نی اونٹاں والے ٹُر جان گے ۔
میں اپنے دوست کہ سامنے سرخرو ہو گیا جس کو میں نے ۲۰۱۳ میں کہا تھا کہ رب نواز شریف کو گھیر کر لایا ہے زلیل و خوار کرنے ، اس کہ سوال کہ جواب میں کہ “رب کو کونسی ایسی چیز اس میں پسند آئ کہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنا دیا؟ “
کل نواز شریف پر دو بیوقوفوں کی دو ٹویٹس پڑھیں ۔ طٰہ صدیقی جن کو New York Times نے quote کیا کہ پاکستان میں سول coup ہو گیا ۔ بہت ہی نالائق اور ناسمجھ آدمی ہے ۔ یہ جناب coup ۲۰۰۸ کہ الیکشن میں کو گیا تھا ، اس وقت کہ چیف جنرل پرویز اشرف کیانی نے کیا تھا ، جو ۲۱۰۳ کہ الیکشن میں بھی ان کی نگرانی جاری رہا اور پھر راحیل شریف نے دھرنا ختم کروا کہ اسے مزید دوام بخشا اور اب جنرل باجوہ اسی تابوت کو ۲۰۱۸ کہ الیکشن میں دس من پھول کی پتیاں اور ہار پہنائیں گے ۔ دوسری ٹویٹ حسین حقانی کی تھی ، فرما رہے تھے کہ فوج پہلے ان کو لانے میں اتنا پیسہ اور محنت لگاتی ہے پھر نکالنے میں تو جناب ۱۹۸۰ میں ، گورنر جیلانی کا گھر چارپائ پر بیٹھ کر ابا جی کہ ساتھ ہم یا فوج نے نہیں بنایا ۔ یہ بنا رہے ہوتے تھے اقتدار کی خاطر ۔ جرنیلوں کو مرسیڈیزیں یا زہر دے کر یہ لوگ ہی مارا کرتے تھے اقتدار کی خاطر ۔ فوج کہ پاس تو بے تحاشہ آپ جیسے پل بھر میں بکنے والے لوگ موجود ہیں ان کہ پاس پیسہ بھی ہے اور جُوا کا ہینڈل بھی ۔
آپ کو تو دُکھ ہے کہ آپ وزیر اعظم کیوں نہیں بنے؟ ادھر امریکہ میں ایک جعلی سا ادارہ بنایا ہوا ہے ، نہ کوئ کام نہ کام ، کوئ تھُوکتا بھی نہیں ہے ۔ ہر وقت خوف کہ کوئ پاکستانی فوج کا دلدادہ مار ہی نہ دے ۔
کل ایک صاحب فرما رہے تھے ، فواد پر لکھیں ۔ دل تو نہیں تھا مکروہ اشخاص پر لکھنا ، لیکن شاید عبرت کی خاطر ۔ CSA Alumni نے جب فواد گرفتار ہوا اسے دنیا کا genius اور کمال کا ایڈمنسٹریٹر کہا ۔ اور پیدائشی ارب پتی باپ کا بیٹا ۔ جن بیوریوکریٹ کہ کیریر فواد نے تباہ و برباد کیے انہوں نے مٹھائیاں بانٹی ، شکرانے کہ نفل ادا کیے اور اس کی مزید زلالت اور موت کی دعائیں مانگیں ۔
فواد میرا لاء کالج میں کلاس فیلو تھا ۔ اکٹھے الیکشن بھی لڑا ۔ اپنی موٹر سائیکل بھی نہیں تھی ۔ قربان جاؤں سی ایس ایس کہ کوٹہ سسٹم پر فواد اور ارشد مرزا جیسے نالائق ، بدمعاش اور غدار ہمارے اوپر کشمیر کہ ڈوموسائل کی وجہ سے مسلط ہو گئے ۔ کشمیر ایک دن نہیں رہے ۔
