نیا الیکشن، پاکستان کو غلامی مبارک ہو
بین الاقوامی مالیاتی نظام اور جدید نوآبادیاتی دور میں پاکستان کا کردار صرف اس عالمی مالیاتی نظام و سامراج میں محض گماشتہ کا رہا ہے۔ مجھے پاکستان کے نظام مملکت سے متعلق ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ آمریت کا دور ہو یا پھر جمہوریت کا دور ہو، نظام مملکت کی بنیاد عوامی استحصال پر ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں آل شریفیہ کے بانی محمد نواز شریف جو اپنے تمام ادوار حکومت میں اسی عالمی مالیاتی نظام کے محافظ رہے ہیں اور خود مرکنٹائل ازم کے نمائندہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اُن چنیدہ سیاستدانوں میں شامل ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے منہ بولے بیٹے بنے، اب اسی اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہیں۔
اس سیاسی کُشتی میں شکست صرف اور صرف عوام کی ہوگی۔ پاکستان کے تمام حلقوں میں اب صرف ایک ہی پہلو پر گفتگو ہوتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ نواز شریف۔ اس کہانی کی گردان پاکستان کے برقی و پرنٹ میڈیا نے اتنی بار سنائی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفہ کو ہی مائنس کر دیا گیا ہے۔ اور اُس اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہیں جو خود اسی عالمی نظام سیاست کی نمائندہ ہے، یہ اسٹیبلشمنٹ نہ تو کالونیل دور کی تربیت ہیںتہ بیوروکریسی کو ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے اور نہ ہی یہ اسٹیبلشمنٹ غلامی کے دور کے وضع کردہ عدالتی اور پولیس کے نظام کو بدلنے کی خواہاں ہے۔
نظام مملکت بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے ذیلی مالیاتی ادارے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا پروردہ ہے اور نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان سبھی اسی نظام کے محافظ۔ دیہی علاقوں کا جاگیرداری نظام جو دیہی معیشت و معاشرت کا اجارہ دار ہے، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نہ تو اسٹیبلشمنٹ تیار ہے اور نہ ہی نواز شریف اینڈ کمپنی۔ امریکہ بہادر اور عالمی سامراج کے شراکت دار سبھی پاکستان کو محض آلہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں، اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں بھی عالمی مالیاتی نظام کے باعث پاکستان نہ تو انڈسٹریل ملک بن سکا، نہ تو ٹیکنالوجیکل اور نہ ہی جدید زرعی ملک، بلکہ یہاں کی تمام اجارہ دار طبقات نے ایک غلام و کمزور معیشت کا نمائندہ ملک بنا دیا۔ یہاں کے تھانے کچہری کی سیاست ہو یا پھر ایوان بالا و ایوان زیریں کی سیاست، صرف معاشرے کے بالادست طبقات ہی سکہ رائج الوقت ہیں جو بذات خود اس عالمی سامراجی و سرمایہ داریت کے محافظ ہیں۔
اب عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ تھڑے پر سبزی بیچنے والا ہو یا پھر یونیورسٹی میں بیٹھنے والا طالبعلم و اُستاد سبھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ومخالفت، نواز شریف کی حمایت و مخالفت، عمران خان کی حمایت و مخالفت میں میڈیا سے اُدھار لیے گئے دلائل پر مباحثے کر کے اپنے نفس کو سکون و راحت فراہم کرنے میں مشغول ہیں۔ پاکستان کا میڈیا جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات، برطانیہ و امریکہ کے سفارتکاروں کی ہدایات، مالکان کے ذاتی مالی فوائد کی بنیاد پر آپریٹ کر رہا ہے، یہاں پر پیش ہونے والی دانشوری کے جملہ حقوق اس عالمی مالیاتی نظام کے پاس محفوظ ہیں۔
یہاں کے جمہوری نظام میں الیکٹ ایبلز کا تصور بنیادی طور پر پوسٹ کالونیل تصورات سے اخذ کردہ ہے، وہی الیکٹ ایبلز جو جاگیردار، سرمایہ دار، صنعت کار کے نمائندہ ہیں۔ وہ الیکٹ ایبلز جو رائج جمہوری نظام میں ووٹ کی قیمت لگانے کا ہُنر جانتے ہیں، انہی الیکٹ ایبلز کے گرد اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کی قومی دائرے کی سیاسی جماعتیں چکر لگاتی نظر آتی ہیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ بھی فریب ہے اور جمہوریت کا نعرہ بھی فریب ہے کیونکہ پاکستان میں آزاد سوچ، آزاد فکر اور قومی فلسفہ کا وجود ہی نا پید ہے تو گویا جمہور کی آڑ میں جمہور کے ساتھ سائنسی طرز پر فراڈ کیا جاتا ہے۔ غریب کے حق کی آواز بلند کرنے والا سیاستدان اور میڈیا کا مالک امیر ہوجاتا ہے لیکن غریب مزید غریب تر ہوجاتا ہے۔
یہ پہیہ ایسے گھمایا گیا ہے کہ پاکستان کا متوسط و نچلا طبقہ پہیے میں لگے گھنگھروؤں کی طرح بجتا رہتا ہے، کبھی پہیہ اُلٹا گھما دیا جاتا ہے اور کبھی سیدھا، مقصد صرف چکر دینا ہوتا ہے۔ عالمی اجارہ داری کا نمائندہ یہ نظام مملکت ارتقائی فلسفہ کی بنیاد پر چلتا رہا تو شاید اپنا وجود ہی کھو بیٹھے، پھر یہ اسٹیبلشمنٹ، یہ سیاسی و معاشی اشرافیہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔ جمہوری تصورتو وہاں ہوتا ہے جہاں سیاسی جماعتوں کی پیدائش و پرورش براہ راست جمہور کرتی ہے، جہاں کا فکرو فلسفہ آزاد ہوتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو ہمارا دو قومی نظریہ بھی سمندر بُرد ہوگیا تھا، جس مذہب کا نعرہ لگا کر ہم اپنا ملک بنا بیٹھے وہی مذہب قومیت کا نعرہ لگا کر پھر سے تقسیم ہوگیا۔
دجل و فریب کے اس جمہوری نظام میں فکر کی آزادی، سوچ کی آزادی، سامراج کی پہچان اور استحصالی قوتوں کے خلاف شعور ہی ملک کی بقاء کا ضامن ہے وگرنہ معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے پاکستان جہاں پہنچ چکا ہے شاید عالمی مالیاتی نظام بھی اس کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہو۔ نیا جمہوری الیکشن جن تصورات کی بنیاد پر لڑا جارہا ہے، جو دانش وری ہمارے قرب وجوار میں ملتی ہے، اس کی چوٹ پر نہ تو عالمی سامراج ہے اور نہ ہی یہ پاکستان کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام پر چوٹ لگاتی ہے۔ یہ صرف غلامی کی زنجیروں کی مضبوطی کے لئے ہے، شاید اس قوم کو یہ سمجھنے میں مزید 70 سال چاہیے ہیں.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