نیکی کسی کی میراث نہیں ہے ۔ (آپ بیتی)
میں اور میری اہلیہ ۲۰۱۳میں آسٹریلیا سے فریضہِ حج ادا کرنے کے لئے گئے۔ اس غرض سے ہمیں پاسپورٹ، تصاویر، حفاظتی ٹیکے لگوانے کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ، نکاح نامے کی تصدیق اور کسی امام مسجد سے مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں ایک ہندو لیڈی ڈاکٹر، ایک عیسائی پولیس آفیسر اور ایک امام مسجد کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
ڈاکٹر شیلا برسوں سے ہماری فیملی ڈاکٹر ہے۔ڈاکٹر شیلا اور اس کے خاوند ڈاکٹر ستیش بھٹ کی سرجری ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ڈاکٹر شیلا نے سعودی سفارت خانے کی ہدایت کے مطابق حفاظتی ٹیکے لگائے اور سرٹیفیکیٹ دے دیا ۔ اس کے ساتھ اس نے احتیاطََ سعودی عرب میں قیام کے دوران مختلف ممکنہ بیماریوں کے نسخے بھی لکھ دیے۔ پھر اس نے کافی وقت صرف کرکے ہم دونوں کے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنائے جس میں درج تھا کہ ہمیں ان دواؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایئر پورٹ پر ان دواؤں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب ہمارے پاس اس سرٹیفیکیٹ کی صورت میں موجود ہو۔ اس طرح اس نے ہمیں کسی ممکنہ پریشانی سے بچانے کا پورا انتظام کیا۔ان دواؤں میں عام استعمال کی ادویات جیسے قے روکنے کی دوا، الرجی کی دوا، ایڑھیاں پھٹنے کی دوا، نزلہ زکام اور گلہ خراب ہونے کی دوا شامل تھیں ۔
آسٹریلیا میں ڈاکٹر کسی بھی دوا کا نسخہ لکھ کر دینے میں بہت احتیاط کرتے ہیں کیونکہ ان کی فیس حکومت ادا کرتی ہے۔ دواوٗں کی قیمت میں بھی حکومت کا حصہ ہوتا ہے ۔ یعنی مریض کو کو عموماََ دوا کی پوری قیمت نہیں دینی پڑتی ہے۔ اس میں سے کچھ حصہ حکومت ادا کرتی ہے ۔ اس لیے ڈاکٹر بغیرضرورت اور بغیربیماری کے کبھی دوا لکھ کر نہیں دیتے۔ عام حالات میں ڈاکٹر شیلا بھی یہی کرتی تھی ۔ ہمیں اتنی ساری دوائیں لکھ کر دینے کی وجہ اس نے یہ بتائی ’’ دورانِ حج وہاں بہت خلقت جمع ہوتی ہے۔ مختلف بیماریوں کے جراثیم عام ہوتے ہیں۔ اس سے بہت سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ تقریباً ہر آدمی پر یہ بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ دوائیں ہو ں گی اور وقت پر استعمال کریں گے تو ان امراض سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا‘‘
ڈاکٹر شیلا نے درست کہا تھا سفرِ حج میں اور قیام حرمین شریفین کے دوران میں ہمیں ان دواؤں کی بار بار ضرورت پڑی اوریہ دوائیں ہمارے بہت کام آئیں۔ اگر یہ دوائیں ہمارے پاس نہ ہوتیں تو یقیناًہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ہم اپنی اس ڈاکٹر کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔ خدا اس کو سکون اور شانتی دے کیونکہ خدا تو سب کا ہے ۔
نکاح نامے کی تصدیق کی باری آئی تو اس کی شرط یہ تھی کہ کوئی پولیس آفیسر ہی اس کی تصدیق کر سکتا ہے ۔ یہ شرط معمول سے ہٹ کر تھی کیونکہ عام طور پر آسٹریلیا میں دستاویزات کی تصدیقJustice of Peace جسے عرف عام میں جے پی کہا جاتا ہے، کرتے ہیں۔
یہ عام شہریوں میں سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ میرے دوستوں میں سے بھی چند ایک جے پی ہیں۔ ہمیں پاکستانی جے پی کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی اُردو دستاویز کی تصدیق کرانی پڑ جائے۔ یہ جے پی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً کیمسٹ، پوسٹ آفس کا کلرک، بنک اسٹاف، ٹریول ایجنٹ یا دُکاندار یہ ذمہ داری لیتے ہیں ۔ تا کہ لوگ آسانی سے ان تک پہنچ کر کاغذات کی تصدیق کروا سکیں۔
