::: نہاری: پاکستان و ہندوستاں کے مسلمانوں کا مقبول اور پسندیدہ پکوان ۔ تاریخ ،پس منظر اور کچھ مشاہدات :::
نہاری کا لفظ عربی کے لفظ نھار سے نکلا ہے جس کے معنی صبح سویرے ہوتے ہیں۔ یہ کھانا صبح سویرے ہی کھایا جاتا ہے اس لیے اس نہاری کہا جاتا ہے۔ یوں تو دہلی کے مغلئی کھانوں کا شمار دنیا کے بہترین کھانوں میں ہوتا ہے لیکن جو شہرت اور مقبولیت نہاری اور بریانی کے حصے میں آئی وہ کسی اور ڈش کا نصیب نہ بن سکی۔ نہاری آج بھی برصغیر میں بڑے ذوق و شوق سے بنائ اور کھائ جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دہلی کی جامع مسجد کے اطراف آج بھی کچھ ایسے ریسٹورنٹ یا بھْٹیار خانے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مغل دور سے پشت در پشت اس پیشے سے وابستہ ہیں ۔ بلکہ کچھ کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کی نہاری مغل دور کی نہاری ہے کیونکہ وہ مغلیہ دور سے ہی دیگ میں ایک پیالہ بچا لیتے تھے اور اسکو دوسرے دن کے لئےتیار کی جانے والی تازہ نہاری کے بونگ والے گوشت و دیگر لوازمات میں شامل کر دیتے تھے. اس طرح وہی مغلیہ دور کی نہاری بہرحال اب تک کی نہاری میں شامل چلی آرہی ہے۔
یہ مبالغہ آرائ ہی ہو سکتی ہے لیکن نہاری کے شوقینوں کے لئے ایک فینٹیسی کا درجہ ضرور رکھتی ہے۔ آج بھی کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں بے شمار ریسٹورنٹ ہیں جن میں سے کچھ تو اتنے مقبول ہیں کہ وہاں نہاری کھانے یا خریدنے کے لئے باقاعدہ لمبی قطار میں کھْڑا ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے
نہاری کی تاریخ 18ویں صدی کے آخر میں پرانی دہلی ( جامع مسجد ااور دریا گنج) میں ملتی ہے، جہاں مسلمان نواب صبح سویرے نہاری کھا کر ظہر سے پہلے طویل قیلولہ کیا کرتے تھے۔ نہاری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دہلی کے قلعے میں مزدور رات بھر مزدوری کیا کرتے تھے تو ان کے لیے رات بھر نہاری بنا کرتی تھی کی کہ ناشتے میں انھیں غذایت سے بھرپور خوراک ملے۔ بھارت سے آزادی کے بعد بہت سے باورچی بھی پاکستان کے شہر کراچی اور دیگر شہروں میں قائم شدہ ریسٹورینٹ میں منتقل ہوگئے جنھوں نے نہاری کو ایک ڈش کے طور پر پیش کیا۔ جلد ہی یہ ایک کامیاب ڈش بن گئی اور اب کراچی اور دیگر شہروں میں، قومی آمدو رفت میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ نہاری کے ذائقہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کھانے والے کو نوالہ لیتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ کتنی احتیاط، دیکھ بھال سے اس کی تیاری کے لئے اجزاء ڈالے گئے ہیں- لہٰذا یہ دعویٰ کہ نہاری حکمت کے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے، حیران کن نہیں لگتا اور ویسے بھی اس کا استعمال سانس کی نالیوں کی سوزش، عام نزلے اور دہلی اور لکھنؤ کی سردیوں میں بخار سے بچاؤ کے کام آتا ہے- اس کی مقبولیت اس وجہ سے بھی بڑھی کہ کھانے کے بعد، کڑاکے کی سردیوں میں جسم گرم رہتا ہے-
