نیازی گن پوزیشن سے شکر گڑھ بلج اگوکی کی کہانی – 4
ـــ
کہنے والے کہتے ہیں سکردو سے ایک دن کی مسافت میں جہاں ہمالہ کی فصیل بٹالک کی وادی میں اترتی ہے اور جہاں شیر دریا مہا سپتا سندھو پہلے پہل پاکستان میں داخل ہوتا ہے وہیں کہیں کوہِ ندا ہے جس کی پکار وقت کے حاتم کو کھوجتی ہے میں وقت کا حاتم ہی تو تھا جو کئی رتوں کے برس جانے کے بعد سندھ اور شنگھو کے سنگم پر ماشنگ کی قربت میں میڈیم توپخانے کی ایک بیڑی کو پلٹتا تھا جب دریا کے پار مرول گاؤں کی قربت میں کوہِ ندا سے پکار آئی اور میں بے قابو سا ہو کھنچا چلا گیا
کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق
ہمالہ کےویرانےمیں جہاں اب نہ آدم ہےنہ آدم زاد، کچھ شکستہ بنکر گئےوقتوں کےپڑاؤ کاپتہ دیتےہیں
ایک بنکرمیں برسوں پہلےکےکھُدےکچھ شکستہ مگرپائیدارحروف میں ایک نام جگمگارہاہے میجرعبدالجبار
آج کےیہ کھنڈر 1998 میں جب میں پہلےپہل یہاں آیاتھاعباسیہ کی پاپابیٹری کامسکن نیازی گن پوزیشن تھی اپریل کی وہ سرمئی دوپہر آج بھی یاد ہے، دریائے سندھ کے تنگ ہوتے پاٹ کے کنارے ہم ایچ ایم ٹی سے اترے تو ہماری پذیرائی کو آئے درہ آدم خیل کے لیفٹیننٹ اللہ نورآفریدی نے ہمیں ہمارے رک سیک کے ساتھ ایک ہی سانس توڑ چڑھائی میں شیردل عباسیہ کی گن پوزیشن پر پہنچا کر دم لیا جو سانس پہلے ہی دن اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہوگیا الحمد للہ وہ ہمالیہ کی بلندیوں سے واپس اترنے تک اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہا۔
اگلےہی دن لیفٹیننٹ آفریدی آپریشنل ایریا ریکی (لفظ ریکی ریکانیسنس کا مخفف ہےجس کا اردو ترجمہ ہےقراولی جو اصل لفظ سےزیادہ مشکل ہے) کے بہانے پہاڑوں کی کسرت پر لے گئے۔ اس تھریڈ کے آغاز کی تصویر اسی سہ پہر کی یادگارہے۔ ہماری پشت پر انڈیا کا بٹالک سیکٹر ہے۔ تصویر میں بظاہر نظر آنے والا پہاڑی نالہ اصل میں پاکستان میں داخل ہوتا شیر دریا سندھ ہے۔
ہمارے سیر بین براڈ کاسٹر رضا علی عابدی جب دریائے سندھ کی کھوج کو نکلتےہیں توکنارے بسنےوالوں کی ہزار داستان سناتےہیں
تبت کی دیومالاہمیں بتلاتی ہے کہ یہ دریاشیر کےمنہ سےنکلتا ہےاس لیےاس کانام شیردریاہے۔ عابدی صاحب نےپڑاؤ در پڑاؤ ہزاروں میل اس دریا کےبہاؤ کے ساتھ سفر کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دریا سے زیادہ اس کے کنارے رہنے والے شیر ہیں کہ سندھو کی قربت میں ایک جفاکشی کےساتھ زندگی گزارنےکاحیلہ کرتےہیں
