ان دنوں ناول کی نیی نیی تعریفیں بیان کی جا رہی ہیں ۔ میں جب لکھتا ہوں تو میں ناول کی نئی پرانی تعریفوں سے باہر نکل کر اپنے ویژن کا دریچہ کھولتا ہوں ۔ مجھے کبھی احساس نہیں رہا کہ کون کیا لکھ رہا ہے ۔ مجھے ہمیشہ یہی خیال رہا کہ مجھے کیا لکھنا ہے ۔ میں اپنے راستے پر چلا ۔ مرگ انبوہ لکھنے کے بعد محسوس ہوا کہ بہت کچھ باقی رہ گیا ہے ، جسے لکھنے کی ضرورت ہے ۔ اور میں لکھتا چلا گیا ۔ کیا ہم بھول جائیں کہ جو زہر زمانہ میں پھیلا ہے ، اسے محسوس کرنے کا کام ناول نگار کو نہیں ؟ جب ہم ہلاک ہو رہے ہوں گے کیا اس وقت بھی ہمارا ادیب فلسفوں کے تاج محل سے باتیں کر رہا ہوگا ؟ میرے سامنے جو حادثے ہیں ، میں انھیں فراموش کر کے تخلیقی ذمہ داری سے الگ نہیں ہو سکتا ۔
مبہم تسلیوں کا دور، جیسا کہ ہم خود کو دیتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں کہ ہماری کوشش میں کہیں کوئی کمی نہیں رہی۔ میں سر ہلاتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ ابا کہیں قریب کھڑے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کوششیں ناکام نہیں ہوتیں۔ میں ابا کے الفاظ کو دہراتا ہوں۔ خلامیں کچھ گھوڑسوارنظرآتے ہیں جن کے ہاتھوں میں شمشیریں ہیں۔وہ شمشیریں لہراتے ہوئے کہتے ہیں، تمہیں ہربار تعبیر بتائی گئی مگر تم اب بھی اندھوں کے غار میں بند ہو۔ میں ابا کے کمرے کی طرف بڑھتا ہوں۔ مجھے وہ گھوڑ سوار نظر آئے جو شمشیریں لہراتے ہوئے خلا میں کھو گئے تھے۔ یہاں وہی چہرہ تھا، جسے میں نے خانقاہ میں دیکھا تھا۔ راسپوتین۔ میں نے دیکھا، وہ تصویر میں ہنس رہا تھا۔ میں نے کہا تھا نا، ملاقات ہوگی۔ میں نے نگاڑوں کی آواز سنیں۔ وہی آوازیں جو خانقاہ میں سنائی دی تھیں۔ اور راسپوتین نے کہا تھا۔ فوجی جنگ کی مشق کررہے ہیں اور مقدس گناہ نے میرے اندر کچھ مخفی اور پُر اسرار قوتیں رکھ دی ہیں۔ راسپوتین کا قہقہے لگاتا ہوا چہرہ، جب اس نے کہا تھا، عورت کائنات کی اسفل ترین مخلوق ہے اور اس کو حاملہ کرنا بھی ہنر ہے۔
یہ سب ہماری دنیا میں ہو رہا ہے ۔اور میں ان سے آنکھیں چرا کر محض علامت ، فنتاسی ، فلسفے کے راستے پر نہیں چل سکتا ۔ اس وقت ایک رسپتن ہمارے درمیاں ہے اور میں اسے نظر انداز نہیں کر سکتا ۔
راسپوتین۔ میں نے غورسے اس کے چہرے کو دیکھا۔ وہ ہنس رہا تھا۔ یاد کرو، میں نے کیا کہا تھا۔ سلطنتیں تباہ ہورہی ہیں۔ کوئی ہے جس نے میرا چہرہ پہن لیا ہے۔۔۔ اور میں نے بھی کبھی کسی کا چہرہ پہنا تھا۔مقدس گناہوں نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے۔ مضبوط لکڑی کا ایک مربع نما ٹکڑا پانی کے ساتھ بہتا بہتا میرے پاس آگیا ہے۔ میں اس وقت تیز بُو محسوس کررہا ہوں اور یہ بو اسی لکڑی کے ٹکڑے سے آرہی ہے۔راسپوتین۔ میں دو تین بار اس لفظ کو دہراتا ہوں۔ مجھے ہر بار وہ چہرے بدلتا ہوا نظر آتاہے۔مجھے اس کے قہقہے اس ملک کے دریا،سمندراور پہاڑوں میں گونجتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔ اور نخلستانوں میں۔ میں بہت دنوں بعد ریت کی آندھیوں کی زد میں ہوں۔ میں بھاگتا ہوں اور اڑتی ہوئی ریت میں اس کے خوفناک چہرے کو محسوس کرتا ہوں۔ اب میں صحرا سے دور نکل آیا ہوں مگر وہ چہرہ بدستور میرے سامنے ہے۔ میں خلا میں اس چہرے کو محسوس کرتا ہوں اور مجھے خوف کا احسا س ہوتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ چہرہ دیکھتے ہی دیکھتے خلا میں پھیل گیا ہے اور اس کے منہ سے نکلتی ہوئی بدبو دار سانسیں خلا میں جمع ہورہی ہیں۔پھر میں نے سڑک پر افراتفری کا ماحول دیکھا۔ ایک جم غفیر تھا، جو بھاگ رہا تھا۔ گاڑیاں ہوا میں اچھل رہی تھیں۔ہجوم چیخ رہا تھا۔۔۔۔ وائرس۔۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑک ویران ہوگئی۔ جابجا لوگ گرے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں زندہ تھے یا مردہ۔یا اس خوفناک چہرے کے منہ سے نکلتی ہوئی بدبودار سانسوں کے شکار۔ مگر مجھے یاد ہے، جب اس کے جبڑے کھلے تھے۔۔۔۔ اور بدبودار سانسیں باہرنکلی تھیں، اس وقت آتش فشاں پہاڑوں سے آگ کی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ سمندر گرج رہا تھا۔ گلیشیر ٹوٹ رہے تھے اور پگھل رہے تھے۔۔۔۔ اور زمین پر گاڑیاں ہوا میں اچھل رہی تھیں۔
میں نے دروازہ کھولا۔ باہر نکلا۔ سامنے جو مکانات تھے، ان کی کھڑکیاں بند تھیں۔ مجھے بھاگتا ہوا ایک درویش نظر آیا۔ مجھے یقین تھا کہ درویش سے کوئی نئی معلومات مجھے حاصل ہوسکتی ہے۔ میں نے اسے روکا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ وہ سہما ہوا تھا۔ اس نے آہستہ سے کہا۔
دھواں، بدبو اور زلزلہ۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ جب میں باہر نکلا، زمین ہل رہی تھی۔۔ میرا وجود ہوا میں تحلیل تھا۔ فطرت مسلسل انتقام لے رہی ہے۔ کوئی طاقت ہے جو زمینوں کو ہلا رہیہے اور اب اس سلسلہ میں اضافہ ہوچکا ہے۔ میں جوگیاں پھاٹک کے پاس کھڑا تھا۔۔۔ اور اگر زمین کئی حصوں میں تقسیم ہوجائے؟ میں نے سوچا، مکانات اندر کی طرف دھنسنے لگیں،یقین کے ساتھ کہ ان میں سورج مکھی کے پھول بھی ہوں گے اور میں نے خیال کیا کہ اس موقع پر ہنسنا غلط ہے۔۔۔ اور مجھے اپنے کندھوں کی طرف دیکھنا چاہیے کہ وہ سلامت ہیں یا نہیں — میں مطمئن ہو کہ میرے کندھے ابھی بھی سلامت ہیں مگر میرے پاؤں چلتے وقت ہلنے لگتے ہیں۔ ممکن ہے یہ زلزلے کا اثر ہو۔ مگر میرے نتھنوں میں ایک مہک ہے، جو داخل ہوئی چلی جارہی ہے۔ باسی اور مردہ مچھلیوں کی مہک۔ ہوا تیز ہے اور میں مردہ مردہ مچھلیوں کے ساتھ ہوں۔ میرے لیے یہ سمجھنامشکل نہیں ہے کہ موسم،حالات وحادثات پرنظررکھتے ہیں۔ اذیتیں بارش پیدا کرتی ہیں — لہو لہان زخم موسم کو کہرے میں تبدیل کردیتے ہیں ذرا سی شادمانی دھوپ بن کر پھیل جاتی ہے۔ مسلسل حاد ثے زلزلوں کو آواز دیتے ہیں اور انسانی فطرت تبدیل نہیں ہوتی تو فطرت انگڑائیاں لیتی ہے اور زمینیں ہلنے لگتی ہیں۔
ناول ۔۔ مرگ انبوہ ، مردہ خانے میں عورت ، صحرائے لا یعنی ، ہائی وے پر کھڑا آدمی ۔۔ لکھتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ میں چاہتا ہوں ، مغرب کے خول کو کنارے رکھتے ہوئے آپ میرے ناولوں کا مطالعہ کریں اور وہ بھی جو ذوقی کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