میرا نکاح نامہ اُردو میں ہے۔ ماہ وسال کی گردش کے ساتھ دولہا اور دلہن کی طرح نکاح نامہ بھی عمر رسیدہ اور خستہ حال ہو چکا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی رنگت اور شکل وشباہت کھو کر زردی مائل اور گھسے پٹے کاغذ میں بدل چکا ہے۔
اگرچہ میں نے اس پر میک اپ کی تہیں( پلاسٹک کوٹنگ) چڑھا کر اور زمانے کے گرم وسرد سے محفوظ رکھنے کی اپنی سی کوشش کرکے اس کی چمک دمک برقرار رکھنا چاہی لیکن عمررسیدہ مرد اور بوسیدہ کاغذ کی کڑک کب قائم رہتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی اُڑی اُڑی رنگت، پیلاہٹ اور مدہم الفاظ کی وجہ سے تقریباً ناقابل فہم ہو چکا ہے ۔ برسوں پہلے جب میں آسٹریلیا آ رہا تھا تو اسلام آباد سے میں نے اس کا انگریزی ترجمہ کروایا تھاوہ اب کام آیا۔ لیکن تصدیق بہرحال اصلی نکاح نامے کی ہو ناتھی۔ یہ اصل نکاح نامہ اور اس کا انگریزی ترجمہ لے کر میں مقامی پولیس اسٹیشن گیا۔ کاؤنٹر پر موجود پولیس آفیسر کو میں نے نکاح نامہ، اس کا انگریزی ترجمہ اور سعودی سفارت خانے کا ویزہ فارم دکھایا تو وہ تینوں کاغذات لے کر دفتر کے اندر چلا گیا۔ تقریباً پانچ چھ منٹ کے بعد وہ واپس آیا تو اس کا منہ ایسے لٹکا ہوا تھا جیسے رس بھرا آم درخت سے گرنے والا ہو۔ اس نے جب بات کی تو لگا کہ بس رو ہی دے گا’’ مجھے افسوس ہے میں اس دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا ہے۔ میں نے انگریزی ترجمہ دیکھا ہے لیکن اس سے اس لیے مدد نہیں ملتی کہ میں نے اردو نکاح نامے کی تصدیق کرناہے جسے میں پڑھ نہیں سکتا۔ اس لیے میں معذرت خواہ ہوں‘‘
اس پولیس آفیسر کے انکار پر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کرمجھے غصے سے زیادہ اس پر ترس آیا۔ اس کے پریشان حال چہرے کو دیکھ کر میں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا ’’کوئی بات نہیں آپ کاغذات واپس کر دیں میں معلوم کر وں گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے‘‘
اس نے حیران ہو کر کہا ’’آپ یہ کاغذات واپس کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟ ‘‘
میں نے کہا’’ آپ نے تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے تو میں انہیں یہاں چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا‘‘
وہ بولا ’’لیکن ویزے کی شرائط کے مطابق اس ڈاکومنٹ کی تصدیق صرف پولیس کر سکتی ہے۔ ورنہ آپ کو ویزا نہیں ملے گا‘‘
’’میں جانتا ہوں آفیسر لیکن آپ تصدیق کرنے سے انکار کر چکے ہیں ‘‘ میں نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
پولیس آفیسر جس کا نام رابرٹ تھا اسی معذرت خواہانہ لہجے میں بولا ’’ میں نے تصدیق سے انکار اس لیے کیا ہے کہ مجھے اُردو نہیں آتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل پولیس کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو اگر بہت زیادہ جلدی نہیں ہے تو یہ کاغذات ہمیں دے جائیں۔ ہم کسی مستند اُردو مترجم کو بلوائیں گے۔ اس سے پڑھوانے کے بعد اس کی تصدیق کردیں گے‘‘
’’ اس میں کتنے دن لگیں گے؟ ‘‘میں نے دریافت کیا۔
’’زیادہ سے زیادہ دو دن ! اگر آج مترجم نہ مل سکا تو کل تک ضرور بندوبست ہو جائے گا۔ اس کی تصدیق کے بعد میں اپنے دستخط کرکے اورمہرلگاکر یہ کاغذات آپ کے گھرپہنچادوں گا ‘‘
’’ اس کی ضرورت نہیں میں آپ کو فون نمبر دے دیتا ہوں۔ میرا دفتر یہاں قریب ہی ہے۔ کاغذات کی تصدیق ہو جائے تو مجھے فون کرلیں میں آ کر لے جاؤں گا ‘‘ میں نے کہا
رابرٹ نے کہا’’بالکل ٹھیک ہے۔ کل تک آپ کو کاغذات مل جائیں گے۔ آپ کو جو دشواری ہوئی ہے اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پڑھے بغیر ہم کسی دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتے‘‘
