس وقت تک سرکاری احکام بڑی حد تک فارسی میں لکھے جاتے تھے جسے کالے پانی بھیجا جاتا اس کے نام آگے’’بعبور دریائے شور‘‘ لکھا جاتا! سزا یافتگان کو انگریزوں نے آسٹریلیا بھی بھیجالیکن وہ سفید فام تھے اگر کالے پانی کے قیدی ہندوستانی نہ ہوتے، سفید فام ہوتے تو کیا عجب انڈیمان کے جزائر بھی آج آسٹریلیا کی طرح ترقی یافتہ ملک ہوتے۔
انڈیمان کے جزائر دراصل 572جزیروں کا مجموعہ ہیں۔ یہ خلیج بنگال میں واقع ہیں۔ اس طرح کہ ان کے شمال اور مشرق میں برما پڑتا ہے اور مغرب میں ہندوستان۔ ان 572جزیروں میں ایک جزیرہ شمالی سینٹینیل ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں کوئی جاتا ہے نہ وہاں سے آتا ہے۔ کل250کے لگ بھگ افراد یہاں رہتے ہیں، ان 250افراد کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں نہ ہی یہ کسی قسم کا تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔بہت کوششیں ہوئیں کچھ لوگ تحائف لے کر گئے، کچھ ماہی گیر بن کر ،کچھ صحافیوں کے روپ میں، کچھ کے جہاز تباہ ہوگئے تو گرتے پڑتے ڈوبتے پڑتے جزیرے میں پہنچ گئے لیکن جزیرے کے باشندوں نے کسی کو قبول نہ کیا۔ بھالوں اور تیروں سے استقبال ہوا، جو بھاگ آئے بچ گئے ،باقی مارے گئے۔2004ء میں سونامی آیا تو جزائر انڈیمان بھی اس کے راستے میں پڑے۔ بھارتی حکومت نے جس کی ملکیت میں یہ جزائر ہیں ،امدادی سامان دے کر ہیلی کاپٹر بھیجا۔ ایک ہی مقامی شخص دکھائی دیا جس نے ہیلی کاپٹر پر تیروں کی بوچھاڑ کردی۔
ماہی گیری اور جانوروں کے گوشت پر گزارا کرنے والے یہ لوگ کھیتی باڑی سے بھی ناواقف ہیں۔ جو بحری جہاز، جزیرے کی ساحلی چٹانوں سے ٹکرا کر ناکارہ ہوگئے ان سے یہ لوگ لوہا اکھاڑ کر لے گئے اور یوں لوہا، وہ واحد جدید عنصر ہے جس سے یہ مخلوق آشنا ہے۔ رہا وہ سب کچھ جو دنیا میں ہورہا ہے انٹرنیٹ یا خلا میں تیرتے مصنوعی سیارے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
ہم پاکستانی اپنی فطرت میں…اورقسمت میں بھی …اس جزیرے کی آبادی کی طرح ہیں۔ دنیا سے لاتعلق! اپنی ماہی گیری اور شکار میں مگن! ہم وہ گھنا جزیرہ ہیں جہاں ایک دوسرے سے پیوست درخت سورج کی کرن زمین پر نہیں پڑنے دیتے۔ آپ بنیادی حقوق کی اس روشنی کو تو رہنے دیجئے جس میں آج کی ترقی یافتہ دنیا نہارہی ہے اس المیے پر غور کیجئے کہ چودہ سو سال پہلے جو آفتاب عالم تاب نکلا تھا ، جس کے نور سے آج کی مہذب دنیا مہذب کہلاتی ہے، اس کی کرنیں بھی ہمارے جزیرے پر نہیں پڑیں!ہم جس اندھیرے میں، جس کیچڑ میں، جس غلاظت میں، حشرات الارض کی جس بھرمار میں رہ رہے ہیں اس کی صرف ایک مثال کافی ہے۔ موٹر سائیکل کی چوری کے شبہ میں پنچائیت نے ملزم کو بے گناہی ثابت کرنے کے لئے دہکتے انگاروں پر چلنے کا حکم سنایا۔ یہ حکم صرف سنانے تک محدود نہ تھا۔ اس پر عمل بھی کیا گیا ہے، ملزم دہکتے انگاروں سے گزرا اور پھر….دل تھام کر پڑھیئے، مولوی یار محمد بگٹی نے ملزم کے پیروں کا معائنہ کیا، چونکہ جلنے کے آثار موجود نہ تھے اس لئے بے گناہی کا اعلان کردیا گیا۔