دھرتی کی محبت میں گندھےاس خطےکے نامور تاریخ داں اور ہمارےگروسلمان رشید اس شیر دریا کو شاستروں میں آئے اس کے نام مہاسپتاسندھو (سات پرتوں والا دریا) کےنام سےیاد کرتے ہیں کہ پانچ ہزار سال قبل ہمارےآریائی اجداد شمالی ایشیا کے گھاس پھونس کےمیدانوں سےہجرت کرتےہمالیہ کی گود میں اترے تو ان کی حیران آنکھوں نےلہلہاتےجنگلوں اورجھاگ اڑاتی لہروں والےپُر ہیبت دریاؤں کوایک وجدکےعالم میں دیکھا اور اس بے مثال دھرتی کی محبت میں گیت کہے۔ ان کی گائی یہ بانیاں ایک پیڑھی نےاگلی پیڑھی کےحوالےکیں تو ان اشلوکوں سےرِگ وید نے جنم لیا ہمارےآپ کےسب جگ کےچاچاجی مستنصرحسین تارڑجب اپنا لافانی ناول بہاؤ تخلیق کرتےہیں توسندھو کےکنارے آباد موہنجو سے پرےہری یوپیا کو سیراب کرتی سرسوتی کےنام انتساب کرتے ہیں
سرسوَتی، جو بڑے پانیـوں کی ماں ہے
اور ساتویں ندی ہے
اس کے پانی آتے ہیں
شاندار اور بلند آواز میں چنگھاڑتے ہوۓ
تکلیف معاف، ہم ٹھہرے دریاؤں کی سرزمین کے باسی، ان کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں سے زندگی کرنے والے جب بٹالک سے پاکستان میں داخل ہوتے سندھ کا ذکر آیا تو ایک رو میں بہتے اور بہکتے چلے گئے۔
واپس لیفٹیننٹ اللہ نور کی معیت میں نیازی کی اس مٹیالی سہ پہر اور اپنی تصویر کی طرف پلٹتے ہیں ہم جس بنکر کی چھت پر کھڑےہیں، ہماری اپنی دفاعی پوسٹوں کی قطاراوربارڈر اس سےتھوڑا آگے ہیں۔ تصویرمیں درمیانی فاصلےپرپہاڑ کی جوفصیل بائیں سمت بتدریج بلند ہوتی جارہی ہےسرحدکےپارہے۔ یہاں انڈیا کی دوپوسٹیں تھیں، سسپُون ون اورسسپوُن ٹو۔ اگرہم بائیں سمت کی بلندیوں کی پرواز جاری رکھیں تو تھوڑا اوپر جاکر (تصویر کے فریم سے باہر) اس سیکٹر کی سب سے بلند چوٹی ہے ’شنگروٹی‘۔ ایک زمانے میں یہ انڈیا کے پاس تھی، اب اس پرپاکستانی جھنڈالہراتا ہے۔
فرنٹ لائن پوسٹوں سےتعارف کےبعدہم اورلیفٹینٹ نورواپس گن پوزیشن آگئےتھے
انڈیاکی یہ پوسٹیں نیازی گن پوزیشن سےبھی صاف نظرآتی تھیں دشمن کی عین ناک کے نیچے یہاں سے فائر کرنا خودکشی کرنے کے مترادف تھا، مگر کارگل ابھی چند مہینوں کی دوری پر تھا اور جبکہ باقی سیکٹرز میں چاند ماری چلتی رہتی تھی، نیازی کی ٹھنڈی توپیں کم کم ہی آگ اُگلتی تھیں
پات ہرےہیں پھول کھلےہیں کم کم بادو باراں ہے
نیازی کتابِ وفاکاپہلاسبق تھا
میجرعبدالجبارکی پاپا بیٹری کی خاک چھان کرافسرنےدریائےشنگھو کےبہاؤ کےساتھ کیپٹن نعیم کی شاگردی میں پیش ہونا تھا
وہی کیپٹن نعیم جوہمالیہ کی پورےاورادھورےچاندکی راتوں میں کسی محبوب کاندھےکےتل کویادکرکےافسردہ ہوجایاکرتےتھے
ایک سوسولہ چاندکی راتیں ایک تمہارےکاندھےکاتل کچھ ہی مہینوں میں عباسیہ نےہمالیہ کے معبد میں اپنا وقت پورا کرکے اگوکی کی راہ لےلینی تھی۔ مگرسندھودریا کی ہمسائیگی میں گنوخ اوربٹالک وہیں کے وہیں تھے۔ آتی سردیوں میں انہی زمینوں سے ہمارے کورس کااولین شہید لیفٹیننٹ فیصل ضیاء گھمن ستارہ جرات اوراس کےسپاہی ایک دور مار نقب لگائیں گے جو سیدھی بٹالک کے دل میں ترازو ہوگی، مگر جیسا کہ ہم نے کہا، کارگل کے معرکے میں ابھی دیر تھی اور اگوکی کو پلٹتی عباسیہ کے روزنامچے میں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
