علامہ اقبال کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ بہادری، شجاعت، حوصلہ مندی، جوانمردی جو ایک انسان کی صفت خاصہ ہے اس سے کنارہ کش ہو کر رہبانیت کی دنیا میں جارہے ہیں، دنیا سے بے رغبتی وبے تعلقی اسباب سے دوری جو زندگی کیلئے زہر ہلاہل ہے اس کو اختیار کرنے کیلئے تحریکیں شروع ہو گئی ہیں،اور حالات سے ڈرے وسہمے ہوئے فقد اپنی وجود کی بقاء کیلئے میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے ہیں ان حالات میں علامہ اقبال نے انسانوں کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور بزدلی کے پردہ کو چاک کر کے ان ذہنوں و دماغوں میں زبردست کچوکے لگا یا جو مذکورہ صفات کے حامل ہورہے تھے ایک مسلمان ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکتا مظلوم بن کر زندگی نہیں گزار سکتا حالات سے گھبرا کر اور اس سے خوف کھا کر رہبانیت اختیار کر لے اور ایک جھونپڑی میں گوشہ نشین ہو جائے تو یہ اس کی خودداری اور بہادری کے خلاف عمل ہے ایسے بھی لوگ پاے جاتے رہے ہیں اور ضرورت سے زیادہ اس میں مبتلا ہو رہے تھے ضرورت تھی اس وہم کو دور کیا جائے اور لوگوں کو اس دنیا سے نکال کر اصل اور مقصود دنیا میں لایا جائے تاکہ ایک حقیقی انسان ہونے کا ثبوت پیش کرسکے علامہ کا یہ شعر انہیں حالات کی عکاسی کرتا ہے،
علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیں کربلا کا وہ المناک واقعہ بھی یاد دلاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنے پر آمادہ بھی کرتا ہے، کربلا کا واقعہ بھلا کون بھلا سکتا ہے تاریخ نے شاید آس سے خطرناک اور دلدوز واقعہ اپنے دامن میں جگہ نہ دی ہو
ایک طرف لشکر جرار ہے تمام ہتھیاروں سے لیس ہے اور دوسری طرف آل رسول معدود چند ہیں کچھ معصوم بھی ہیں جنہوں نے ابھی ابھی اپنے پاؤں پر چلنا سیکھا تھا اپنے نانا کے دین کی تحفظ کیلئے سربکف ہیں جب جنگ شروع ہوتی ہے تو ایک ایک کرکے سب شہید ہو جاتے ہیں یوں دنیا کو ایک ناپائیدار سبق دے جاتا ہے کہ ظلم کے آگے جھک جانا ایک مرد مومن کی شان نہیں آل رسول نے ثبات قدمی اور شجاعت و بہادری کا ایک چراغ روشن کردیا جو کبھی گل نہیں ہوسکتا اور دنیائے انسانیت اسی چراغ سے روشنی حاصل کرکے بزدلی کے اندھیروں سے ںکل سکتی ہے،
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر دور میں ظالم طاقتوں نے سر اٹھایا ہے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے ان کی عزت و ناموس کو تار تار کیا ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ ظالم طاقتوں کا سر کچلنے والے لوگ بھی رہے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں مسلمانوں سے امتحان لیا ہے اور مسلمان بری طرح آزماے گۓ ہیں ۔ جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ کہ کیا ایمان والے یہ سمجھتے ہیں وہ یونہی چھوڑ دئیے جائیں گے کیا ان کو آزمایا نہیں جاے گا حالانکہ اس سے پہلے بھی ایمان والو کو آزمایا جا چکا ہے بعض ان میں وہ تھے جو کامیابی سے ہم کنار ہوئے اور بعض کو ناکامی ہاتھ لگی۔ ،۔، جنگ بدر میں آزمآے گئے خندق میں تو زبردست طریقے سے جھنجھوڑ دئیے گئے حتیٰ کہ مسلمانوں پر مایوسی طاری ہو گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے نوازا،
ان سب چیزوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ناگفتہ بہ حالات ہر دور میں شانہ بشانہ رہے ہیں اور مسلمانوں کو زبردست جھٹکا دیا ہے، اب اگر ہم پر کوئی وقتی طوفان آجائے یا ہمارے خلاف چالیں چلی جائے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ یہ سب ہماری غفلت کے پردوں کو چاک کرنے کیلئے ہے اور ہمارے ذہنوں و دماغوں پر لگے زنگ کو چھڑانے کیلئے ہے، لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب مسلمان ان حالات سے گھبرا کر اور خوف کھا کر دنیا سے بالکل بے تعلق ہو جائے اور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لے اور یہ خیال کر بیٹھے کہ ہمیں دنیا سے کوئی مطلب نہیں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی پرواہ نہیں۔ اسلام نے بالکل اس کو پسند نہیں کیا اور کھلے لفظوں میں اس طریقہ کار کی نکیر کی ہے، ایک انسان زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی حدود پر قائم رہے یہ پسندیدہ ہے اس کے برخلاف جنھوں نے خود کو دنیا سے آزاد کرلیا اور رہبانیت کی زندگی بسر کرنے لگے ان کی یہ سب سے بڑی حماقت اور بزدلی ہے، آخر انسانوں کو فرشتوں سے افضل کیوں قرار دیا گیا ہے، فرشتے بھی عبادت کرتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ روز اول ہی سے کوئی سجدہ میں ہے تو کوئی رکوع میں، کوئی تشہد میں ہے تو کوئی قیام میں۔ لیکن پھر بھی قدرت نے انسان کو فرشتہ سے افضل گردانا ہے کیونکہ انسان دنیا میں ہر طرح کے مراحل سے گزرتا ہے ان کے ساتھ خواہشات بھی چمٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ عبادت سے منہ نہیں موڑتا،
جب حالات پر خطر ہوں اور ہر طرف سے شیطانی طاقتیں عروج پر پہنچ کر ظلم کی گنگا بہانے لگے تو ایسے میں حالات کا مقابلہ کرنا سب سی بڑی عبادت ہے دنیا سے کنارہ کشی رہبانیت کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اور ساری تنظیمیں جو مسلمانوں کی تحفظات کیلئے بنائی گئی ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی دوبھر ہو جاتی ہیں اب انہیں بھی متحرک ہونے کا وقت اگر وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ صرف اسلامی احکامات کی تحفظ کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے اور مسلمانوں کے وجود سے کوئی تعلق نہیں ہے تو یہ بھی رہبانیت ہے اور اس کیلئے بھی جواب دہ ہونا پڑیگا،
اس طرح کے کچھ آثار ہمارے ملک میں ظاہر ہو رہے ہیں اور مسلم تنظیمیں اسی ڈگر پر چل رہی ہیں جو رہبانیت کی طرف گامزن ہے بجائے اس کے کہ متحرک ہوں یاس و قنوط کے طوفان میں بہے جارہے ہیں رسم شبیری کا سبق ان سے زیادہ کوی نہیں جانتا ہوگا لیکن یہ فقط زبانی رہ گیا ہے اور ایک تقریر کی شکل اختیار کر لیا ہے حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،
اس وقت جبکہ ہمارا پورا ملک شعلہ زن ہے حالیہ دنوں دہلی کے فسادات جسمیں درجنوں جانیں گئیں ہزاروں گھروں کو نذر آتش کردیا گیا اور تو اور جمہوری ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکالتے ہوئے مسجدوں مزاروں پر دھاوا بول دیا گیا اور آگ کے حوالہ کردیا گیا، اور ستم بالاے ستم یہ کہ حکومت اور اس کی پوری ٹیم خاموش تماشائی بنی رہی، پولیس کے سامنے فسادی فساد مچارہے تھے، خون کی ندیاں بہارہے تھے، جوانوں کو سرعام ننگا گھسیٹ رہے تھے، گھروں میں گھس کر عزتیں لوٹی جارہی تھیں لیکن پولیس انتظامیہ مسکراتے ہوئے اور اپنے حلف کو بھلا کر بڑی شوق سے دیکھ رہی تھی، ظاہر ہے یہ وقت مسلمانوں کے لئے سخت ترین ہے ایک طرف کھلے عام تباہی تو دوسری طرف وہ کالا قانون جو مہینوں سے مسلمانوں کے حلق میں اٹکا ہوا ہے جسمیں مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کی بات کہی گئی ہے،
اس پر آشوب دور میں بھی اگر مسلمانوں نے ہمت نہیں دکھائی اور ایک محدود دائرہ سے باہر نہیں آۓ اور اب بھی مسجدوں خانقاہوں اور مزاروں میں گوشہ نشین رہے تو کوئی بعید نہیں کہ اسپین کی طرح صفایا کردئیے جائیں، خاص طور سے وہ تنظیمیں جو مسلمانوں کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہیں اگر انہیں اب بھی مادی عدالت پر بھروسہ ہے تو خود کو حالات کے حوالہ کردیں اور مظلوم بن کر رہ جائیں یا پھر اپنی ایمانی طاقت ایمانی عزم و ثبات کا مظاہرہ کرکے مسلمانوں کی نیا پار لگائیں،
اقبال کا یہ شعر ہمیں جھنجھوڑ تا ہے اور ماضی کی ایک عروج و زوال کی تاریخ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے اور یہ سبق دے رہا ہے کہ اصل بہادری اصل جوانمردی اور شجاعت گوشہ نشینی میں نہیں حالات سے ڈرنے میں نہیں بلکہ مخالف کے سامنے پہاڑ بن جانا ہے، جس طرح رسم شبیری کربلا میں ادا کی گئی وہی سبق دھرانے کی ضرورت ہے،
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی فقد اندوہ و دلگیری،