پہلا منظر
دربار سجا ہوا ہے۔ ۔وزراء موجودہ حالات پر مباحثہ کیلئے تشریف فرما ہیں۔
بادشاہ سلامت گویا ہوئے۔ " دنیا کے سارے ممالک میں کرونا وائرس نے قہر برپا کیا ہوا ہے۔ بتاؤ ٍ ہم کیا تدبیر اختیار کریں کہ ملک کو اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رکھا جا سکے؟
ایک بعد ابک کئ تدبیریں سامنے آئیں لیکن بادشاہ سلامت مطمئن نظر نہ آئے۔
" مترو تم اگر کہو تو ایک تدبیر ہے میرے پاسٍ" ۔ ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ بادشاہ سلامت نے کہا
سارے وزراء بیک زبان بول اٹھے " ضرور بتائیں۔ ہم سن رہے ہیں "
" مترو کریک ڈاؤن لاک ڈاؤن کیساتھ"
کچھ دیر کیلئے ہال میں خاموشی چھا گئ۔ سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ انہوں نے لاک ڈاؤن تو سنا تھا پر یہ کریک ڈااؤن لاک ڈاؤن کیساتھ ٍ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ آخر ایک وزیر ( جو بادشاہ کا خاص مصاحب تھا )نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا " یہ کریک ڈاؤن لاک ڈاؤن کیساتھ کیا ہوتا ہے ؟"
باشاہ نے فرمایا " نہیں سمجھے نا۔ مترو یہ لاک ڈاؤن سے بڑی چیز ہے جسے دنیا کہ کسی دیش نے بھی لاگو نہیں کیا لیکن ہم لاگو کریں گے "
"لاک ڈاؤن کریک ڈاؤن کے ساتھ کا مطلب ہے فوری قدم رکاوٹوں کی طرف۔ ابھی کتنے بجنے والے ہیں؟ آٹھ . ہاں اب سے چار گھنٹے کے بعد لاک ڈاؤن کریک ڈاؤنکیساتھ سارے ملک میں لاگو ہو جائیگا۔ جو جہاں ہے وہیں رہے گا۔ سواریاں بند ٍ دکانیں بند ٍ ہوٹل و مال بند۔ آدمیوں کا گھر سے نکلنا بند. ۔ کچھ بھی نہیں کھلے گا۔ سرکار تمیں ضرورتو کی چیز مہیا کرے گی۔ دیکھا نہیں تم لوگوں نے ٍ اس سے پہلے ایک ریاست میں ہم نے کیسا کریک ڈاؤن نافذ کیا ہے. سڑکوں پر صرف ہماری بہادر پولس ہوگی اور اسپتالوں میں ڈاکٹری عملہ۔ اس طرح سے کرونا کا حملہ بھی بند"
" متروٍ کہو کیسی ہے ہماری تدبیر؟
ایک وزیر نے اپنی جگہ سے ہاتھ اٹھایا۔ بادشاہ سلامت کہ چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے اور انہوں نے اسے درشت لہجے میں مخاطب ہو کر پوچھا۔ " کہو کیا کہنا چاہتے ہو."
سرکار ٍ میں تو بس یہ پوچھ رہا تھا کہ حکومت پورے دیش کے لوگوں کے گھروں کی ضرورتوں کا خیال بھلا کیسے کر سکے گی؟
" مورکھٍ تم ہماری پلاننگ نہیں جانتے نا۔ چپ بیٹھو سب ہو جائیگا۔"
دوسرے وزراء بیچارے کیا کہتے۔ انہیں تو جی حضوری کی ہی عادت ڈالی گئ تھی۔ کون اپنی کرسی کے جانے کا خطرہ مول لیتا؟خاموش ہو رہے۔ بادشاہ سلامت نے گھزی دیکھی اور 21 دنوں کے لاک ڈاؤن کریک ڈاؤن کیساتھ کے آرڈر پر دستخط فرما کر اسے جاری کرنے کا نادر شاہی حکم دے ڈالا۔
دوسرا منظر
لاک ڈاؤن کریک ڈاؤن کے ساتھ ختم ہونے کو ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ بادشاہ سلامت کا دربار پھر ایکبار سجا تھا۔ وزراء کے علاوہ کئ محکموں کے اعلی' افسران بھی موجود تھے۔
کچھ ہی دیر میں بادشاہ سلامت آن موجود ہوئے۔ بیٹھتے ہی انھوں نے سوال داغا " کیا تم دیش بھر میں لاک ڈاؤن کریک ڈاؤن کیساتھ کے بعد ہوئ تبدیلی کی رپورٹ لے آئے ؟
وہ جو شاہ کا خاص مصاحب تھاٍ اپنی جگہ سے اٹھا اور اجازت چاہی کہ حضور کو ناگوار نہ گزرے تو تمام رپورٹوں کو یکجا کر میں نے جو رپورٹ تیارکی ہے۔ وہ آپ کے روبرو کروں۔
جناب والا 14 دنوں کے بعد دیش بھر میں
کورنا وائرس سے 250 اموات
ہوئیں
ٹی بی کے مرض سے ملک میں 500 موتیں
کینسر کے مرض سے956اموات واقع ہوئیں
ملیریا ٹائیفائیڈ اور بخار سے 713 اموات
دیگر بیماریوں سے 1000 سے زائد اموات
اس کے علاوہ 2000 سے زائد افراد بھکمری کا شکار ہو کر مرے ہیں اور_ اور ___
اچانک بادشاہ سلامت کی تیز آواز ہال میں ابھری " یہ تم کیا بیان کر رہے ہو؟ بس کرو۔
یہاں کوئ میڈیا والا تو نہیں ہے؟
مصاحب نے فورا" جواب دیا ۔سرکار یہی آج کا سچ ہے۔ رہ گئ میڈیا تو وہ ہماری گود لی ہوئ ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ "
بادشاہ سلامت نے اطمینان کی سانس لی اور کہا " وہ روم کا بادشاہ کون تھا جس نے بانسری بجائ تھی اور آج تک اس کا وہ کارنامہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ ؤ آآج ہی جنتا سے کہا جائے کہ روم کے بادشاہ نیرو کی طرح کل ہم اور دیش کی پوری جنتا رات 8 بجے مل کر بانسری بجائیں گے اور کرونا وائرس سے مرنے والوں کو شردھانجلی دیں گے
چلئے سبھا ختم کی جاتی ہے۔ گڈ بائ