آج سے تین چار دھائیاں پہلے عوام اپنے پیاروں کی شادی بیاہ کیلئے نئے نکور کرنسی نوٹ کی ڈیمانڈ کیا کرتے تھے جوکہ بینکوں سے کم اور شادی بیاہ کی سجاوٹ والوں کی دکانوں سے ہاروں اور گٹھیوں کی صورت میں اضافی رقم ادا کر کے باآسانی مل جایا کرتی تھیں جوکہ روایت آج بھی چلی آرہی ہے اور نہ جانے ہماری عوام کیوں یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ اگر ہم نئے کرنسی نوٹ دلہے پر نچھاور کئے بغیر دلہن کی رُخصتی نہیں ہوگی۔ عوام کا یہ جنون آہستہ آہستہ نہ صرف شادی بیاہوں سے نکل کر مختلف خوشی کے مواقعوں تک پھیل گیاہے بلکہ کسی کے ہاں محفلِ نعت خوانی ہے وہ بھی نئے کرنسی نوٹ نچھاور کئے بغیر اور قائدِ اعظم کی تصویر والے نوٹوں کی تذلیل کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے ہاں خوشی کی خاص محفل کا اہتمام ہو تو بھی بانی پاکستان کی تصویر کو گھنگھروں والے قدموں کے نیچے ذلیل کئے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے مذہبی تہوار یعنی عیدِ الاضحی اور عید الفطر بھی نئے کرنسی کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ اور اس نئے کرنسے کے حصول کے لیے بیچاری عوام اضافی رقم دے کر نئے گٹھیوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنے لیے کوئی نقصان نہیں سمجھتی بلکہ اپنے لیے فخر کی بات سمجھتی ہے۔ حالانکہ کرنسی تو کرنسی ہے چاہے وہ نئی شکل کی صورت میں ہو چاہے وہ چلی ہوئی شکل میں ہو۔ آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ نچھاور کئے جانے والے نوٹ کسی لوٹنے والے نے واپس کر دیئے ہوں کہ پرانے نوٹ ہیں میں یہ نہیں اُٹھائوں گا۔ کرنسی تو کرنسی ہے ، فرق صرف کڑک اور چلے ہوئے نوٹوں کا ہے اور ہماری عوام ان کے حصول کے لیے بہت کریزی ہے۔ نئے نوٹوں کی سپلائی سٹیٹ بینک آف پاکستان جاری کرتا ہے جوکہ اس کے سپیشل کائونٹر سے بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ وہ ملک کے مختلف بینکوں کے ہیڈ آفس میں بھی بھجواتا ہے اور بینکوں کے ہیڈ آفس والے اپنی اپنی ذیلی شاخوں کو فراہم کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی مدتوں سے چلا آرہا تھا اور اس طرح نئے کرنسی نوٹ عوام تک کم ہی پہنچتے تھے اور ہاروں کی دکانوں پر بینکوں سے زیادہ تعداد پائی جا تی تھی۔ وہ نئے کرنسی نوٹ ہاروں کی دکانوں تک کیسے پہنچتے تھے وہ اس کا ذکر میں یہاں نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ آپ خود ماشااللہ سمجھ دار ہیں۔
لہٰذا پچھلے چند سالوں سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئے کرنسی نوٹ عوام تک پہنچانے کے لیے ایک نئی SMSسروس متعارف کروائی ہے جوکہ صرف اور صرف عید الفطر کے خوشی کے موقع پر عوام کو دی جاتی ہے۔ تاکہ اس سے کرپشن میں کمی آئے اور عام عوام تک نئے کرنسی نوٹ بآسانی پہنچ سکیں۔ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان نے خاص خامی نمبر پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بمعہ مخصوص کردہ بینک برانچ کوڈ لکھ کر بھیجنے پر اسی نمبر سے تصدیقی جواب موصول ہوتا ہے کہ اس جوابی کوڈ کو بمعہ شناختی کارڈ دیکھ کر عام شہری اٹھارہ ہزار تک نئی کرنسی لے سکتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس سال سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کی 1700برانچوں جوکہ پورے پاکستان کے 142شہروں میں نئی کرنسی کا اسٹاک فراہم کیا ہے جو کہ پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنا پر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اور اسی SMSسروس نے عوام کو بکنگ فل ہونے کا انکاری پیغام اسی سروس کے شروع ہونے کے پہلے دو تین روز میں ہی دینا شروع کر دیئے تھے اور اس سروس میں بھی بد قسمتی سے مخصوص ٹولہ سرگرم ہوکر زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ سمیٹنے میں مصروفِ عمل ہے تاکہ وہ عید کے موقع پر اور بعد میں شادیوں، میلادوں کے سیزن میں اس کرنسی کو بلیک کرکے عوام سے اضافی رقم کما سکیں اور عوام بھی اس قدر نئی کرنسی کے حصول کے لیے جذباتی ہے کہ ایک ہزار کی دس روپے والی گٹھی کے بدلے تین سو روپے بلیک اضافی رقم دے کر ان بلیک میلروں سے خریدنے میں اپنے لئے فخر کی بات محسوس کرتی ہے اور اس قسم کے لین دین نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے کرپشن میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
میںگورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے التماس کرتاہوںکہ اس کافوری نوٹس لیںتاکہ پاکستان کے کمرشل بینکوں کو مسلسل نئی کرنسی نوٹ بشمول نئی کرنسی چھاپنے کی لاگت سمیت فراہم کرے اور بینکوں سے نئی کرنسی کی رقم وصول کر کے ان کو ہدایات دیں کہ کمرشل بینکوں (ہر شہر میں) کی مخصوص شاخیں اس کرنسی کو عوام تک چارجز کے ساتھ فراہم کرے تاکہ کمرشل بینکوں اور بذاتِ خود سٹیٹ بینک آف پاکستان کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو سکے اور عام عوام کی کمائی کرپشن کی نظر ہونے کی بجائے سرکاری کھاتے میں جمع ہواور باعزت طریقے سے نئی کرنسی کے عوض اوپر چند چارجز ادا کر کے عزت کے ساتھ بینکوں سے نئی کرنسی حاصل کر سکیں۔ اس طرح کمرشل بینکوں کا سٹاف بھی اپنی عزتِ نفس بھی بحال رکھ سکے گا اور عوام کو بھی بآسانی نئی کرنسی مل سکے گی۔سرکاری اور کمرشل بینکوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور کرنسی بلیک میلروں کے پاس جانے سے بھی بچ جائے گی اور میں عوام سے بھی اُمید ہے کہ وہ خوشی خوشی چند اضافی چارجز ادا کر کے بینکوں سے نئی کرنسی کے حصول کو سراہیں گے اور اپنی حلال کی کمائی کو بہتر طریقے سے استعمال کرسکیں گے۔
“