چند سال پہلے کی بات ہے ،اس وقت میں القاعدہ، طالبان، ٹی ٹی پی وغیرہ پر خاصے تواتر سے لکھتا تھا، اب تو ہمارے اپنے ایشوز ہی جان نہیں چھوڑتے۔ ان دنوں غیر ملکی اخبارنویس دھڑا دھڑ اس خطے کا رخ کرتے کہ خبریں یہاں جنم لے رہی تھیں۔ ایک بار پریس کلب میں صحافی دوست نے بتایا کہ ایک سینئر امریکی صحافی عسکریت پسندی پر ریسرچ کرتا پھر رہا ہے،اس سے مل لو۔ملاقات دلچسپ رہی، سفید بالوں والا گورا پرانا صحافی تھا۔ وہ واشنگٹن پوسٹ کے لئے بھی کام کرتا رہا، ان دنوں بلوم برگ کے لئے کچھ کنٹری بیوٹ کر رہا تھا۔دو تین گھنٹوں کی ملاقات مفید رہی۔ ہمیں گوروں کی معلومات غلط ثابت کرنے کا بڑا لطف آیا، اس کے ساتھ اپنی دیسی انگریزی میں عسکریت پسندی پر طویل لیکچر جھاڑنے کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔ ویسے کسی برطانوی یا امریکی کے سامنے دیسی انگریزی بولنا بھی ایک شاندار تجربہ ہے، انکا تلفظ ہمارے پلے نہیں پڑتا اور ہماری تخلیق کردہ جدید گرائمر انہیں چکرا دیتی ہے۔ غریب جیسی رحم طلب نظروں سے دیکھتے ہیں، اس پر باقاعدہ ترس آ جاتا ہے۔
غیر ملکی اخبارنویسوں کابنیادی مسئلہ ہے کہ اردو نہ جاننے کے باعث ان کا تمام تر ہوم ورک اور ریسرچ ہمارے انگریزی اخبارات اور جرائد تک محدود رہتاہے۔ عسکریت پسندی کے حوالے سے ایشو یہ بھی رہا ہے کہ ہمارے بیشتر انگریزی زبان کے صحافی ڈرائنگ روم جرنلزم کے قائل رہے ہیں،ویسے بھی ان کی وش فل تھنکنگ تجزیوں پر غالب آ جاتی ۔ ہم لوگ تو انگریزی کے ان نام نہاد میگا سٹارز کی تحریریں پڑھ کر مسکراتے اور خاموش رہتے ہیں، غیر ملکی اخبارنویس کے لئے یہ بنیادی ریفرنس کا کام دیتیں۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اخذ کردہ نتائج کس قدر ناپختہ اور کچے ہوں گے۔ انگریزی کی ایک معروف خاتون لکھاری ، جن کی وجہ شہرت فوج کے خلاف کتاب ہے، انہوں نے پنجابی طالبان پر ایک تفصیلی فیچر لکھا۔ اسے پڑھنے لگا تو چند سطروں میں سمجھ آ گئی کہ کیا ہوگا اور اصل ہدف ان تنظیموں کو بنایا جائے گا جو آج کل امریکہ اور بھارت کی نظروں میں چبھ رہی ہیں۔وہی ہوا، پورے فیچر کا فوکس جیش محمد پر تھا اور مزے کی بات ہے کہ خالصتاً سلفی فکر والی تنظیم لشکر طیبہ کو بھی پنجابی طالبان میں شامل کیا گیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ لشکر کا سیٹ اپ ہمیشہ الگ رہا اور اس کا تمام تر فوکس صرف مقبوضہ کشمیر رہا ہے، وہ افغانستان میں انوالو ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ٹی ٹی پی یا پنجابی طالبان سے اس کا تعلق ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اس خلاف حقیقت تحریر پر انہیں بعد میں ایک صحافتی ایوارڈ بھی ملا۔ ہمارے جو لکھنے والے عالمی جرائد میں لکھتے ہیں ، ان کے لئے زمینی حقائق کی کوئی اہمیت نہیں۔ جو باہر والے پسند کریں گے، وہ لکھا جائے گا، چاہے حقیقت سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔
