نطشے کا خدا اور اسکا فوق البشر:-
فیڈرک نطشے جرمنی کا ایک مشہور فلسفی ماہر لسانیات اور ادیب تھا جس نے انیسویں صدی کے اخری نصف میں ہوش سنبھالا۔ نطشے کے والد ایک پادری تھے اور نطشے کو بھی پادری کے روپ میں دیکھنا چاھتے تھے اسی لیے 4 سال کی عمر میں نطشے نے چرچ سے ہی متعلقہ ایک سکول سے اپنی دینی اور دنیاوی تعلیمات کا آغاز کیا۔ بارہ سال کی عمر میں ایک استاد نے اس میں چھپے موسیقی اور ادب کے رجحان کو دیکھتے ہوئے نطشے کو اپنی فیلڈ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ بیسویں برس تک نطشے مشہور فلاسفہ کا مطالعہ کر چکا تھا۔ اس نے گیت بھی لکھے تھے اور دھنیں بھی بنائ تھیں۔نطشے عظیم فلسفی شوپنہار سے بطور خاص متاثر ہوا تھا اور اس دوران وہ لسانیات میں بھی خصوصی دلچسپی لینے لگا تھا۔ زبانوں کی ایجاد اور ان کا ارتقا نطشے کی دلچسپی کا خاص محور تھا۔ 24 سال کی عمر میں اس فیلڈ میں اسکی مہارت کو دیکھتے ہوئے ایک یونیورسٹی نے اسے پروفیسر شپ کی آفر کی جو نطشے نے منظور کر لی۔یہاں رہتے ہوئے اس نے اپنی پہلی کتاب The birth of tragedy لکھی۔ یہ کتاب قدیم یونانی فلسفے میں خیر اور شر پر اسکے خیالات کا اظہار تھی جس میں اس نے خیر اور شر کو انسانی نفسیات کے ارتقا کے طور پر دیکھا۔ پینتیں سال کی عمر میں صحت کے مسائل کی وجہ سے اس نے ریٹائرمنٹ لی اور تمام وقت تصنیف و تالیف کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دس پندرہ برس میں اس نے جو کچھ بھی لکھا آج امر ہو چکا ہے۔جدید مغربی فلسفے اور سوچ پر نطشے کے افکار نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ زندگی کے آخری تین چار سال شدید فالج اور بیماری میں گزار کر سنہ 1900 میں 55 سال کی عمر میں یہ سکالر اس دنیا سے منہ موڑ گیا۔
اس کی مشہور کتابوں میں ایک کتاب "زرتشت نے کہا" ہے۔ نطشے نے یہ کتاب چار حصوں میں چھاپی اور زرتشی نظریات اور ان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نطشے زرتشت کو ایک سوچنے والا رہنما کہتا ہے جس نے پہلی بار دیو مالائ یونانی کہانیوں سے ہٹ کر خیر اور شر کو مختلف پیرائے میں بیان کیا۔ اسی کتاب کے ایک حصے " خدا مر گیا ہے" میں نے اس نے عیسائیت کے خدا کے شخصی تصور کو اڑے ہاتھوں لیا اور یہ استدلال دیا کہ موجودہ مزھبی تصور خدا ایک انسانی بنایا خدا ہے جو انسانوں کی مشکلات کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ نطشے یہ بھی سمجھتا تھا کہ مسیحیت کی اصل تعلیمات کو سینٹ جان پال نے آمیزش کر کے کیا سے کیا بنا دیا ہے جسکی وجہ سے تصور خدا مضبوط ہونے کے بجائے دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ مذہب بیزاریت کیوجہ سے نطشے نے ایک مزھبی خدا کا ہمیشہ انکارکیا۔ اپنی کتابوں The Anti Christ اور A Genealogy of Morals میں اس نے یہودی اور مسیحی مذہبی روایات کے پرخچے اڑا دیے۔لگتا تھا کہ نطشے دُنیا میں انسان کے وجود کو کسی نئے زاویے سے دیکھنا چاھتا تھا۔
نطشے نے اسکے مقابلے میں اپنے super man یا فوق البشر کا تصور پیش کیا۔ یہ ایک ائیڈیل انسان ہے جو کسی بھی الہامی خیر و شر سے ماورا خود اپنے اوپر بھروسہ کر کے زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہے۔ ساتھ میں یہ فوق البشر ہر طرح کے الہامی اخلاق کا بھی شدت سے رد کرتا ہے.ایک گال پر تھپڑ کے بعد دوسرا گال آگے کرنے جیسی سوچ کو انسانیت مخالف درجہ دیتا ہے۔یہ ایک ایسے شخص کا تصور ہے جو بنی نوع انسان کو ہر قسم کی الہامی ہدایات سے ماورا ایک ایسا نظام دینے پر قادر ہے جو انسانیت کی تکمیل خود انسان کے اپنے ہاتھوں کروائے گی۔ اگرچہ نطشے کا مرد کامل خود میں آئیڈیل ہے اور اسکے لیے ہر طرح کی جنگ جائز ہے اور وہ نسلی برتری کو بھی بہت اہمیت دیتا ہے مگر پھر بھی عمومی تاثر یہی ہے کہ اقبال کے مرد مومن نے نطشے کے مرد کامل سے تھوڑا بہت اثر ضرور لیا ہے کہ جب اقبال جرمنی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے تو خودی اور مومن سے نطشے کا فوق البشر جھلکتا نظر آتا تھا ۔ شاید اسی لیے اقبال یہ بھی فرما گئے ہیں کہ نطشے ایک کافر ہے جسکا دل مومن ہے۔
بہرحال باتیں بہت ہیں پر وقت کم ہے جاتے جاتے اسکا اپنی بہن کے نام ایک خط سے اقتباس:-
"وعدہ کرو کہ میرے مرنے ک بعد صرف میرے دوستوں کو میرے تابوت کے قریب آنے کی اجازت دو گی اور عوام کو میری لاش سے دور رکھو گی کیونکہ وہ خواہ مخواہ ہر بات کی کرید کرتے ہیں اور دیکھنا کوئی پادری، یا کوئی اور شخص میری قبر پر کھڑا ہو کر جھک نہ مارے کہ میں اس وقت مدافعت نہ کر سکوں گا۔ میں کافر اور مشرک ہوں۔ اور اسی حیثیت سے مجھے قبر میں اتار دینا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