بلوچستان میں چیف سیکریٹری کو اپنی بیگم پیش کی ، پہلے کوئٹہ میں ڈی سی رہے جب وہ چیف سیکریٹری پنجاب آئے تو لاہور ڈی سی بن گئے ۔ مشرف کہ آنے پر جرمنی میں کمرشل قونصلر چلے گئے وہاں نوابی نہیں تھی ، جس کی جناب کو عادت پڑ گئ تھی ، حکومت سے چھٹی لے کر جہانگیر صدیقی گروپ کہ پراپرٹی ایڈوائزر بن گئے ۔ جو ڈی سی وقت کہ دوست پٹواری تھے ساتھ ملائے زمینوں کہ فراڈ شروع کر دیے ۔ اسی دوران اونے پونے پنڈی صدر میں ایک کواپریٹو کا اربوں روپے کا پلاٹ ہتھیا لیا بغیر pcbl کہ این او سی کہ پہلے سعید مہدی نے قبضہ کیا ، پھر ایک اور شخص کو بیچا ، جس سے فواد اور اس کہ بھائ نے لے لیا ۔ اس بچپن کہ امیر کو پہلی پراڈو جہانگیر صدیقی گروپ نے زمینوں کہ فراڈ پر تحفہ پر دی ۔ ان زمینوں کہ فراڈ کہ کیس ابھی بھی عدالتوں میں ہیں ۔ جناب ، میں نے ان لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ یہ پاگل ہو گئے ہوئے ہیں پیسہ ، عہدہ اور شہرت کے کھیل میں۔ ان سے اجتناب کریں ۔ رول ماڈل تو کیا ان پر تھوکیے بھی نہ۔ ان کو اپنی لگائ ہوئ آگ میں جلنے دے ۔ کیا بھٹو اس آگ میں نہیں جلا تھا ؟ اور پھر اس کو جلانے والا خود جہاز راکھ کا ڈھیر بننے سے ۔ اگلے دن مجھے یہاں امریکہ میں کوئ شخص کہ رہا تھا کہ تب سے امریکہ میں آم نہیں آ سکتے ۔ کیونکہ آموں کہ ڈبہ یا پیٹی میں بم ہو سکتا ہے جس نے ضیا اور امریکی ایمبیسڈر کو مارا تھا ۔
تو میرے دوستو ان لوگوں سے عبرت حاصل کریں ۔ کلثوم نے اسے ۲۰۰۲ میں کہا تھا کہ سیاست سے اجتناب کرو لیکن یہ نشہ ہی ایسا ہے کروڑوں لوگوں کو برباد کر کہ اترتا ہے ۔
زندگی بہت آسان ہے ۔ ہم اسے مشکل بناتے ہیں ۔ خوش رہنا ہمارے اپنے بس میں ہے ۔ ہمارا کسی سے مقابلہ نہیں ۔ سب یہاں ہمارے دوست ہیں ، بھائ ہیں ، آدم کی اولاد ہیں ۔ ہر ایک کا ایک اپنا راستہ ۔ یہاں کوئ منزل نہیں ۔ یہ ایک رقص ہے ، جیسا کہ سائکولوجسٹ Adler نے کہا رقص میں کوئ منزل نہیں ہوتی ۔ اور مزید میں Adler کہ الفاظ پر ہی ختم کرنا چاہوں گا ۔
“the important thing is not, what one is born with but what use one makes of that equipment “..
اگر آپ اس جسم کا استمعال نواز شریف اور فواد جیسا چاہتے ہیں ، تو پھر ان کا حشر دیکھ لیں ۔ یہ آپ کی مرضی ہے زمدگی Paul Sartre یا نیلسن منڈیلا جیسے گزار دیں یا ٹرمپ اور نواز شریف کی طرح ۔
یہاں کوئ کسی سے کسی قسم کا مقابلہ نہیں ۔ مشاہد حسین اور وسیم اکرم کا جُوا انہیں تک محدود ہے ۔ ایک لیول فیلڈ ہے سب کہ لیے ۔ میں نے تو اپنی ساری زندگی کوئ لمحہ ایسا نہیں دیکھا یا پایا جہاں قدرت کہ علاوہ کسی کا کنٹرول دیکھا ۔ میرا اپنا رقص اور میں خود اس رقص کا choreographer بھی ۔ یہاں نہ کوئ ماضی ہے نہ مستقبل ۔ موجود لمحہ ہی پوری کائنات ہے ۔ اس لمحہ میں رہیں وگرنہ ۔
نی اُونٹاں والے ٹُر جان گے
تُو لبھ دی پھریں گی ڈھولا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