لکھنا کچھ اور تھا، مگر بات کسی اور طرف چلی گئی ،دو مختصر واقعات لکھ کر اس ملاقات کی روداد کی طرف آتا ہوں۔ عسکریت پسندی پر لکھنے والے ایک ممتاز صحافی نے خاصا نام کمایا، بدقسمتی سے چند سال پہلے وہ پراسرار طور پر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ باہر کے جس آن لائن جریدے میں وہ لکھتے ، کئی بار وہاں ان کی تحریر تبدیلیوں، ترامیم ، اضافے کر کے شائع ہوتیں۔لکھنے والے
صحافی اس پر شاکی تھے، ان کے دوست نے مشورہ دیا کہ پھر نہ لکھو تو کہنے لگے کہ باہر کے پرچوںوالے اچھا معاوضہ دیتے ہیں، لیکن یہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ایک اور دوست جو ریٹائرفوجی افسر ہیں، لکھنے لکھانے سے شغف ہے، آج کل ”دفاعی ماہرین“ نام کی ایک کھیپ تیار ہوئی ، وہ اس کا حصہ ہی ہیں۔تین چار سال پہلے ایک کالم انہوں نے امریکہ کے معروف اور بڑے وقیع اخبار وال سٹریٹ جرنل میں بھیجا، انہیں بتایا گیا کہ آپ کا کالم شائع ہوگا اور کئی سو ڈالر معاوضہ ملے گا۔ وہ خوش ہوئے، مگر پھر ای میل میں دیکھا کہ ان کے کالم میں پورے ایک پیرے کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور وہ پاکستانی اداروں کے خلاف سخت تنقید پر مبنی ہے۔ وہ چکرائے کہ میں نے تو یہ لکھا ہی نہیں، فوری ای میل کی، انہیں بتایا گیا کہ کالم اسی طرح چھپے گا ، ورنہ نہیں۔ انہوںنے ایک لمحہ ضائع کئے بغیراپنا کالم واپس منگوایا اور پھر کانوں کو ہاتھ لگایا کہ آئندہ باہر کے کسی اخبار کے لئے نہیں لکھنا۔
خیر اس گورے صحافی سے ملاقات کی بات ہو رہی تھی۔ تجربہ کار صحافی تھے، کئی امریکی اخبارات میں کام کیا،بہت سی چیزوں کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان سے ڈسکشن کا خاصا فائدہ ہوا اور امریکی انٹیلی جنشیا کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے میں مدد ملی۔ این جی اوز کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے ،” یہ جو اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز تیسری دنیا کے ممالک کا رخ کرتی ہیں، اس کے پیچھے یہ وجہ نہیں کہ ان کے دلوں میں آپ کے لئے محبت کا سمندر بہہ رہا ہے بلکہ ان سب کے اپنے اپنے ایجنڈے اور مفادات ہیں۔ بعض این جی اوز تو اپنے ڈونرز سے مال اینٹھنے کے چکر میں رہتی ہیں اوربہت سی ایسی بھی جو امریکی حکومت اور ایجنسیوں کے لئے کام کرتی ہیں۔‘ پھر انہوں نے ٹپس بھی دیں کہ کس طرح جینوئن این جی اوز کو شناخت کیا جا سکتا ہے۔کہنے لگے کہ جو این جی او اپنے ایجنڈے سے ہٹ کر کام کرے ، اس پر لازمی شک کریں۔ایک این جی اور بچوں کے لئے کام کرنے کا ایجنڈا لے کر آئی ہے، اسے مقامی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ جہاں مسائل زیادہ ہیں وہاں مدد فراہم کی جا سکے۔جو این جی او کسی تنازعات کا شکار علاقے کا رخ کرے یا وہ کوشش کرے کہ حکومت سے شاکی قبائل، مقامی گروہ اور شخصیات سے تعلقات بنائے جائیں، اس پر لازمی شک کرو۔تحقیق سے سچ سامنے آ جائے گا۔ ایک اوردلچسپ بات بتائی کہ اکثر میڈیا ، الیکشن اور سیاست وغیرہ میں ریفارمز لانے کے لئے چند ایک مخصوص یورپی ممالک کی این جی اوز بڑی متحرک نظر آئیں گی۔ اس پر سوچنا چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، ان کا عالمی سیاست میں کوئی کردار بھی نہیں، اپنے اثرورسوخ اور کردار کو پھیلانے کے یہ ہرگز خواہش مند نہیں ، تو پھر لاکھوں، کروڑوں ڈالر آپ جیسے ممالک میں کیوں پانی کی طرح بہا رہے ہیں؟کہنے لگے کہ دراصل یہ سی آئی اے کا سٹائل ہے ۔ وہ اپنے بیشتر کام ان ممالک کی این جی اوز سے کراتی ہے تاکہ اس پر براہ راست شک نہ کیا جا سکے، ضروری نہیں کہ وہاں کی حکومت کو بھی اس کی خبر ہو، انفرادی طور پربھی کام لے لیا جاتا ہے۔ اس امریکی صحافی کے بقول امریکی پریمیئر ایجنسی بعض یورپی ممالک کے سفارت خانوں کو بھی اپنے مخصوص کاموں کے لئے استعمال کرتی ہیں( میں نام دانستہ نہیں لکھ رہا۔) اس کی وجہ بھی وہی کہ ان ممالک کو اپنے غیر متنازع سیاسی کرداراور پوزیشن کی وجہ سے کوئی شک کی نظر سے نہیں دیکھتااور یوں انٹیلی جنس نیٹ ورک برسوں چلتارہتا ہے۔
پچھلے برسوں میں پاکستان میں این جی اوز کے کردار کے حوالے سے بہت سے باخبر لوگوں سے بھی بات ہوتی رہی، اسی طرح کی ملتی جلتی معلومات سامنے آئیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جیسے ممالک کی حکومتوں پر امریکہ جیسی عالمی قوت کا اس قدر شدید دباﺅ رہتا ہے کہ جانتے
بوجھتے بھی ان کے لوگوں کو ہم باہر نہیں نکال سکتے۔ یہ انسانی حقوق کا ایشو بن جاتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے چینی حکومت جیسی دلیری اور استقامت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے بیشتر حکمران ویسے بھی امریکہ بہادر سے بگاڑ افورڈ نہیں کر سکتے۔ لوٹ مار سے کمائی بیشتر جائیدادیں باہر جو ہیں، یہ کس طرح ڈٹ کر امریکہ کے سامنے کھڑے ہوسکتے ہیں؟موجودہ حکومت نے چند دن پہلے کئی مشکوک این جی اوز پر پابندی لگانے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض کے بارے میں عرصے سے شکایات مل رہی تھیں۔ایک تنظیم تو ایسی ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی والے سکینڈل میں اس کا بھی ان ڈائریکٹ ہاتھ تھا۔ ان تمام این جی اوز پر الزامات بھی سنگین ہیں۔ ہمیں ایسی تمام مشکوک این جی اوز سے جان چھڑانی چاہیے۔ پاکستان چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہے، کئی اطراف سے یلغار جاری ہے، ایسے میں ملک کے اندر تو استحکام اور یکسوئی ہو تاکہ بیرونی دباﺅ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگلے دن ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی، جس میں دبنگ لہجے میں اپنا سیاسی موقف پیش کیا۔ بھارت کے حوالے سے بھی خان صاحب کا موقف جرات مندانہ اور مضبوط ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ این جی اوز پر پابندی کے حوالے سے بھی وہ سٹینڈ لیں اور اس فیصلے میں کسی قسم کی ترمیم نہ کریں۔ اگر ایک بھی این جی او کو ریلیف دیا گیا تو پھر دباﺅبڑھ جائے گا اورپھر ان کو نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو بھی اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے بہت سے ایشوز موجود ہیں۔ قومی سلامتی کے معاملات پر ہمیں متحد اور یکجا ہونا چاہیے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...