نیا ہندوستان پرانا مسلمان
تاثرات: شہرام سرمدی
(پیش لفظ: شہرام سرمدی کے اس تبصرے کا یہ خطرناک اور عبرت ناک جملہ بار بار پڑھیں: ” اس شمارے کی صحیح قدر اور اہمیت کا تعین اسی وقت ممکن ہے جب بعض احباب سرورق سے اس کے ‘مدیر’ کے نام کو حذف کرکے پڑھیں گے۔ …. کیونکہ عین ممکن ہے کہ ‘مدیر’ کا نام بعض احباب کو ان کے پیشگی خود ساختہ تعصبات کے حصار سے باہر نہ آنے دے۔”
کیا ایسا نہیں ہے؟ کل ہی ایک صاحب نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا کہ اشعرنجمی تنک مزاج ہے، اکھڑ ہے، بدمزاج ہے وغیرہ، گویا مدیر یا مصنف کا اپنے قارئین سے رشتہ کاغذ اور قلم کا نہیں رہا، سمدھیانے کا رشتہ ہوگیا ہے۔ ارے بھائی، تم کو اس سے کیا مطلب کہ میں شخصی طور پر کیسا ہوں، تمھیں صرف اس سے مطلب ہونا چاہیے کہ جس پلیٹ فارم پر میں اور تم ایک ساتھ کھڑے ہیں، وہاں اشعرنجمی کیسا ہے؟ تمھیں اشعرنجمی سے واسطہ بطور ایک فکشن نگار اور مدیرکے ہونا چاہیے اور بس۔ شہرام سرمدی کی زیر نظر عالمانہ اور قدرے پُراسرار تحریر نہ صرف ‘نیا ہندوستان پرانا مسلمان’ پر تبصرہ ہے بلکہ معاصر ادیبوں کے سماجی شعور اور خود ساختہ اخلاقیات پر بھی سوالیہ نشان چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ بلاشبہ اس تبصرے سے یہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ شہرام سرمدی ‘انتر یامی’ ہیں۔مجموعی طور پر اس تبصرے پر سوائے اس کے بھلا اور کیا کہا جا سکتا ہے: ‘دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا’: اشعرنجمی)
————————————————–
ایک ناستِک تھا۔ اس نے یہ عہد کیا کہ وہ بھگوان میں آستھا رکھنے والے دنیا کے تمام آستِک کو دلائل سے قائل کرکے ان کو ناستِک بناۓ گا۔ اپنے اس عزم میں اس نے اپنے قرب و جوار کے تقریباً سارے آستِک حضرات کو زیر کر دیا تھا۔ ایک مرتبہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آستِک ابھی بھی رہ گیا ہے جو فلاں پہاڑی پر رہتا ہے۔ وہ ناستِک رات بھر اس بلند پہاڑی پر چڑھتا ہے تاکہ طلوعِ آفتاب سے قبل ذکر کردہ آستِک کے پاس جاۓ اور اسے بھی اپنے مباحث کے ذریعے لاجواب کردے۔
پہاڑ کی بلندی پر جا کر اس نے دیکھا کہ ایک شخص سو رہا ہے۔ اگر چہ سورج طلوع ہو چکا تھا۔ جبکہ معاملہ یہ ہے کہ آستِک حضرات سورج نکلنے سے قبل ہی بیدار ہوجاتے ہیں لیکن یہ شخص سویا ہوا تھا۔ جب ناستِک نے دیکھا کہ اس شخص کے پاؤں ‘شَنکَر کے پِنڈ’ پر رکھے ہوۓ ہیں تو وہ تھرتھرا اٹھا۔ اس نے مَن ہی مَن سوچا کہ میں دنیا کا سب سے بڑا ناستِک ہوں مگر یہ تو مجھ سے بھی بڑا ناستِک نکلا۔ ‘شَنکَر کے پِنڈ’ پر پاؤں رکھنے کے پاپ کے بارے میں تو میں بھی نہیں سوچ سکتا۔ اس ناستِک نے انتہائی بے چینی کے عالم میں آستِک کو جھنجھوڑ کر جگایا اور کہا: مورَکھ ! سورج سر پر چڑھ آیا اور تو ابھی بھی سو رہا ہے اور یہ کیا پاپ کر رہا ہے کہ تونے اپنے پاؤں ‘شَنکَر کے پِنڈ’ پر رکھے ہوۓ ہیں۔ یہ سن کر آستِک بولا: یہ ساری زمین ‘شَنکَر کا پِنڈ’ ہی تو ہے۔ تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ پاؤں یہاں رکھوں یا ‘شَنکَر کے پِنڈ’ پر۔
ذکر کردہ واقعہ ‘اثبات’ کا تازہ شائع شدہ ‘نیا ہندوستان پرانا مسلمان’ کی ورق گردانی کرتے ہوۓ یونہی ذہن میں آگیا۔
