ہر سال جب دنیا نئے سال کا آغاز کرتی ہے تو عجیب و غریب رنگ ریلیاں دکھاتی ہے معلوم نہیں31 دسمبر کو ٹھیک بارہ بجے رات کونسی تبدیلی آنے والی ہے یا کونسا نیا انقلاب آنے والا ہے کہ ہر طرف جشن کا ماحول ہوتا ہے قسم قسم کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں پورا معاشرہ رات کے بارہ بجتے ہی خوشیاں منانا شروع کر دیتا ہے ہر طرف قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور پھر عیاشی کے اڈے بھی لگنے لگتے ہیں اس قدر خرافات کا بازار گرم ہوتا ہے کہ شیطان بھی شرما جائے بدکاری اس قدر ہوتی ہے کہ پورے سال کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا ہے فضول خرچی کی کوئی حد نہیں ہوتی شراب و کباب میں مست و مگن ہوتے ہیں گویا سب کی خوشیاں آسمان سے باتیں کررہی ہوتی ہیں ،
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خوشی منانے کے بجائے غم مناتے کہ ہماری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا کیا اور آگے یعنی نئے آنے والے سال میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے لیکن مغربیت اس قدر غالب آگئی ہے کہ سب کچھ بھول کر خوشی کی آڑ میں فحاشیوں میں لگ جاتے ہیں افسوس ہے کہ مسلمان بھی اس میں شامل ہے جبکہ ان کی شریعت کی تعلیم کچھ اور ہے، آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے اس کا ایجاد کب اور کیسے ہو؟؟
نیو ائیر نائٹ کا آغاز
یہ اس رات کو کہا جاتا ہے جس رات سال ختم ہوکر نئے سال کی شروعات ہوتی ہے یہ وہی رات ہے کہ جسمیں ہر طرح کی برائیاں ریکارڈ توڑ دیتی ہیں اس کا شجرہ نسب رائل نیوی کے منچلے نوجوان سے ملتا ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ رائل نیوی کے نوجوان اکثر سمندری سفر کرتے تھے جو بہت دور دراز ہوا کرتا تھا اس طویل سفر کی وجہ سے ان کی طبیعتیں اکثر بےچینی اور بوریت کا شکار ہوجاتی تھیں اسے دور کرنے کیلئے وہ تقریبات منعقد کرتے کبھی تو یہ تقریبات کسی کی سالگرہ پر ہوتی کبھی اپنے بچوں کی سالگرہ کرتے تو کبھی اپنے گھر والوں کی سالگرہ مناتے لیکن ان کی بے چینی کم نہ ہوئی تو وہ جانوروں کی سالگرہ منانے لگ گئے اس سے بھی طبیعت میں کوئی فرق نہیں آیا تو اب انہیں محافشی کی سوجھی اور خواہشات کا سامان مہیا کرنے میں کوشاں رہے اتفاق سے اسی دوران دسمبر کا مہینہ ختم ہوا چاہتا تھا تو کسی کے ذہن میں یہ آیا کہ کیوں نہ ہم نئے سال کا آغاز کریں چنانچہ جہاز کا سارا عملہ اکٹھا ہوا جہاز کو خوب آراستہ کیا گیا شراب نوشی کی گئی ناچ گانے کا اہتمام کیا گیا اور رات ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ میں سب نے ایک دوسرے کو مبادیاں دیں اس طرح اس فتنے کا آغاز ہوا جو ہر سال ترقی کرتا گیا موجودہ صورت حال اسی کی ترقی یافتہ ہے،
وقت کی قدر اور نیا سال
دن ہفتے مہینے اور سال یہ سب انسانوں کیلئے بنائے گئے ہیں تاکہ وقت کی قدر کرسکیں ہر نئے سال پر اسے نئی امیدوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی مدد ملتی ہے نئے سال کا سورج بنی نوع انسان کے ماضی کی تلخ حقیقتوں کو پیچھے چھوڑے گا اور ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گا جانے والے سال میں جو خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات پیش آئے وہ تمام ایک یاد ماضی بن کر رہ جائیں گے اور یہ جانے والا سال زندگی کے کچھ رنگا رنگ فتوحات اور دل برداشتہ کردینے والی ناکامیوں کا تحفہ دیتے ہوئے منظر عام سے یکسر غائب ہو جاتا ہے صرف اور صرف یادوں کا سرمایہ ہی ہمارے ساتھ چھوڑجاتا ہے، کبھی آپ نے سوچا کہ ایک منٹ کی ہمارے لئے کیا حیثیت ہے جسے ہم سینکڑوں چھوٹے لیکن اہم امور نمٹانے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں لیکن منٹ تو کیا ہم گھنٹوں کا حساب رکھنے کے قائل نہیں وقت ایک ایسی چیز ہے جو کبھی رکتا نہیں بلکہ پر لگا کر اڑتا ہی چلا جاتا ہے اس لئے وقت کی قدر کو جاننا بہت ضروری ہے ، وقت کو برباد نہ ہونے دیں اور نہ ہی غیر مفید باتوں میں صرف کریں تاریخ بھی ہمیں سبق دیتی ہے اور وقت کا تجربہ بھی یہی سکھلاتا ہے کہ دنیا میں جس قدر کامیاب ہستیاں گزری ہیں ان کی کامیابی و شہرت کا راز یہی وقت ہے کہ انہوں نے اس کا صحیح استعمال کیا،