سیاچن کےمحاذ سے اترزمانہ امن کا سکون میسرآیا توباقی چیزوں کےساتھ رجمنٹ پراپرٹی کی سٹاک ٹیکنگ بھی شروع ہوئی جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ رجمنٹ پراپرٹی یونٹ کے کھانگڑمیجروں کاپسندیدہ سبجیکٹ رہا ہے۔ ماضی قریب وبعید کے کچھ اصلی کچھ تصوراتی قصےاورکچھ بڑھکیں جن کی تان اس بات پرآ کرٹوٹتی کہ سن فلاں میں فلاں کی لاپرواہی کےنتیجے میں رجمنٹ پراپرٹی کے نوادرات زمانےکی دھول میں کہیں کھو گئے صاحب یہاں رنجیت سنگھ کے جرنیلوں سے کوہ نور نہ سنبھالا گیا ، ایک فیلڈ آرٹلری رجمنٹ کے ہما شما کس قطار میں ہیں۔ چلیں کوہ نورتو پھر ٹاورآف لنڈن میں بہاردکھا رہا ہے عباسیہ کے گم کردہ سامان کی تو گردبھی نہ ملی۔ اگوکی کی روشن دوپہروں میں ان لمبے ہوتےسٹا ک ٹیکنگ سیشنوں میں سامنے بچھی اپنی بہاردکھاتی چائنہ اورسلورکراکری اور کٹلری کے جلو میں بیٹھے 2IC (ہم نام نہیں بتائیں گے) کہا کرتےتھےکہ اچھےوقتوں میں عباسیہ کی پراپرٹی ایک دس ٹن کاسول ٹرک تھا جو امتداد زمانہ کی نظر ہو گیا
Imagine stock taking in a unit where a 10 ton truck gets lost without a f***ing trace!
سلیس پنجابی میں ترجمہ کریں تومیجرصاحب کافرماناتھا
جیہڑی عباسیہ دےٹہٹھےکھوہ وچ دس ٹن دا ٹرک گواچ گیااوتھے سالیو تسیں کہڑی سِلوَربھالدےاو!!
خداخداکرکےسٹاک ٹیکنگ کی چارٹرڈاکاؤنٹینسی سےفراغت پائی تو ٹریننگ سائکلزکالامتناہی چکرشروع ہو گیا۔ صاحبو آئی ٹی سی (Individual Training Cycle) بیٹری کمانڈروں کے ہاتھ لگی وہ جنتری ہے جس میں اپنے انور مسعود کی جہلم دا پل کی طرح نہ صرف مہینوں اور دنوں کا شمارہے بلکہ گُھگُھو بولنے سے لے کر گرہن لگنے اور ان سے نمٹنے کے تمام حربے موجودہیں۔
سارا سال جوانوں کے نظام الاوقات کو آئی ٹی سی کی جنتری کا تڑکا لگا رہتا ہے۔
کسی بھی ایک وقت میں جوان یاتوچھُٹی پرہوگا، یاپھرتربیتی مشقوں پر یاانتظامی امور کی انجام دہی میں مصروف جس کافوج میں رائج الوقت نام ’ورکنگ فٹیگ‘ ہے
’سر بیس جوان چونڈہ گراؤنڈ مین ورکنگ فٹیگ گئے ہوئے ہیں‘
ایڈم ۔ ٹریننگ ۔ لیو کی اس جنتری کی بنت اور ترتیب اپنے آپ میں ایک الگ مضمون ہے
جیٹھ ہاڑ کی اس یکسانیت میں تازہ ہوا کا جھونکا مرالہ راوی لنک کے کنارے واٹر مین شپ ٹریننگ تھی۔ آبی رکاوٹ کو عبورکرکے اس پار کے مورچوں پر حملہ کرنے کی مشق۔ زندگی میں اچانک سے ایک دیسی ٹچ آگیا تھا۔ نہر کی چُبھیاں، دودھ سوڈا اور عباسیہ کے پی اے سسٹم پر میٹھے سروں میں لہکتی گاتی سننے والوں کو اپنے رنگ میں رنگتی ایک قدیم اور اسی قدر محبوب تان
چن میرے مکھناں
کہ ہس کے اک پل ایدھر تکنا
کہ نظراں رس نیناں دا چکھنا
چن میرے مکھناں
اور پھر یونٹ کا بلاوہ آگیا