ابتدائی دنوں میں پرتکلف نہاری، تقسیم سے پہلے امیر مسلم نوابوں کو ناشتے میں پیش کی جاتی تھی- لیکن اونچے طبقے کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ گاڑھا غذائیت سے بھرپور سالن، جسے بونگ (گائے کی پنڈلی کا گوشت) اور ہڈیوں کے گودے کے ساتھ آھستہ آھستہ کمال پکایا جاتا ہے، ایک وقت میں سیر اور جی بھر کر کھانے کے لئے بہترین ہے، تو انہوں نے اپنے مزدوروں کو اسے دینا شروع کر دیا جو ایک وقت نہاری کھا کر، ایک کام میں جٹ جاتے، چاہے وہ ایک حویلی ہو، ایک محل، ایک سڑک، یا ایک ریلوے اسٹیشن- یہ مزدور ہندوستان کی تعمیر میں مصروف تھے
1970ء کی دہائی میں کراچی کی آبادی بڑھنےکے سبب کراچی کے مضافات میں چھوٹےچھوٹے بس گئے۔ یہاں نئے نئے ریسٹورنت کھلے۔ خاض کر پہلے نہاری جو قلب شہر کے چند نہاری کی ہوٹلوں ہی ملا کرتی تھی اور ہر ھوٹلوں کے باہر " دہلی کی نہاری" کا حوالہ ضرورھوتا تھا۔ نہاری اٹھارویں صدی کے اوآخر میں پرانی دہلی میں جامع مسسجد اور دریا گنج کے علاقے میں پکائی جاتی تھی۔ مغلوں کے دربار اور مسلماںوں کا من پسند ناشتا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق اب کراچی میں سب سے زیادہ نہاری کھائی جاتی ہے۔ دہلی اور کراچی کے علاوہ حیدآباد، لکھنو، آگرہ، لاہور، راولپنڈی، ممبئی، ڈھاکہ، چاٹگام کے علاوہ برطانیہ، کینڈا اور امریکہ میں بھی نہاری زوق وشوق سے کھائی جاتی ہے۔ کراچی کی چند اہم ریسٹورینز میں صابری ہوٹل، ملک کی نہاری، دہلی ہوٹل، دہلی مسلم کالی ہوٹل،طارق روڈ کی نہاری،زاہد کی نہاری، سھیل کی نہاری، کیفے زائقہ، جاوید کی نہاری، نہاری ان، کراچی نہاری اور تاج نہاری کے نام لیے جاتے ہیں۔ گائے کے گوشت کی سادہ نہاری سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے۔ بلاشبہ نہاری کی ابتدا دہلی کے مغلوں سے ہوئی یا لکھنؤ کے نوابوں سے۔ فوجیوں کے لیے پہلے بنائی گئی یا سخت جان کام لینے کے لیے مزدوروں کے لیے تیار ہوئی اس پر مختلف آرا اور حوالے موجود ہیں، لیکن کراچی میں یہ قیام پاکستان کے بعد پھلی پھولی اور پھیلی ہے۔
کراچی میں نہاری کا شوق اور کاروبار کس تیزی کے ساتھ بڑھا ہے اس کی مثال فیڈرل بی ایریا میں واقع جاوید نہاری ریسٹورنٹ سے مل سکتی ہے۔ محمد جاوید میاں نے 40 سال قبل فٹ پاتھ سے نہاری اور روٹی کا کاروبار شروع کیا۔ جاوید نہاری ریسٹورنٹ میں دو دو من کی دو دیگیں لگی ہوئی ہیں جو 24 گھنٹوں میں دو بار پکتی ہیں یعنی جو نہاری صبح تیار ہوتی ہے وہ شام تک پک کر قابل استعمال ہوتی ہے اور جو شام کو بنتی ہے وہ صبح کے لیے ہوتی، ایک دیگ کو تیار ہونے میں کم از کم چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ اور آج ایک بارونق ہوٹل کے مالک ہیں۔ افسوس ایس مشہور جاوید نہاری کے ہوٹل پر ایک ٹی وی چینل نے ایک خفیے کیمرے کی ایک رپوٹ نشر کی تھی کہ اس ریسٹورنٹ کی صفائی ناقص ہے اور تعفن ذدہ گوشت سے یہ نہاری بنائی جاتی ہے۔