بارہ فٹ لمبا، دو فٹ چوڑا اور دو فٹ گہرا گڑھا کھود کر اس میں چار پانچ سو سیر خشک لکڑیاں ،تین چار گھنٹے تک جلائی جاتی ہیں پھر اس پر ملزم کو چلایا جاتا ہے۔ بگٹی قبیلے سے شروع ہونے والا یہ عدالتی نظام اب دوسرے بلوچ قبیلوں تک پھیل چکا ہے۔ کئی بلوچ قبائل اسے اپنی روایات کا حصہ سمجھتے ہیں مگر جو بھی چیز انسانی حقوق کے خلاف ہو وہ اچھی روایت کیسے ہوسکتی ہے؟ تین دن پہلے کا یہ واقعہ ڈیرہ غازی خان کا ہے جو پنجاب کا دروازہ ہے۔ اگلے کچھ عرصہ میں کیا عجب یہ نظام لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچ جائے۔
کیا ہوا اگر ہم نے ستر پتوں سے نہیں ڈھانکا ہوا اور ہاتھوں میں تیر اور بھالے نہیں پکڑے ہوئے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر ہمارے حکمران صبح دبئی میں تو دوپہر لندن میں اور شام نیویارک میں گزارتے ہیں۔ کیا ہوا اگر میٹرو بسیں چلائی جارہی ہیں اور ہوائی اڈے تعمیر ہورہے ہیں۔ ہماری زندگی کے وطیرے تو جنگلی قبائل کے سے ہیں۔ شاید اس سے بھی بدتر! کم از کم جزائر انڈیمان کے وحشیوں میں اتنی عقل ضرور ہوگی کہ وہ چور کے خلاف شہادتیں طلب کریں اور پھر اسے مجرم یا بے گناہ قرار دیں۔
زرداریوں ،شریفوں، چودھریوں، لغاریوں اور کھوسوں کو تو یہ صورتحال راس آتی ہے کہ ایسے ہی عوام کالانعام کی بدولت چمڑے کے دام دوام حاصل کرتے جارہے ہیں مگر سول سوسائٹی کہاں ہے؟ کتوں اور مرغوں کے مقابلے ختم کرنے کے لئے آئے دن جلوس نکالنے والے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر مردانہ آواز میں تقریریں کرنے والیاں کہاں ہیں؟ کیا اس لئے چپ ہیں کہ یہ وحشیانہ ’’عدالتیں‘‘ان کے دمکتے شہروں سے دور ہیں؟ ہرگز نہیں!یہی لیل و نہار رہےتو مولوی لال محمد بگٹی بہت جلد ان کے سروں پر بھی کھڑا ہوگا!
اور کہاں ہیں وہ علم برداران دین جو دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ وہ شریعت محمدیہ کے محافظ ہیں؟ جنہیں ہر آنکھ میں مشکوک جانور کا بال نظر آتا ہے اور جنہیں پورے ملک میں فحاشی کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں؟ کیا پیغمبرؐ نے اور ان کے بعد خلفائے راشدین نےاور ان کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے اور ان کے بعد عباسیوں نے اور عثمانی ترکوں نے اور اندلسی امویوں نے خندقیںکھدوائی تھیں اور ان میں آگ بھر کر عدالتی فیصلے کئے تھے؟ اب تو یہ علم برداران دین، براہ راست امریکہ کے دورے کررہے ہیں۔ اب تو درمیان والے ذرائع کا احتیاج بھی ختم ہوگیا۔ نام اور شواہد موجود ہیں!