واپس اگوکی کے ماڈل ٹاؤن کے قلب میں یونٹ لائنز پدھارے تو سیالکوٹ کے بارڈر پار سے کچھ غیر معمولی نقل و حرکت کی خبریں آرہی تھیں۔ یونٹ کے سیکنڈ لفٹین ہونے کی حیثیت سے ہمارا عہدہ کمانڈنگ آفیسر کے آئی او (انٹیلی جنس افسر) کا تھا۔
یونٹ ٹی بار میں عارضی بنیادوں پر بنےآپریشن روم میں ایک بڑانقشہ تھا۔ ہمارےذمے روزصبح ایڈجوٹنٹ سےآرٹلری ہیڈکوارٹر سےموصول شدہ سیچوئشن رپورٹ حاصل کرنااور دشمن کی نقل و حرکت کو نقشےپرمارک کروانااور سی او اور یونٹ افسروں کو ایک مختصر بریفنگ سیشن میں تازہ ترین صورتحال سےآگاہ کرنا تھا اس کارِخیرمیں ہمارے استاد پی ایم پلٹ پلاٹون کمانڈرمیجر علی رضانقوی تھے۔ ہمیں یاد ہےکہ ایک نسبتاً کم مصروف صبح جب ہم نقشہ مارک کرچکےتھے تو میجرصاحب نےہماری توجہ سیالکوٹ کے جنوب مشرق میں اس پھوڑے نما ابھار کی طرف دلائی تھی جسے عسکری پنڈت شکرگڑھ بلج (ابھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں بالکل سامنےجموں اورپٹھانکوٹ کوملاتی شاہراہ اورریلوے لائن کی شہ رگ ہے۔ میجرنقوی نےیہیں ہمیں پہلےپہل لیٹرلز (laterals) کا مطلب اورانکی افادیت سمجھائی۔ کیسے شکرگڑھ ایک گھٹنا پٹھانکوٹ ۔ جموں ۔ توی کی شہ رگ پر رکھتا ہے جو اگر کاٹ دی جائے تو کشمیر کا رابطہ باقی کے ہندوستان سے کٹ جائے۔
صاحبو عباسیہ کے بریفنگ روم کی اس سویر سے پرے شکرگڑھ بلج برس ہا برس ہمارے فوجی جرنیلوں کو مہم جوئی پر ابھارتا آرہا ہے۔ کشمیر کو ایک قدم بڑھا کر حاصل کرلینے کی حسرت و خواہش 1948 سے ہمارے دلوں میں پھلتی پھولتی اب ایک ناسور بن چلی ہے۔ اس دن جب میجر نقوی ہمیں عباسیہ کے آپریشن روم کے نقشے پر شکر گڑھ بلج سمجھا رہے تھے، اوپر شمال کے معبدوں میں ہماری سپاہ دراس، کارگل اور بٹالک کی طرف دراندازی کرچکی تھی۔ اب وہ سری نگر ۔ لیہ شاہراہ پر رواں قافلوں پر گولے برسا رہے تھے تو نیچے جموں ۔ پٹھانکوٹ کے لیٹرلز کے پار ہندوستانی فوج کی نقل و حرکت کی خبریں آرہی تھیں۔
عباسیہ کی روزانہ کی بریفنگ کے نقشے پر سُرخ نشانوں میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا۔ شاید جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے بیچ اگلی جنگ ہونے والی تھی۔۔
ـــ
پسِ تحریر
ـــ
اس کہانی کو کہنے کے دوران ہم نے اپنے کورس میٹ ۹۶ لانگ کورس کے اولین شہید فیصل ضیاء گھمن ستارہ جرات کو یاد کیا۔ گھمن ہمارے یار نے انڈس سیکٹر میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور حکومتِ پاکستان نے بہادری کے اعتراف میں ستارۂ جرات سے نوازا والٹن روڈ سے ڈی ایچ اے کی طرف آئیں تو ایک روڈ فیصل ضیاء گھمن کو یاد کرتی ڈیفنس کی اور پلٹتی ہے۔ ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں ایک کتبہ ہمارے یار دلدار کو یاد کرتاہے۔
آئیے رب کائنات کے حضور عرض گزاریں کہ اللہ ہمارے شہید کی لحد کو گل و گلزار رکھے، آمین