2ملکوں کے4 شہروں سے یکے بعد دیگرے شائع ہونے والا علمی و ادبی جریدہ
برصغیر میں عقلیت پسندی اور روشن خیالی کے فروغ میں نیاز و نگار کا بڑا کردار ہے۔
دانشور، شاعر، ماہر لسانیات، انشا پرداز، افسانہ نگار، مترجم، صحافی اور نقاد نیاز فتح پوری 288 دسمبر 1884 کو فتح پور ہسوہ(یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاسل کی۔9 سال کی عمر میں مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں داخل ہوئے جہاں مولانا حسرت موہانی ان کے ہم جماعت تھے۔ مدرسہ عالیہ رامپور اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ۔1899 میں میٹرک کیا۔ والد امیر خاں پولیس میں تھے ،ان کے ساتھہ کئی مقامات پر رہنے کا موقع ملا۔1900 میں خود بھی سب انسپکٹر پولیس چنے گئے۔مرادآباد میں ایک سال تربیت لی اور تھانہ ہنڈیا ضلع اللہ آباد میں تعینات ہوئے۔ یہ کام طبیعت کے خلاف تھا اسلئےدو سال بعد استعفیٰ دیدیا۔
نیاز نےصحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار ‘‘سے کیا۔ پھرتوحید،رعیت وغیرہ سے منسلک رہے۔ فروری 1922ء میں آگرہ سے اردو کا معروف ادبی و فکری رسالہ"نگار" جاری کیا۔ اس کا نام انہوں نے ترکی زبان کی مشہور شاعرہ نگار بنت عثمان سے متاثر ہوکر رکھا ۔ نگار دو ملکوں کے چار شہروں آگرہ، لکھنئو، بھوپال اور کراچی سے نکلتا رہا۔
نیاز فتح پوری کی تحریروں بالخصوص باب الاستفسار اور باب الانتقاد نے اردو میں نئے خیالات اور مباحث کو جنم دیا ۔
نیاز فتح پوری کی علمی خدمات کے اعتراف میں 24 مئی1962ء کو بھارتی حکومت نے انہیں اپنے بڑے ادبی اعزاز "پدم بھوشن" سے نوازا لیکن 31 جولائی 1962ء کو وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔
نگار کا شمارہ جولائی 1962 لکھنئو سے اور شمارہ اگست 1962 کراچی سے شائع ہوا۔ یہ باقاعدگی ان کے بعد ان کے شاگردوں ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور امرائو طارق نے بھی جاری رکھی۔
پاکستان میں انہون نے ترقی اردو بورڈ کی لغت پر نظر ثانی کی اور اخبار جنگ مین ’’رنگا رنگ‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے رہے۔ حکومت پاکستان نے بھی نیاز کو "نشان سپاس" سے نوازا۔
نیاز فتح پوری کا سرطان کے مرض سے 24 مئی 1966ء کوانتقال ہوا۔
ان کی 355 کتابوں میں سے کچھہ یہ ہیں:
من و یزداں
مالہ و ما علیہ
مشکلات غالب
استفسارات
انتقادیات
ترغیبات جنسی
تاریخ الدولین
توقیت تاریخ اسلامی ہند
چند گھنٹے حکماء کی روح کے ساتھہ
جذبات بھاشا
نگارستان
جمالستان
نقاب اٹھہ جانے کے بعد
حُسن کی عیاریارں اور دوسرے افسانے
مختاراتِ نیاز
شہاب کی سرگذشت
عرضِ نغمہ::ٹیگور کی گیتا انجلی کا ترجمہ
شبنمستان کا قطرۂ گوہریں
صحابیات
محمد بن قاسم سے بابر تک
ایک شاعر کا انجام
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=436754270047776&id=100011396218109