خاور چودھری نے مسلسل محنت اور ریاضت کی بدولت اردو ادب کے سنجیدہ حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کر لی ہے۔شاعری،کالم نگاری اور افسانہ نگاری ان کی ادبی شناخت کے خاص میدان ہیں۔ان کا تازہ مجموعہ "شاخِ آفتاب پر اُگا آنسو" اس اعتبار سے لائق توجہ ہے کہ اس میں شامل تمام افسانے کرونائی صورت حال سے پیدا ہونے والی نئی سماجی زندگی کا بھرپور عکس پیش کرتے ہیں۔کتاب کا مسودہ پڑھ چکنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بلا شک و شبہ اردو ادب کا پہلا ایسا منفرد افسانوی مجموعہ ہے جس میں تمام کہانیوں کا تعلق کرونائی آفت کے ساتھ ہے۔اس اعتبار سے اسے اولیت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔کرونائی ادب جس تیزی اور سرعت کے ساتھ لکھا جا رہا ہے یہ بذات خود ایک حیرت انگیز معاملہ ہے کہ اتنے کم عرصے میں شاعری کا ذخیرہ اتنا جمع ہو چکا ہے کہ اسے دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے۔افسانہ نگاری میں اگرچہ یہ صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی،خال خال افسانے اس موضوع پر سامنے آئے اور یہ بھی سنا گیا کہ کچھ احباب نے موجود وبائی تناظرات میں ناول پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔خاور چودھری نے کرونائی وبا کے ہنگام میں سے جس طرح اپنی کہانیوں کا مواد اخذ کیا اس کی داد ہر افسانے کا پہلا حق ہے۔موجودہ حالات میں جتنی تیزی سے سماجی تغیرات برپا ہو رہے ہیں اس کا ادراک صرف وہی لکھاری کر سکتا ہے کہ جو صاحب بصیرت بھی ہو اور صاحب کمال بھی،جیسا کہ ہر تخلیق کار کائناتی اور سماجی مظاہر کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھتا پرکھتا اور پیش کرتا ہے خاور چودھری نے بھی اپنا یہ استحقاق بخوبی استعمال کیا ہے۔خاور چودھری اصل میں ایک ایسے باہمت اور ذمہ دار تخلیق کار ہیں جن کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہے اور وہ اس کی ہر کیفیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ ان کی مستقبل بینی بھی ہے کہ نئے افسانے کے مسائل اور میلانات کو اجتہادی سطح پر پرکھ سکتے ہیں۔اس مجموعے میں حقیقت نگاری کا وہ تیکھا انداز شامل ہے جس کی ایک جہت تو انسانی وجود کی پیچیدہ صورت کو منکشف کرتی تو دوسری جہت ادب اور فن کے تقاضوں میں نئی روح بھی پھونکتی نظر آتی ہے۔یہ کرونائی افسانے کسی ہنگامی تحریک یا رجحان کے زیر اثر تخلیق نہیں ہوئے بلکہ اس وژن کی بدولت معرض تحریر میں آئے جس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ایک بڑا اور پختہ کار لکھاری ہی کر سکتا ہے۔ان افسانوں کی زبان سادہ لیکن تہہ دار ہے اور اسلوب میں وہ بے جا علامتی انداز بھی نہیں ہے جو اچھی بھلی کہانی کو چیستان بنا دیتا ہے۔افسانوں کی تکنیک میں کامل ادبی رکھ رکھاو موجود ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خاور چودھری فن افسانہ نگاری کی نئی قدروں کو اپنانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ ایک فن کار کو دنیا کے تمام علوم و فنون کی ضرورت ہے لیکن اسے یہ تمام علوم و فنون اپنے ادبی فن سے باہر رکھنے چاہیں بالکل اسی طرح خاور چودھری موجودہ کرونائی صورت حال کے تمام نظری اور عملی معاملات سے واقف ہیں لیکن کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انھوں نے محض کسی افسانے کو جان بوجھ کر متھ بنانے کی کوشش کی ہو۔خاور چودھری کا یہ مجموعہ اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ انھوں نے نئی معاشرے کی نئی کہانی لکھی ہے،یہ کہانی روایتی مضامین کے بجائے نئی ارضی صورت حال کو سمجھنے کی ایک مخلصانہ کاوش ہے۔جدید کہانی کی یہ ارضیت قاری کی بصیرت کو بڑھاتی ہے اور سماج کی خارجی اور داخلی دنیاوں کے نئے در بھی وا کرتی ہے۔افسانوں کا یہ تازہ مجموعہ اردو ادب میں اہم اور خوشگوار اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔اس میں کرونائی صورت حال سے وابستہ نئی اقدار،نئے رجحانات،نئے خدشات،نئے تجزیات اور نئے انسان کا المیہ نظر آئے گا۔یہ مجموعہ قاری کی فکر کو بار بار جھنجھوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس نئی سماجی دانش میں اپنے کردار پر نظر ثانی کی طرف مائل بھی کرتا ہے۔