درختوں اور جھاڑیوں کے سبز پسِ منظر میں شکاریوں کا ایک دستہ خاموشی سے میمتھ کے ایک غول کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ اس غول میں سے ایک کو آج رات کی ضیافت بنانا چاہتے ہیں۔ ایک شکاری نے ہاتھ میں ایک نیزہ پکڑا ہوا ہے۔ اس کے آخر میں ایک تیز نوکیلا پتھر لگا ہے۔ قریب آ کر شکاری نے تاک کر نشانہ باندھا اور اس بڑے جانور کی طرف اس کو پھینک دیا۔ نشانہ چوک گیا۔ جس میمتھ کو نشانہ بنایا تھا، اس کے قدموں تلے آ کر نیزہ ٹوٹ گیا۔ یہ بے کار ہو گیا۔ اگلا نیزہ اٹھایا، شکار کی کوشش جاری رہی لیکن اس میدان میں ایک چیز باقی رہ گئی۔ ٹوٹا ہوا نیزہ ناکام شکار کی نہیں بلکہ آنے والے وقت کے لئے ایک پیغام بن گیا۔ کیونکہ اس میمتھ کے پیروں تلے روندے جانا والے اس نیزے کی نوک کا پتھر ہزاروں سال بعد آنے والوں کی ملے گا اور وہ جان لیں گے کہ ان کے آباء اس جگہ پر موجود تھے۔ اس سے کہیں پہلے جب ان کے بارے میں پہلے اندازہ لگایا گیا تھا۔
یہ تیرہ ہزار سال سے زائد پرانی بات ہے اور یہ جگہ امریکہ ہے۔ وہ چیزیں جو پھینک دی جاتی ہیں یا گم ہو جاتی ہیں وہ ماضی کے بارے میں ہمیں اتنی ہی معلومات دے دیتی ہیں جتنی سنبھال کے رکھی جانے والی اشیاء۔ ٹوٹی اور روزمرہ کے استعمال کی چیزیں بھی ویسی کہانی سناتی ہیں جیسا کہ کسی نفیس آرٹ کا کام۔
ساتھ تصویر میں لگا پتھر کسی چھوٹے موبائل فون کے سائز کا چمقاق کا پتھر ہے جو ایریزونا میں کسی میرے یا آپ جیسے شخص کے زیرِ استعمال رہا ہو گا۔ اس کو قریب سے دیکھنے پر پتھروں کی لگی ضربیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اس کو محنت کے ساتھ تیار کیا گیا تھا۔ قتل کرنے کے لئے ایک خوبصورت اوزار۔ لیکن یہ امریکہ تک کیسے پہنچا؟ یہ استعمال کرنے والے کون لوگ تھے؟
یہ ملنے والا ایسا واحد پتھر نہیں۔ الاسکا سے لے کر میکسیکو تک ہزاروں ایسے پتھر مل چکے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو کلووس پوائنٹ کہا جاتا ہے اور ان کے استعمال کرنے والوں کو اہلِ کلووس کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ 1936 میں دریافت ہوئے تھے۔ ساتھ ان جانوروں کی ہڈیاں بھی جن کو اس ہتھیار کے ذریعے مارا گیا تھا۔ یہ امریکی تاریخ سمجھنے کے لئے سب سے اہم رہے ہیں۔ یہ پتھر گروپس کی صورت میں الاسکا سےمیکسیکو اور کیلے فورنیا سے فلوریڈا تک ملے ہیں، جن سے پتا لگتا ہے کہ یہ لوگ چھوٹی کمیونیٹی کی صورت میں رہا کرتے تھے، جب برفانی دور کا خاتمہ تیرہ ہزار سال قبل ہو رہا تھا۔
یہ مقامی امریکیوں کے آباء تھے جو شمال سے آئے تھے۔ جینیاتی سٹڈیز بھی ثابت کرتی ہیں کہ ان کے آباء کی کڑیاں شمال مشرقی ایشیا میں رہنے والوں سے ملتی ہیں۔ آرکیولوجی، ڈی این اے اور ماہرین کے آراء اس پر بڑی حد تک متفق ہیں کہ امریکہ میں آنے والے تمام لوگ پندرہ ہزار سال قبل کے قریب ایشیا سے امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔
