بچپن میں جب پہلی مرتبہ نیوٹن کے قوانین پڑھے تو حیرانگی ہوئی کہ اس میں بھلا کیا خاص بات ہے۔ ارے یہ تو سامنے کی بات ہے۔ جب کوئی چیز ساکن ہے تو وہ ساکن ہی رہے گی اور اُسے ہلایا جائے گا تو ہی ہلے گی۔ ایسے ہی جتنی زیادہ کسی شے پر قوت لگائیں گے اُتنا ہی وہ زیادہ رفتار سے آگے جائے گی اور ہر ایکشن کا ری ایکشن۔ یہ بھی سامنے کی بات لگتی تھی۔ پھر یہ سوچنا کہ نیوٹن کو ان قوانین پر اتنا سراہا کیوں جاتا یے جبکہ وہ تو سامنے کی ہی بات کر رہا ہے جو سب کو پہلے سے پتہ ہے؟
بہت عرصے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ جب تک کوئی شے دریافت نہ ہوئی ہو یا ایجاد نہ ہوئی ہو اسکا خیال ہی نہیں آتا اور صدیاں گزر جاتی ہیں مگر جب وہ ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم کہتے ہیں ارے یہ تو اتنی سامنے کی بات تھی۔ اسکا خیال پہلے کیوں نہ آیا؟ مثال کے طور پر پیہے کو لیجئیے ۔ آج سے کئی ہزار سال پہلے تک انسان پیہے کی ایجاد سے ناواقف تھے۔ پیہے کی ایجاد اور استعمال انسانوں کی لاکھوں سالا تاریخ میں محض تین سے چار ہزار سال پرانا ہے۔ اس سے پہلے انسانوں کو اس سادہ سی دکھنے والی ایجاد کا خیال کیوں نہ آیا؟
ایسے ہی نیوٹن کے قوانین کو لیجئے۔ ایکشن ری ایکشن؟ مگر یہ سادہ سی بات ایک بنیادی ایکویشن میں جوڑ دی گئی بہت ہی سادہ سی ایکوئشن۔ Fa=-Fr یعنی کسے شے پر لگنے والی قوت کی مخالف قوت بھی اُتنی ہو گی۔
کسی بھی عظیم سائنسدان کا سب سے بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ فطرت کے کسی مظہر کے پیچھے کار فرما اُصول کو ایک سادہ سی ایکوئشن میں باندھ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن کی یہ ایکوئشن E=mc² کتنی سادہ اور سب کو یاد ہے۔ مگر اسکے پیچھے جو فزکس ہے وہ کس قدر کمال کی ہے۔ اور اسے سمجھنے میں اور اس ایکویشن تک پہنچنے میں کتنا دماغ، کتنے نئے خیالات اور کتنی زبردست سائنس کا استعمال ہوا ہے۔
آج کی سائنس کا یہ ماننا ہے کہ کائنات کے بنیادی اُصول نہایت سادہ ہیں اور یہ اس تگ و دو میں ہے کہ کس طرح ایک ہی تھیوری کی چند سادہ ایکویشنز میں پوری کائنات کی بنیاد کو باندھ سکے۔ ایٹموں میں ہونے والے عوامل کو کوانٹم تھیوری سے سمجھا جاتا ہے جبکہ کہشاؤں، ستاروں اور بلیک ہولز کی سائنس کو آئن سٹائن کی چند ایکویشنز سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب کوئی شے سمجھ آ جائے تبھی اُس سے بہتر طور ہر استعمال کر کے نئی سے نئی ٹیکنالوجی بن سکتی ہے۔
جو سائنس ایک سادہ سی ایکویشن میں پوری کائنات کو سمجھا سکے وہ سائنس ہی سب سے بڑی سائنس ہے اور وہی سائنس ہی ہمیں کائنات کو تسخیر کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ آج مغربی ممالک اسی بنیادی سائنس کو سمجھنے کے لیے اربوں روپے لگا کر ایٹموں کو چیر رہے ہیں اور خلاؤں میں مہنگی مہنگی ٹیلی سکوپس بھیج رہے ہیں۔ یہ پیسہ آپکو ہمیں لگتا ہے کہ ضائع ہو رہا ہے مگر دراصل یہ وہ بیچ ہیں جو مستقبل میں ایسے پھل دینگے کہ ہم موجودہ دور کی ٹیکنالوجی اور ترقی کو بھی بھول جائنگے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...