کورونا جب عالم طفلی میں تھا تولوگ مذاق تصور کررہے تھے ۔اب جوانی کی دہلیز پر ہے تواس نے پورے عالم کااستہزا بنا کے رکھا ہے۔آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور دنیا کے عظیم تخلیق کار اور سائنس داں اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے آرہے ہیں ۔ یہ وبا توسب کے لیے وبال جان بن کر آئی ہے، اس لیے سبھی پریشان ہیں ۔ نو ملین پر مشتمل مقبوضہ اسرائیل میں حالات کچھ زیادہ ہی خراب نظر آرہے ہیں۔ سال رواں ، ماہ فروری کی ۲۱؍ تاریخ کو پہلا مریض سامنے آیا ۔ اس کے بعد حالات بدسے بدتر ہوتےآرہےہیں ۔ وقفہ وقفہ سے حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے احتیاطی تدایبر بھی اپنائی ۔ سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک وغیرہ جیسی احتیاطی دوا کو لازمی قراردیا۔لاک ڈاؤن بھی لگایا گیالیکن ان سب کے باوجوداب تک وہاں مریضوں کی تعدادمیں روزانہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت(۱۰؍اگست)۸۳۰۰۲ فعال کیسز ،۵۷۵۳۳ صحت یافتہ اور۶۰۰ کی موت ہوچکی ہے۔ روزانہ دوہزار کا اوسط معیاربتایاجارہا ہے۔
نوے لاکھ کی آبادی کے لیے کورونا کا پھیلاؤ بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہےجس کے باعث یہ چھوٹا سا ملک غربت کی نچلی سطح پر آپہونچا ہے ۔اس لیے وہاں کے عوام ملکی انتظامیہ سے شدید ناراض ہیں اور احتجاجی صورت میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہےہیں۔پچھلے چند ہفتوں سے حالات کچھ زیادہ ہی مکدرہوچکے ہیں ۔آٹھ اگست کا ہفتگی احتجاج اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس سے قبل ایک اگست کی شب میں بھی احتجا ہوا تھا۔یہ احتجاج چند دنوں کے فاصلہ سے پرامن احتجاج تسلیم کیا جارہاہے ۔ماہ رواں کی آٹھویں تاریخ کو رات دو بجے یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف ان کے رہائش گاہ کے سامنے ہزاروں لوگ اکٹھا ہوئے ۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی تعداد پندرہ ہزار کے قریب تھی۔مظاہرین سیاہ اور اسرائیلی پرچم لیے آئے تھے ۔پلے کارڈ پر بنجمن نتن یاہو کے خلاف مذمتی کلمات تحریر کئے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا’کرائم منسٹر‘ اور’نتن یاہو استعفیٰ دو ‘لکھا ہواتھا۔ان کا مطالبہ وزیر اعظم کا استعفیٰ تھا۔ وزیر اعظم کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے نتن یاہوکے کرپشن اور فراڈ کا حوالہ دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر اعظم کو عدالت سے صفائی نہ مل جائے یہ ملکی نظام سنبھالنے کے لائق نہیں ۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ برس ۲۱؍ نومبر کو صیہونی عدالت نے مالی بدعنوانیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت ملک کے وزیر اعظم نتن یاہوپر باضابطہ فرد جرم عاید کردیا تھااور ا س وقت کورونا کی وجہ سے ملکی بدعنوانیاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ اس لیے عوام مجبوری ہوئے کہ آوازبلند کی جائے ۔یہ ایک پرامن احتجاج تھا جسے پولیس نےپرتشدد بناکے مظاہرین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے علاوہ تل ابیب میں ساحل سمندر پر واقع وزیر اعظم ہاؤس کے باہر بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔ ساتھ ہی ملک کے مختلف علاقوں اورچوراہوں پر احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن سب سے بڑی تعداد کا اجتماع یروشلم میں بتایا گیا۔
یہ احتجاجات دراصل دوبات کی جانب واضح اشارہ کررہے ہیں ۔ عوام کی شدید ناراضگی’ نتن یاہو‘ کا بدعنوان اور مجرم ہونا ہے۔ نتن یاہو سب سے زیادہ عرصہ سے ملکی انتظام سنبھالنے والے ورزیر اعظم تسلیم کئے جائے ہیںمگر جب ان کی بدعنوانی ثابت ہوچکی تو ملک کے عوام کا رویہ بد ل گیا اور کورونا کی آمد نےاس نفرت کو مزید تقویت پہونچادی۔چوں کہ کورونا کے سلسلے میں وزیر اعظم کی واضح ناکامی نے ملک کی کمر توڑ دی ہے ۔ اس وقت شرح غربت ۲۰؍ فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔ لوگ اپنے پیٹ بھرنے سے معذور ہورہے ہیں ، اس لیے انہوں نے ملکی نظام میں سدھار لانے کے لیے بنجمن نتن یاہو کے استعفیٰ کی مانگ کی ہے۔
۲۰۱۱ ء کے بعد سے اب تک کایہ سب سے بڑی احتجاج اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اب ملکی حالت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ عوام الناس کو اپنی ضروریات فراہم کرنے کا سامان نہیں حاصل ہورہا ہے۔ انہیں ایسے وزیر اعظم کی ضرورت نہیں ہے جو ملک کا مال لوٹ گھسوٹ کھائے اور عوام النا س اپنا پیٹ پالنے سے بھی عاجز رہیں۔ اس لیے جمہوری حکومت میں اپنا اختیار ثابت کرنا بہر حال ضروری ہوچکا تھا۔ ماہرین کی مانیں تو مزید احتجاجات متوقع ہیں۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا…؟لیکن وزیر اعظم کے سر پر ایک کالی گھٹا چھائی نظر آرہی ہے۔