اگر کوئی یہ نعرہ لگا دے
“نیازی تیرے سہولت کار بے شمار بے شمار”
کچھ غلط تو نہ ہو گا۔
23 مارچ ہر سال مارچ میں ہی آتا ہے اور 2022 میں بھی 23 مارچ پھر مارچ میں ہی آئے گا۔
روز روز بڑھتی مہنگائی مارچ تک کتنی بڑھ جائے گی کچھ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے
لانگ مارچ کبھی ہوگا یہ اندازہ نہیں جنرل یحیٰی کا دور بھی اس دور سے اچھا تھا اس دور میں مہنگائی کے حوالے سے مختلف چیزوں کی قیمتیں دیکھ لیں ان میں اس قسم کی گرانی نہ تھی۔ رہی بات جنرل یحیٰی کے کردار کی تو وہ بھی اس کا “ذاتی معاملہ” تھا۔
تاریخ کے ورق الٹ پلٹ کرنے سے یہ کہیں نظر نہ آیا کہ جنرل رانی کی سفارش پر کہیں کسی صوبے کا وزیر اعلی یا گورنر لگایا گیا تھا۔ یہاں تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلی کی تعیناتی اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی تعیناتی میں “ع” سے نام شروع ہونے کے علاؤہ کوئی قابلیت نظر کہیں بھی ڈھونڈے سے نظر نہیں اتی۔
جنرل یحیٰی سے کچھ کاموں کے لئے سیاستدانوں کے جنرل رانی سے سفارشیں کروانے کی داستانیں البتہ ملتی ہیں۔
کہاں وہ جنرل یحیٰی کا دور جب کسی گاؤں میں بذریعہ ڈاک خط ا جاتا تو خط پڑھ کر سنانے والا فرد پورے گاؤں میں ایک ہوتا تھا کہاں یہ دور جب ہر گاؤں میں سینکڑوں ماسٹرز ڈگری ہولڈر اور پڑھے لکھے موجود ہیں جو سوشل میڈیا پر پل پل کی خبریں پڑھ کر اپڈیٹ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپڈیٹ رکھتے ہیں۔
اگر کچھ نہیں بدلا تو ہمارا سیاسی کلچر نہیں بدلا آج بھی جنرل یحیٰی کے دور کے طرز کے سیاستدان ہیں تب ہی تو بدترین کارکردگی کے ساتھ ملک کو تباہی کی طرف لے جاتے نیازی کا راستہ روکنے والا کوئی ایک بھی نہیں۔
شدید قسم کے پٹواری اور شدید قسم کے جیالے نارمل کلاس کے یوتھئیے کے برابر کم از کم ہوتے ہیں۔ جنہیں ہر حال میں نعرہ مستانہ لگانا ہی ہوتا ہے۔
مگر ایسے لوگ جنہیں نہ تو الیکشن لڑنا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کے عہدوں میں دلچسپی ہوتی ہے یعنی عام عوام جنہیں اس ملک میں رہنا ہوتا اس ملک میں رہنے کے علاؤہ ان کے پاس کوئی اور متبادل بھی نہیں ہوتا۔ گرمی اور سردی کی طرح معاشی حالات ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض لوگ تو ان حالات کی سختی سے جان سے جاتے ہیں۔ زندگی کی ڈور کو سنبھالے رکھنے کے لئے حالات کا سازگار رہنا لازم سی بات ہے۔
ملک میں معاشی سرگرمیوں کی عدم موجودگی میں روزگار سفارشیں کر کے بھی نہیں مل رہا کہیں کسی کے لئے کسی کے پاس کوئی گنجائش ہے ہی نہیں ہے۔ اور مہنگائی تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اب تو ہر دن نیازی کی حکومت مہنگائی کے بنائے ہوئے اپنے ہی رکارڈ توڑتی ہے یہ بھی ہوتا ہے کہ صبح آپ کچھ خرید کر لائیں اور شام کو دوبارا وہی چیز آپ خریدنے چلے جائیں تو وہی چیز آپ کو بہت ہی مہنگی ملے ایسے حالات میں عوام کی غمخوار اپوزیشن کا رویہ مایوس کن نہیں تو کیا ہے کہ جناب دسمبر کے اوائل میں کہہ رہے ہیں کہ مارچ کے آخر میں مہنگائی مارچ کریں گے۔
مصلحتوں کا کیا ہے جب چاہے مصلحتیں جنم لے سکتی ہیں شاید مارچ 2022 تک جس نیازی کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ اپوزیشن عطا کر رہی ہے اس وقت نیازی کی کسی اور کسی اور مصلحت کے تحت شدید ضرورت پڑ جائے۔ اب تک تو ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔
چھ چھ سلنڈر کی گاڑیوں پر پھرنے والے سیاستدانوں کے پاس عوام کے لئے 1947 سے ایک ہی پرانا ٹرک ہے جس کو ٹرک کو نئی نئی بتیاں لگا کر عوام کو اس کے پیچھے بھگا رہے ہیں۔
تلخ مگر سچ بات یہی ہے کہ عوام کے پاس مسلم لیگ نون کے علاؤہ اب کوئی متبادل نہیں اور مسلم لیگ نون کو بھی یقین ہے کہ آئیندہ الیکشن میں ان کے ٹکٹ کی ہر الیکٹ ایبل نے خواہش کرنی ہے اور عوام نے بھی ان کو ہی ووٹ دینا ہے۔ کیوں وہ خود کو مشکل میں ڈالیں اور احتجاج کا تردد کریں۔ یقیناَ ان کے لئے خوشی کی بات ہے کہ نیازی جتنی مہنگائی اور تباہی کر سکتا ہے کرلے اس میں ان کا ہی تو فایدہ ہے۔
بس یہی ہے وقت حاضرہ کی حقیقت سمجھ سکو تو سمجھ لو
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...