بہرحال یہ تسلیم کرنے میں اب کوئی قباحت نہیں رہی کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا ،کائنات کو کھوجنے کا نشہ اس قدر گہرا ہے کہ کتنی ہی دہائیاں صرف ہوجانے کے باوجود آج بھی ہمیں گمان گزرتا ہے ہم کچھ نہیں جانتے۔ یہ کچھ نہ جاننے کا احساس ہمیں بار بار تحقیق پہ مجبور کرتا رہتا ہے۔یہ حقیقت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ کائنات کے سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے حضرتِ انسان نے مال کے ساتھ ساتھ جان کی قُربانیاں بھی دیں،ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے خلاء میں جانے سے پہلے ٹیسٹ فلائٹس میں سائنسدانوں کی جانیں گئیں، اسکے بعد چاند کو چھونے کی حسرت میں کیسے کیسے ہیرے ہم نے گنوا دئیے، لیکن ان تمام قربانیوں کا ثمر ہمیں کامیابیوں کی صورت میں ملا، لہٰذا اگر کوئی کہے کہ ہمیں یہ سب فقط ائیر کنڈیشنڈ رُوم میں بیٹھے ہوئے مل گیا ہے تو اُسے یقیناً ازسرنو مطالعے کی ضرورت ہے۔ ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے ملنے والی کائناتی پردے کی حسین تصاویر اپنے اندر بہت گہری داستانیں اور کئی قُربانیاں پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں… چونکہ زندگی نے زمین پہ ہی نشونما پائی ،اس خاطر ہمارا جسم خلاء میں موجود پیچیدگیوں سے لڑنے کا عادی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی انسانی مشن خلاء میں بھیجا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ہزاروں افراد کی محنت ہوتی ہیں۔اتنی احتیاط کے باوجود انسانی جسم خلاء میں لمبا عرصہ نہیں گزار سکتا… ابھی چار دن پہلے ایک ویڈیو انٹرنیٹ ویب سائٹس کی زینت بنی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے A.J.Feustel نامی امریکی خلاء باز زمین پہ دوبارہ چلنا سیکھ رہے ہیں، کیونکہ وہ تقریباً 200 روز عالمی خلائی اسٹیشن میں گزار کر آئے جس وجہ سے ان کی ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ان کے لئے چلنا مشکل ہوگیا، یہ صرف ایک خلاء باز کی کہانی نہیں بلکہ زیادہ تر خلاء باز واپس آنے کے بعد ایسی ہی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا جسم زمین کے لئے ڈیزائن ہوچکا ہے اور خلاء کے نامساعد حالات میں گھبرا جاتا ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود خلاء کی پُرسراریت انسان کو اپنی جانب کھینچتی رہی ، جس کے باعث سوچا گیا کہ کیوں نہ غیر انسانی مشنز کو خلاء میں بھیجا جائے اور ان کے ذریعے زمین پہ بیٹھے ہوئے کائناتی دریچوں پہ دستک دی جائے، اس ضمن میں وائیجر ون ،وائیجر ٹو، پیونیر 9، پیونیر 10 اور نیو ہورائزن سمیت کئی غیرانسانی مشنز لانچ کیے گئے ۔ نیوہورائزن مشن 19 جنوری 2006ء کو لانچ کیا گیا، اس مشن کا اصل ہدف ہمارے نظام شمسی کا بونا سیارہ پلوٹو اور Kuiper beltمیں موجود اجسام تھے۔اپنی اُڑان کے تیرہ مہینوں بعد 28 فروری 2007ء کو نیوہورائزن نے مشتری کا انتہائی قریب سے چکر کاٹا،(اس دوران اسکامشتری سے فاصلہ 23 لاکھ کلومیٹر تھا)اور مشتری کی کشش ثقل کو استعمال کرتے ہوئے نیوہورائزن نے اپنی رفتار بڑھائی اور پلوٹو کی جانب سفر شروع کردیا۔ یاد رہے کہ مشتری کے قریب سے گزرنے کے بعد اس کے آلات کو آف کردیا گیا تاکہ بجلی کم سے کم استعمال ہوسکے،8 سال بعد 6 دسمبر 2014ء کو اس کے آلات دوبارہ آن کیے گئے کیونکہ اس کا اصل ہدف یعنی پلوٹو اب نزدیک ہی تھا۔ اس تاریخی مشن سے پہلے تک پلوٹو کے متعلق ہمیں بہت ہی کم معلوم تھا،بلکہ حیران کُن بات یہ ہے کہ پلوٹو کو18فروری 1930ء کو 9th Planetکی حیثیت سے دریافت کیا گیا، یہ نظام شمسی کے ان چند سیاروں میں سے تھا جس کے متعلق ہمیں بغیر دیکھے ہی یقین تھا کہ یہ موجود ہے، کیونکہ یہ دوسرے سیاروں پہ اثر انداز ہورہا تھا، اور اس کی اسی عادت کی وجہ سے اسے24 اگست 2006ء کو سیاروں کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا،کتنا حیران کن احساس ہے کہ جس سیارے کی محبت میں ہم نے جنوری 2006ء کو نیوہورائزن نامی مشن لانچ کیا ، اسی سیارے کو 8 ماہ بعد نظام شمسی کے سیاروں کی لسٹ سے ہم نے باہر کر دیا، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب نیوہورائزن مشن لانچ کیا گیا اس وقت اس کا ہدف سیارہ پلوٹو تھا، لیکن جب یہ 14 جولائی 2015ء کو پلوٹو کے نزدیک پہنچا تو اس وقت ہمارے لیے پلوٹو بونا سیارہ بن چکاتھا۔اس closest flyby کے دوران نیوہورائزن کا پلوٹو سے فاصلہ صرف 12500 کلومیٹر تھا ، اس کی زمین سے دوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے سگنلز ساڑھے چار گھنٹے بعد زمین پہ موصول ہورہے تھے،اس مشن کے ذریعے ہمیں پلوٹو کی بہت ہی واضح تصویر ملی جس میں دِل کی شکل واضح موجود تھی ، یہ دل ایک ہزار کلومیٹر پہ محیط کاربن مونو آکسائیڈاور نائیٹروجن کی برف سے بنا ہواگلیشئیر تھا، ہمارے نظام شمسی میں اب تک اتنا بڑا گلئشئیر (برف کا ٹکڑا) نہیں دیکھا گیا،نیو ہورائزن کے ذریعے پلوٹو کے گرد موجود اس کے پانچوں چاندوں کا قریب سے تجزیہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ماضی میں کسی بڑے پتھر کا پلوٹو سے ٹکراؤ ہوا جس کی وجہ سے اس کے پانچوں چاند اکٹھے وجود میں آئے، ہمیں معلوم ہوا کہ پلوٹو پہ ابھی بھی آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں جو لاوا اُگل سکتے ہیں لہٰذا پلوٹو پہ زلزلے بھی آتے ہونگے، نیوہورائزن نےیہ بھی بتایا کہ پلوٹو سے آسمان کا رنگ زمین کی طرح نیلا دکھائی دیتا ہے،پلوٹو کی سطح دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ ماضی میں پلوٹو قدرے بہتر سیارہ تھا، یعنی اس کا atmospheric pressure زیادہ تھا اور زمین کی طرح اس پہ بھی دریا بہتے تھے، لیکن کیا یہ دریا پانی کے تھے؟ ہمیں نہیں معلوم!، پلوٹو کے چاند Charon کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ ماضی میں پلوٹو سے نکلنے والی گیسز کو Charon نے اپنے جانب کھینچا ، یوں پلوٹو سے آزاد ہونے والی کچھ گیسز آج بھی اس کے چاند میں قید ہیں، نیوہورائزن سے ملنے والی تصاویر کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ آج بھی پلوٹو کی سطح کے نیچے پانی موجود ہوسکتا ہے، پلوٹو پہ پہاڑوں کا سلسلہ اور بادل کا ٹکڑا بھی دیکھا گیا جس سے معلوم ہوا کہ پلوٹو پہ موسموں کا نظام موجود ہے حالانکہ ہمارا خیال تھا کہ پلوٹو ایک ویران اور مردہ بونا سیارہ ہوگا، پلوٹو کے چاند Charon پہ لینڈ سلائیڈنگ کے نشانات دیکھے گئے،اس سے پہلے مریخ ، زہرہ سمت دیگر کئی اجسام پہ لینڈ سلائیڈنگ کے نشانات دیکھے گئے ہیں…. پلوٹو کے متعلق اتنے راز دریافت کرلینے کے بعد سائنسدانوں نے نیوہورائزن کا رخ Kuiper Belt کی جانب کیا،کیونکہ ہمیں شک ہے کہ زمین پہ چار ارب سال پہلے زندگی کی ابتداء کے لئے جو ضروری عناصر آئے وہ دراصل Kuiper belt کے شہابیوں میں قید ہوکر آئے، ڈی این اے بنانے میں جن مالیکیولز کا کلیدی کردار رہا ہے وہ Kuiper belt کے پتھروں میں موجود ہوسکتےہیں، اسی طرح زمین پہ پانی کی موجودگی کے متعلق بھی ہمارا اندازہ ہےکہ وہ بھی انہی پتھروں میں برف کی شکل میں آیا۔ نیوہورائزن کا رُخ Kuiper Belt کی جانب موڑ تو دیا گیا مگر اس مقام پہ کوئی ایسا بونا سیارہ یا شہابیہ موجود نہیں تھا جس کو ٹارگٹ کرکے پہنچا جاسکتا ،جس وجہ سے 2014ء میں ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے سروے کروایا گیا تاکہ اس کے راستے میں آنے والا کوئی نیا ٹارگٹ دریافت کیا جاسکے، اس سروے کے نتیجے میں ہبل ٹیلی سکوپ نے تین ٹارگٹ دریافت کیے، جن میں سے سب سے پہلے ٹارگٹ کو الٹیما تھیولی نام دیا گیا…. اس کے نزدیک سے نیو ہورائزن کل (یعنی یکم جنوری 2019ء کو)گزرے گا، اس سیارچے کے قریب سے گزرتے ہوئے نیوہورائزن کا الٹیما تھیولی سے فاصلہ صرف 3500 کلومیٹر ہوگا، اب تک نیوہورائزن کسی بھی فلکیاتی جسم کے اتنے نزدیک سے نہیں گزرا، ابھی نیوہورائزن 14 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے Ultima Thule کی جانب بڑھ رہاہے،الٹیما تھیولی 30 کلومیٹر diameterکا حامل پتھر ہے جو سورج کے گرد 296 سالوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے،اس کا زمین سے فاصلہ 6.6 ارب کلومیٹر ہے! اتنے قریبی flyby کے دوران نیوہورائزن کوشش کرے گا کہ تصاویر کے ذریعے الٹیما تھیولی کا نقشہ بنا سکے ، اس کے ساتھ ساتھ اس کی سطح کے تجزیے سے یہ بھی اندازہ لگایا جائے گا کہ کیا اس پہ پانی موجود ہے؟ یا پھر جن مالیکیولز کی ہمیں تلاش ہے ان میں سے کوئی وہاں پہ موجود ہے یا نہیں؟ الٹیما تھیولی کا تجزیہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ ماضی میں ہمارا نظام شمسی کیسا تھا ؟ یا پھر نظام شمسی کیسے بنا ، کیونکہ Kuiper belt میں موجود پتھر بہت پرانے ہیں اور اب تک تقریباً اسی حالت میں ہیں، جبکہ سورج کے نزدیک پتھر یا تو سیارے بن چکے ہیں یا پھر چاند کی شکل میں کسی سیارے کے گرد گھوم رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ Kuiper belt سے ملنے والی معلومات ہمیں نظام شمسی کا ماضی جاننے کے لئے بہت اہم ہونگی، منگل یکم جنوری 2019ء کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح 10:33 پہ ہونے والے اس flyby کے بعد الٹیما تھیولی کو یہ ٹائٹل ہوجائے گا کہ یہKuiper belt کا پہلا سیارچہ ہے جسے انسانی ہاتھوں سے بنی مشین نے اتنے قریب سے تجزیہ کیا ہے،اس کے قریب سے گزرتے ہوئے نیوہورائزن کے سگنلز ہم تک 6 گھنٹے بعد پہنچیں گے، اس سے ملنے والے ڈیٹا کو ایک یا دو دن تک منظر عام پہ لایا جائےگا…. یہ flyby اب تک کا سب سے مشکل flyby ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم الٹیما تھیولی کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے! اس کے متعلق جو کچھ بھی کیا جارہا ہے ایک اندازہ ہے ہمیں حساب کتاب کے ذریعے معلوم ہے کہ الٹیما تھیولی اس وقت اس مقام پہ موجود ہوگا،یہ ایسا ہی ہے جیسے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر کسی ریموٹ کے ذریعے کسی گاڑی کو صحرا میں کنڑول کیا جائے اور اس دوران قریب موجود کسی پتھر کے نزدیک سے گزرا جائے، اس مشن کی کامیابی میں ایک ایک سیکنڈ اہمیت کا حامل ہوگا، اگر یہ مشن کامیاب ہوجاتا ہےتوہمیں نظام شمسی کے متعلق اہم معلومات مل سکتی ہیں، یہ لمحہ یقیناً انسانیت کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھے گا، جب انسان نے خود سے اربوں کلومیٹر دور سیارچے کو قریب سے چھُوا… آئیں مل کر ان تاریخی لمحات سے لُطف اندوزہوں ،ہم بہت اہم صدی میں جی رہے ہیں یہ وہ صدی ہے جب انسان اپنی باقیات کائنات میں چھوڑے جارہا ہے، ہم نئے سال کے موقع پر نئے عہد میں داخل تو ہو ہی رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ نئے جہاں میں بھی داخل ہونے جارہے ہیں ایک ایسا جہاں جدھر ہم 4.5 ارب سال ماضی میں کھو سکیں گے… اپنے نظام شمسی کے بچپنے میں لوٹ سکیں گے….. آئیں ملکر الٹیما تھیولی کو قریب سے سلام کریں، ہوسکتا ہے الٹیما تھیولی جواب بھی دے اور "گپ شپ" میں ہمیں بہت سے قیمتی راز بھی بتا دے….اس مشن کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن یہ طے ہے یہ تاریخی لمحات نسل انسانی کے مستقبل کا تعین کرنے والے ہیں!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...