ان ریسٹورنٹ کے مالک مطابق وہ ساڑھے چار فٹ کا ہوٹل تھا جس میں وہ آٹے کی خالی بوریاں بچھاتے اور ٹین کی آٹھ کرسیاں رکھ کر گاہکوں کا انتظار کرتے تھے۔ نہاری اور روٹی دونوں ہی وہ خود بناتے تھے۔ انھوں نے محنت کی اور کام اچھا چل پڑا اس کے بعد 120 گز جگہ لی جہاں دس سال کام کیا اور اب اس مقام پر پندرہ سال ہوچکے ہیں۔ کراچی میں نہاری کے تمام ہی ریستورانوں پر غریبوں کو وہی کوالٹی کی نہاری اور نان مفت بھی ملتے ہیں۔نہاری کا اہم جز گوشت ہے۔ آپ اس کے بجائے چکن بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ گائے کا گوشت مکمل پروٹین اور معدنیات جیسے زنک ، سلینئم، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ سرخ گوشت لحمین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لحمین ایک نائٹروجن ایسڈ ہے جو کہ دودھ پلانے والے جانور میں ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر تمام جسم میں تمام خلیات کو توانائی فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ تحویل کی خلیات کے اندر کیمیائی توانائی بڑھانے کے کام انجام دیتی ہے۔ جو میٹابولزم کے خلیوں میں کیمکل انرجی کا ذریعہ ہے۔ جبکہ گوشت پروٹین اور دیگر وٹامن اور معدنیات سے مالامال ہے۔ آپ کو ایک مشورہ دیا جاتا ہے کہ انفرادی طور پر سرخ گوشت کی جس میں خراب چربی کی اعلٰی سطح ہے یہ دل کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کے علاوہ گوشت میں لحمین کی زیادہ مقدار جگر اور گردے میں نقصان کے سبب بن سکتی ہے۔ چکن بہترین چیز ہے ان لوگوں کیلئے جن کا وزن زیادہ ہو یا جن کے ساتھ دل کا مسئلہ ہو یہ بھی 2 یا 3 بار استعمال کریں زیادہ نہیں۔ سوئچریٹڈ فیٹ اور انسوئچریٹڈ کے درمیان فرق یہ ہے کہ سوئچریٹڈ ایل ڈی ایل اور برے اور بد ترین کولیسٹرول کو کم کرتا ہے اور انسوئچریٹڈایچ ڈی ایل اور اچھے کولیسٹرول کو کم کرتا ہے ۔ سوئچریٹڈ کی کثرت اچھی نہیں ہے کیونکہ ان کی وجہ شریانوں میں خون جم جانے کا باعث اور دل کی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ انسوئچریٹڈ چربی کو کھانے کیلئے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے کولیسٹرول کو وزن نہ بڑھ جانے کی غرض سے چیک کرتے رہتے ہیں تو اس کو اینٹی آکسائیڈینٹ کی اعلٰی مقدار کیلئے اچھا سمجھا جاتا ہے۔
ویسے مصالحہ جات اور بیف کے استعمال کی وجہ سے نہاری ایک گرم پکوان ہے، لیکن سردی ہو یا گرمی نہاری کی فروخت بارہ مہینے جاری رہتی ہے۔پھر فرائی مغز نہاری،پایا نہاری ، نلی نہاری اور مرغی نہاری کی ذائقہ دار نہاری کا کوئی جواب نہیں۔ گائے کی بونگ کے گوشت کی نہاری کو پسندیدہ سمجھا جانا جاتا ہے۔ نہاری کے اوپر سبز دھنیا، کتری ہوئی ہری مرچ، لیمو اور ادرک کتر کر ڈالی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس کے اوپر گرم مصالحہ بھی چھٹرک لیتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