نئے سال کا استقبال دنیا بھر میں الگ الگ طریقوں سے کیا جاتا ہے جسمیں مسلم ممالک بھی شریک ہیں ہماری عقل کہاں چلی گئی اور کدھر چلی گئی ہم یوربین کلچر کی طرف تیزی سے بھاگتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں ہم اس کے ہر تہوار منعقد کرتے ہیں ۔ مدر ڈے۔ فادر ڈے۔۔ ٹیچر ڈے ۔ اور پھر یہ نیا سال کا استقبال، یہ سب ان کی ایجاد کردہ ہیں اور ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں والدین اور اساتذہ کی خدمت کا حکم تو ہمیں شریعت نے دی ہے ہم کیوں پورپ کی ایجاد کردہ تہوار منائیں ، جسمیں فضول خرچی اور وقت پاشی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا آخر یورپ کے کسی بھی ملک میں ہمارا تہوار نہیں منایا جاتا پھر ہم کیوں غلامی کررہے ہیں؟
جبکہ نئے سال کا استقبال پوری دنیا اپنے تمام تر فحاشیوں کے ساتھ کررہی ہے ہم بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہیں سب ممالک اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق سال نو کا آغاز کرتے ہیں ۔۔۔ چنانچہ
نیویارک اور کیلی فورنیا میں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کیلئے ایک لوک دھن کے ساتھ مشہور شاعر رابرٹ برنز کا نغمہ گاتے ہیں شراب پیتے ہیں اور خوب فحاشی کرتے ہیں،
تھائی لینڈ میں سال نو کی آمد پر یہاں کے باسی ایک دوسرے پر دل کھول کر پانی پھیکتے ہیں ، اس کا مقصد نئے سال کی نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور گزرے سال کی ناکامیوں کو دھونا ہوتا ہے،
برازیل۔ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر آپ نے آنے والے اس نئے سال میں نقصان پہنچانے والی گندی اور خراب روحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو نئے سال کی شام کا استقبال سفید لباس کے ساتھ کریں اگر آپ نے اس شام کو مکمل طور پر سفید لباس زیب تن کیا تو سمجھ لیجئے کہ کوئی بھی بد روح آپ کو نہیں ستا سکتی ہے چنانچہ بارہ بجتے ہی سب سفید لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں،
چین یہ ملک نئے سال کا استقبال کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ہر شخص سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو لفافہ میں ہدیہ پیش کرتے ہیں اور اس کو نیک شگون سمجھتے ہیں،
گویا ہر ملک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے جو خود اسی نے ایجاد کیا ہے ، طوالت کی وجہ سے یہاں سب کا نہیں پیش کیا جاسکتا،
لیکن اسلامی شریعت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی نیا سال آیا اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی لیکن کہیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ نئے سال کی آمد پر کسی طرح کا بھی کچھ اہتمام کیا گیا ہو ،
سال کے اختتام پر غم کرنے اور اس کا محاسبہ کرنے کی مثال تو ملتی ہے لیکن خوشی منانے کی مثال نہیں ملتی،
حیرت ہے عقل رکھنے کے باوجود عمر کے ایام کم ہونے پر خوشی مناتے ہیں ،۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ لمحہ لمحہ کا محاسبہ کیا جائے رات کو سوتے وقت دن بھر کا محاسبہ ہو جو خامیاں رہ گئیں اس کی بھرپائ کی کوشش ہو اور ہر وقت کو غنیمت سمجھا جائے، ہمارا سب بڑا اور قیمتی سرمایہ یہ ہے کہ ہم اپنے شریعت کے پیرو کار بنیں ہماری زندگی میں کسی بھی طرح کی تہذیب جو غیر شرعی ہو زہر ہلاہل ہے کامیابی اسی میں ہے یورپین کلچر کو پس پشت ڈال کر خود کو اسلامی سانچے میں ڈھالیں ایک سال زندگی کے کم ہوگئے اس کا محاسبہ کریں اور نئے سال میں اس کا اجبار کرنے کی کوشش کریں بہترین زندگی کا لائحہ عمل تیار کریں