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا ،پیچ و خم نکلے
اور کہاں ہیں وہ محترم اور مقدس ادارے جنہیں اپنے احاطوں میں لٹکے ہوئے کپڑے تو نظر آجاتے ہیں، ظالمانہ فیصلے کرنے والے جرگے اور پنچائتیں نہیں دکھائی دیتیں کیا یہ ملک اس لئے بنا تھا کہ جہلا پر مشتمل پنچائتیں بنیں، پھر وہ پنچائتیں زندہ درگور بوڑھوں کی شادیاں نوخیز دوشیزائوں سے کریں، کبھی انہیں درختوں سے باندھا جائے اور کبھی کوچوں میں برہنہ پھرایا جائے۔ آخر یہ حکم جاری کیوں نہیں کیا جاتا کہ کل سے متوازی عدالت ،خواہ اسے پنچائیت یا جرگے ہی کیوں نہ کہا جائے قائم کرنیوالے کی گردن ماردی جائے گی؟
لیکن جہاں اولین ترجیح یہ ہو کہ حکومت خاندان کی اگلی نسل میں کیسے منتقل کی جائے گی، وہاں یہی کچھ ہوتا ہے مگر ٹھہرئیے! سوچ کے پیڑ تلے ایک لمحہ رکیئے!شرق اوسط میں جہاں موروثی بادشاہتیں مضبوط جڑوں کے ساتھ کھڑی ہیں، وہاں بھی بادشاہ ،بھائی بھتیجے یا بیٹے کو ذمہ داری تفویض کرتے وقت کوئی قاعدہ کوئی قانون دیکھ لیتا ہے اوراگر یہ تفویض ناروا ہو تو کونسل یا خاندانی کمیٹی، جو بھی ہو…بادشاہ کو اس کے منہ پر بتاتی ہے کہ یہ غلط ہے۔
شرق اوسط کے بادشاہوں کو بھی چھوڑ دیجئے، شمالی سینٹی نیل کے 250افراد پر مشتمل قبیلے کے سربراہ کو بتائیے کہ پرسوں وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی کا توانائی کے با رے میںجو اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم فیصلے کئے گئے۔
اس میں وزیر پٹرولیم، وزیر منصوبہ بندی ،وزیر ریلوے، وزیر پانی و بجلی اور وفاقی مشیروں کے ساتھ ایک صوبائی وزیر اعلیٰ بھی بیٹھے ہوئے تھے تو قبیلے کا سربراہ سر پر اڑسا ہوا پر سیدھا کرے گا اور جسم پر لپٹے ہوئے پتوں پر ہاتھ پھیر کر زور سے ہنسے گا ، اتنے زور سے کہ کمان کندھے سے گر پڑے گی! سوال اس کا ایک ہی ہوگا کیا باقی تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ گھگھو ہیں جو اس خاندانی خود سری پر ،اس من مانی پر احتجاج کی چوں بھی نہیں کرتے؟ آخر ایک وفاقی مسئلے پر ایک وفاقی اجلاس میں ایک صوبائی حاکم کا کیا کام؟ اور اگر یہ برادرپروری کرناہی ہے تو اللہ کے بندو! اشک شوئی ہی کے لئے، محض دکھاوے ہی کے لئے، دوسرے وزراء اعلیٰ کو بھی بٹھالیتے!
لیکن قدرت کی مہربانیوں کا کیا کہنا! درد و غم کے اس عالم میں بھی، پراگندہ خاطری کے اس گرداب میں بھی، ہماری تفنن طبع کے سامان مہیا کرتی ہے، ہنسی کا اس سے بہتر موقع کیا ہوگا؟ راجہ پرویز اشرف فرماتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے مشکل حالات میں بہتر حکومت کی! ان کی پارٹی کی حکومت بہتر تھی یا رواں پیش منظر میں وہ بہتر دکھائی دینے لگی ہے؟ ایک شخص نیکر پہنے تھا، جن آیا اور پیشکش کی کہ جو مانگو گے، حاضر کروں گا، اس نے کہا میری نیکر کو پتلون کردو، جن نے اس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں کے نیچے سے کاٹ دیں۔ راجہ صاحب حکومت پتلون نہیں تھی، نیکر تھی۔ وہ تو گھٹنوں کے نیچے سے ٹانگیں غائب ہوگئی ہیں اس لئے پتلون لگ رہی ہے۔ یہ تو دور کی کوڑی ہے کہ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو ن لیگ والے معقول نظر آنے لگیں گے جو اس وقت میسر ہے اس سے لطف اٹھائیے اور راجہ پرویز اشرف کے بخت پر رشک کیجئے!
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج، گزر جائے گی سر سے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“