ایک سو اٹھارہ مضامین، اکتالیس فکشن پارے، تیرہ نظمیں، ‘ایک’ اداریہ اور ‘ایک’ حاصلِ کلام پر مبنی اثبات کے اس شمارے کی صحیح قدر اور اہمیت کا تعین اسی وقت ممکن ہے جب بعض احباب سرورق سے اس کے ‘مدیر’ کے نام کو حذف کرکے پڑھیں گے کیونکہ عین ممکن ہے کہ ‘مدیر’ کا نام بعض احباب کو ان کے پیشگی خود ساختہ تعصبات کے حصار سے باہر نہ آنے دے۔ یہ شمارہ اگر ‘مدیر’ کے نام سے صرفِ نظر کرکے پڑھا جاۓ تو اس میں قاری کو ‘لمحۂ حال’ میں قائم کرنے کی عجیب قوت پنہاں ہے۔
‘نیا ہندوستان پرانا مسلمان’ کے مطالعے کے دوران مَن عَرَفَ ربہٗ کَلَ لِسَانُہٗ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک سو اسی کے زاویے پر رکھے اس ‘آئینہ شمارے’ کو دیکھ کر گلا رُندھ جاتا ہے۔ یہ شمارہ محض براۓ قرات نہیں، بلکہ براۓ عبرت ہے۔ یہ جاۓ موشگافی کے بجاۓ عرصۂ خود احتسابی ہے۔
‘نیا ہندوستان پرانا مسلمان’ کی ضخامت کی بابت باخبر واقف ہیں اس لیے تکرار نہیں کروں گا۔ میں اس شمارے کو ایک تحقیقی کام کی صورت میں دیکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہیں عرض کیا تھا کہ میں چونکہ ایک عدد ڈاکٹریٹ کے مقالے پر کام کر چکا ہوں اس لیے اس تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے یہاں علم و تحقیق کے میدان میں، پیشہ ور احباب کو روایتی موضوعات پر بھی صرف synopsis بنانے کے لیے ایک عمر کی حاجت ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ بیشتر احباب synopsis کے بغیر Thesis بنالینے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اشعر نجمی کا معاملہ یہ ہے کہ اس ایک عمر کے عشرِ عشیر میں نئے نئے موضوعات پر کئی کئی جلد میں قابلِ قدر کام انجام دے دیتے ہیں۔ اس اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ایک بھیڑ اس بات پر مُصر ہے کہ اشعر نجمی کو مارکیٹنگ آتی ہے۔ ان میں، مُیں بھی شامل ہونا چاہوں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشعر نجمی کو علم ہے کہ ‘موت’ کے ذکر سے پُر فکشن کو بھی ‘زندگی’ کیسے عطا کی جاسکتی ہے۔ اشعر نجمی کا مشاہدہ بہت وسیع ہے انہیں خبر ہے کہ لوگ باگ کھانوں کے ساتھ ترجمے میں لگے لفظ ‘جنت’ کو کیسے پیش کرتے ہیں اور کس طرح اصل باورچی کو باورچی خانے میں محبوس کرکے لاکھوں حاصل کرتے ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں Donald Trump نے اپنی کامیابی میں Elon Musk کے اہم رول کا اپنے اولین خطاب میں کئی منٹ تک ذکر کیا۔ اشعر نجمی کی تقدیر Elon Musk جیسی نہیں ہے۔
اپنی بات حضرتِ فضلِ رحمٰن علیہ الرحمہ کے ارشاد پر ختم کرنا چاہوں گا۔ آپؒ فرماتے ہیں: ‘مثنوی مولانا روم پڑھا کرو۔ تین سو آدمی قطب و ابدال ہوگئے ہیں’۔ دریافت کیا گیا: مثنوی معنی کے ساتھ یا خالی الفاظ کے ساتھ پڑھی جاۓ؟’ آپؒ نے فرمایا: ‘فقط لفظ کے پڑھنے والے’۔
‘نیا ہندوستان پرانا مسلمان’ کے مشمولات پر گفتگو نہیں، غور و فکر ممکن ہے۔ یہاں ادب کی سماجیات کا پرچم لہرا کر نعرے بازی کرنے والوں کے لیے داخلہ ممنوع لکھا ہے۔ اس کے مطالعے نے کَلَ لِسَانُہٗ کی کیفیت طاری کر دی ہے سو زبان اظہار سے عاجز ہے۔ یہ بات میں سنجیدگی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ احباب ‘نیا ہندوستان پرانا مسلمان’ کو سنسنی خیز خبر بننے سے محفوظ رکھیں۔ یہ دستاویز ‘مقامِ گفتن’ نہیں بلکہ ‘ وقفۂ شنیدن’ ہے جو ہمیں عریاں حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ اس میں ذکر شدہ حالات سے آگہی، ‘حال’ میں ورود کا ایک وسیلہ ہے البتہ اس کے لیے ‘محض قال’ کو ترک کرنا لازمی ہے۔
قال را بگزار مرد حال شو
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...