انسان کا آغاز افریقہ سے ہوا جہاں سے افریقہ سے باہر کا سفر ہوا۔ چالیس ہزار سال قبل ہمارے جیسے انسان افریقہ کے علاوہ ایشیا اور یورپ میں پھیل چکے تھے۔ آسٹریلیا تک جا چکے تھے لیکن امریکہ میں کسی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اس کے لئے موسم کی بڑی تبدیلی چاہیے تھی۔ بیس ہزار سال قبل آنے والے برفانی دور نے پانی کو جما کر برفانی شیٹ اور گلیشئیر بنا دئے۔ سمندر کا پانی بہت کم ہو گیا۔ روس اور الاسکا خشکی کا ایک ٹکڑا بن گئے، جہاں سے آمد و رفت ہو سکتی تھی۔ ممالیہ، بائزن اور رینڈئیر نے امریکہ کی سائیڈ پر جانا شروع کیا۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کا شکار کرنے والے انسانوں نے۔ اس کے بعد یہاں سے جنوب کی طرف کا سفر ہوا۔
پندرہ ہزار سال کے قریب موسم دوبارہ گرم ہونا شروع ہوا۔ بڑے جاور اور شکاری امریکہ بھر میں پھیل گئے۔ یہ کلووس پوائنٹ کا عہد تھا جو انسانوں کے لئے اچھا ہتھیار تھا اور بڑے جانداروں کے لئے موت کا نشان۔ جس جانور کو لگ جاتا، اس کو خون آلود کر دیتا۔ جسم کے کسی بھی حصے پر لگ کر اس کو نقصان پہنچا دیتا اور خون ضائع ہو جانے کی وجہ سے اس کو ختم کرنا آسان ہو جاتا۔ اس مہلک ہتھیار سے لیس انسانوں کی آمد یہاں پر بسنے والے بڑے جانوروں کے لئے موت کا نقارہ تھی۔ آج سے بارہ ہزار سال قبل پورے امریکہ سے تمام میمتھ اور بڑے جانور ختم کئے جا چکے تھے۔ انسانوں کی اس نئے برِاعظم پر کامیابی اور ان بڑے جانوروں کے معدوم ہو جانے میں اس نوکیلے پتھر کا بڑا ہاتھ ہے۔ جانوروں کی دو تہائی انواع ختم ہو گئیں۔
بارہ ہزار سال قبل اہلِ کلووس اور ان کی اگلی نسلیں نہ صرف شمالی امریکہ بلکہ جنوبی امریکہ میں بھی قبضہ جما چکی تھیں اور جنوبی امریکہ کے جنوب ترین مقام تک پہنچ چکی تھیں۔ دس ہزار قبلِ مسیح وہ اہم سنگِ میل ہے جب انسان بحرِ اوقیانوس کے چند جزائر کو چھوڑ کر پوری دنیا پر قابض ہو گیا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ بعد گرم ہوتے موسم اور پگھلتی برف سے سمندر کے بڑھتے لیول نے ایشیا کے ساتھ لگنے والا راستہ بند کر دیا۔ واپسی کا راستہ نہیں تھا۔ امریکاز کی تہذیبوں نے باقی دنیا سے الگ تہذیبی راستہ لیا۔ ہزاروں سال بعد ان کی ملاقات یورپ سے آنے والوں سے ہو گئی۔
انسان ایک مرتبہ امریکہ داخل ہوا تو اگلے تین ہزار سال میں ہی پورے دو برِاعظموں تک پھیل گیا۔ افریقہ سے لے کر تمام دنیا میں پھیل جانے کے پیچھے یہ بے چینی ہے۔ ایک پرفیکٹ جگہ کی تلاش جو ہر وقت جاری رہی ہے۔ کہیں کچھ اور، جو بہتر ہو، شاید اس پہاڑی کی دوسری طرف یا پھر اس سے کچھ آگے۔ دریا کے اس پار یا پھر اگلے میدان میں۔ یہ والے اوزار یا پھر تھوڑا سا بہتر۔ کچھ اور خوبصورت۔ کچھ وہ، جس کا پہلے تجربہ نہیں کیا۔ خوب سے خوب تر کی یہ تلاش اس سیارے پر انسانوں کا سفر ہے۔