مطلب یہ کہ ایک کی بجائے دو اور سادہ الفاظ میں اس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت بھی مول لے لینا یعنی جدید کاروباری اصطلاح میں بائے ون گیٹ ون فری یعنی ایک خریدیں اورساتھ ایک مفت حاصل کریں۔اس کہاوت کا موجودہ سیاست پر اطلاق کچھ یوں ہوتا ہے کہ 2018 میں من پسند رجیم کو اقتدار میں لے کر آئے کچھ مدت میں ہی پتہ چل گیا کہ مصیبت گلے ڈال لی اس سے جان چھڑانے کے لیے ان ہاوس تبدیلی لائی گئی ۔حالات پھربھی ٹھیک نہیں ہوئے اور پہلے والی مصیبت بھی گلے پڑی رہی گویا یوا کچھ یوں کہ ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت کو بھی گلے لگا لیا۔مگر اب پچھتائے کیا ہوت لہذا فی الوقت اسی کے ساتھ گذارا کرنا ہے
مگر سوال یہ ہے کہ ان حالات کے ساتھ گذارہ کرنا ممکن ہے ؟ملکی معیشت اور خزانہ عام آدمی کی معاشی حالت اورجیب کی تصویر کشی کررہا ہے ۔اخراجات ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے اور جیب ہے کہ ادائیگی کرنے سے قاصر ہے مگر زندہ دلی کا عالم یہ ہے کہ نا نا کرتے کرتے بھی ایک لمبی چوڑی کابینہ تشکیل دے دی گئی اور آئے حکومت اور وزیراعظم کے معاونین کا اضافہ گویا کوئی معمول کی بات ہے ۔طرفہ تماشہ یہ کہ ہم اتنے شاہ خرچ ثابت ہوئے ہیں کہ وہ خزانہ جو خالی ہے اس پر بھی ایک وزیرخزانہ بٹھا رکھا ہے خدا جانے کس لیئے اور کیوں ۔
ہرگذرتے دن کے ساتھ جہاں عوام کی زندگی اجیرن ہوتی جارہی ہے وہاں پر حکومت کے لیئے بھی حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں ۔ٹیکسز کی بھرمار اور روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ، بجلی ، گیس ، پٹرول کے نرخوں میں یکدم بڑے اضافہ نے شہریوں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے ۔آٹا ہے کہ نایاب ہے اور مہنگا مل رہا ہے ۔اور سستے آٹے کے لیئے زرعی ملک کے باسی لائنوں میں لگے ہوئے ہیں ۔گندم تو گزشتہ سال کم نرخوں پر سٹاک کرلی گئی تھی پھر اس کی قیمت میں اضافہ کیوں کیا گیا ہے ۔حکومت میں موجود اگر کوئی عوام کا ہمدرد موجود ہے تو اس کا جواب ضرور دے کہ گندم پر منافع کیوں کمایا جارہا ہے غریب کی دو وقت کی روٹی کو مہنگا کیوں کیا جارہا ہے۔
2018 میں تبدیلی سرکار نے تبدیلی کا جو سفر شروع کیا وہ اپنی تباہ کن اقتصادی پالیسیوں کے بعد جب اپنے انجام کو پہنچا تو ہینڈسم ایک ٹانگ پر پلستر چڑھا کر بیٹھ گیا مگر عوام کو دونوں ٹانگوں سے مفلوج کردیا۔تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کو دن میں تارے نظر آنے لگے ایسے میں سیاست نہیں ریاست پچانے کے دعویدار سامنے آئے تو سوچا کہ شائد کچھ بہتری ہوجائےاور عام آدمی کی حالت بہتر ہوجائے مگر دن تو فقط وزیروں کے پھرے اور عام آدمی کی حالت مزید ابتر ہوتی گئی ۔ہر نئے اقتدار میں بننے والی حکومت کب تک عوام پر یہ کہتے ہوئے نئے ٹیکسز لگائے گی کہ سابقہ حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے خزانہ خالی ہے ۔کیا کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں آئی جس کی معاشی پالیسیاں درست ہوتیں ۔کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا کہ جس کی معاشی اصلاحات کی تعریف کی جاسکے ۔
معیشت کو چھوڑیں اگر سیاست کی بات کریں تو ہر روز تنزلی کی ایک نئی داستان سننے کو ملتی ہے ۔کپتان کسی کو چور ثابت نہیں کرسکا اور پانامہ کا ملزم اقامہ پر گرفتار ہوا اور اب یہ عالم ہے کہ کرپشن کے سنگین الزامات کے بعد توشہ خانہ کے کیس سے امیدیں وابستہ ہیں ۔مطلب یہاں سے بھی کچھ نہیں نکلنے والا گویا چور آیا چور آیا کے سیاسی نعرے مزید کچھ مدت تک سننے کو ملیں گے اور چور نے فیر وی نئیں پھڑیا جانا۔توکیوں نا ایک بار سب کو این آر او دے کر اس بک بک کو ہمیشہ کے لیئے بند ہی کردیا جائے اور سب کو گنگا جل اشنان کا موقع دے کر عوام کی جان چھڑائی جائے اور ہاتھ جوڑ کر کہا جائے کہ بھائی جو کھانا تھا کھا لیا اب ملک کی حالت زار پر بھی توجہ کرلو۔اگر اس اہل نہیں ہوتو جا و تم کو معاف کیا بس ہماری جان چھوڑ دو
اب تو حالت یہ ہے کہ چیئرمین نیب آفتاب سلطان بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں ۔جو کچھ آفتاب سلطان نے کہا ہے اس کے بعد طے ہوگیا کہ ہر حاکم اداروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس ساری ایکسرسائز سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوا کیا ان کی روزمرہ کی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی کیا مہنگائی کم ہوئی امن وامان کی حالت بہتر ہوئی ۔کچھ بھی تو نہیں بدلا سوائے اس کے کہ کل کے حاکم آج کے مجرم اور آج کے مجرم کل کے حاکم تھے ۔تو کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اقتدار کے اس میوزیکل چیئر کو بند ہونا چاہیے ۔یہ تماشہ ختم ہونا چاہیے ۔
نئے سیزن کی گندم اترنے والی ہے اور نئی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی چالیس کلو ہے ۔بجلی ، پٹرول ، گیس کے نرخ کئ گنا بڑھ چکے ہیں اس بار گرمیاں کسی مصیبت سے کم نہیں ہوں گی اور رہی سہی کسر روز مرہ کے اخراجات نے نکال دی ہے ۔ایک مشکل بلکہ بہت ہی مشکل سال شروع ہوچکا ہے ابھی دس ماہ پڑے ہیں اور خاطر جمع رکھیں کہ اگلے سال میں بہتری نہیں ہونے والی وہ بھی کم وبیش ایسے ہی حالات میں گذرئے گا۔مطلب عوام کے لیئے اچھے دن ہنوز دلی دور است کی طرح بہت دور ہیں ۔مگر اس سب ک باوجود اگر کپتان یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آجائےگا تو اندر کی بات یہ ہے کہ فی الحال ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کپتان فی الحال اپنی ٹیم کو فیلڈنگ کے لیئے تیار کرئے بیٹنگ کا وقت نہیں ملنے والا۔مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ جو بلے باز اس وقت کریز پر موجود ہیں بیٹنگ ان سے بھی نہیں ہوپارہی ہے ۔دیکھتے ہیں کہ ایسے میں ایمپائر کا فیصلہ کیا ہوتا ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...