دوسرے دن صبح دس بجے کے لگ بھگ رابرٹ کافون آ گیا۔ اس نے بتایاکہ میرے کاغذات کی تصدیق ہو چکی ہے میں جب چاہوں آ کر انہیں لے جا سکتا ہوں۔ ایک گھنٹے بعدمیں کاغذات اٹھانے پولیس اسٹیشن گیا تو ڈیوٹی پرموجود آفیسرنے اپنے انچارج کو بلا لیا۔ انچارج نے بھی مجھ سے معذرت کی کہ ہم کل کاغذات کی تصدیق نہ کر سکے ۔اس نے بھی وضاحت کی اس کی وجہ کیا تھی۔ مجھے علم تھا کہ مترجم ہر کام کی فیس لیتے ہیں۔ میں نے جب فیس کی بابت پوچھا تو انچارج نے کہا’’ ہاں مترجم کی فیس ہوتی ہے جو پولیس اپنے فنڈ سے ادا کرے گی ۔ کیونکہ اس کی ضرورت ہمیں تھی لہٰذا اس کی فیس بھی ہم ہی ادا کریں گے‘‘
میں شکریہ ادا کرکے جانے لگا تو انچارج نے ہولے سے کہا
’’Good Luck and have a safe trip of Mecca ‘‘
میں نے اس کا دوبارہ شکریہ ادا کیا اور اس نظام کا مزید معترف ہو گیا جس میں سرکاری ملازم عوام کے آقا نہیں بلکہ ان کے خادم ہوتے ہیں۔
ویزے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ کسی امام مسجد سے سرٹیفیکیٹ لیا جائے کہ درخواست دہندہ مسلمان ہے۔ سڈنی کے تقریباً سبھی پاکستانی آئمہ مساجد سے میری جان پہچان ہے۔ چند ایک سے دوستی بھی ہے۔ ان میں سے ایک مولانا سے خاصی بے تکلفی ہے۔ حالانکہ مجھے ان سے اختلاف رائے بھی رہتاہے لیکن ہمارے باہمی تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ اختلاف کی وجہ کوئی ذاتی عناد نہیں ہے۔ دراصل مولانا صاحب کا ایک خاص مدرسے اور خاص سوچ سے تعلق ہے۔ وہ اپنی تقریروں اور پروگراموں میں اس خاص مدرسے کی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پروگراموں میں اگر کوئی مختلف سوچ کا آدمی شرکت کرے تو اسے کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ مولانا کا سارا زور اپنے فرقے پر ہوتا ہے۔ میں نے انہیں کئی دفعہ سمجھانے کی کوشش کی کہ فرقہ بندی کے بجائے دین کی بنیادی تعلیمات اور حقوق وفرائض کو زیربحث رکھنا چاہیے۔ فرقہ ورانہ مسائل چھیڑ کر خواہ مخواہ نوجوانوں کا ذہن پراگندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال مولانا صاحب اسی ڈگر پر قائم ہیں۔ میں دوستی اور محبت کے مارے گاہے گاہے ان کے پروگراموں میں شرکت کر لیتا ہوں لیکن پابندی سے نہیں جاتا ۔ ہم نے انہی مولانا صاحب سے رابطہ کیا اور سعودی سفارت خانے کے مطلوبہ سرٹیفیکیٹ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا ’’ یہ سرٹیفیکیٹ کوئی بھی امام مسجد دے سکتا ہے جو آپ کو جانتا ہو ‘‘
’’کیا آپ بھی یہ سرٹیفیکیٹ دینے کے مجاز ہیں؟ ‘‘ میں نے پوچھا
کہنے لگے ’’جی ہاں میں بھی یہ سرٹیفیکیٹ دے سکتا ہوں لیکن آپ اپنے علاقے کے مولانا سے ہی لے لیں تو بہتر ہے‘‘
’’اس کی کوئی وجہ ہے؟ ‘‘ میں نے دریافت کیا۔دراصل ہمارے علاقے کی مسجد زیرِ مرمت اور بند تھی ۔
مولانا صاحب فرمانے لگے ’’ اس کی وجہ یہ ہے میں اپنے گروپ کے لوگوں کو یہ سرٹیفیکیٹ دیتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں اور مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ پھر بھی آپ کو اگر کوئی مسئلہ درپیش ۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
’’میں سمجھ گیا ہوں اور انشاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ‘‘ میں نے مولانا کو جواب دیا اور فون بند کر دیا۔
اب میں نے فون اٹھایا اور سعودی سفارت خانے سے ملایا۔سلام دعا کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ مطلوبہ سرٹیفیکیٹ دینے کا مجاز کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کسی بھی اسلامک سینٹر، مسجد یا مصلیٰ کے امام سے یہ سرٹیفیکیٹ لے سکتے ہیں یا پھر آپ یہاں قونصلیٹ آفس آ جائیں۔ پاسپورٹ ساتھ لے آئیں۔ ہمارا عملہ یہ سرٹیفیکیٹ دے دے گا۔ آپ کے علاقے میں اگر مسجد نہیں ہے تو لکھ کر بھیج دیں ہم اس کے بغیر بھی ویز ا جاری کر دیں گے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
سعودی سفارت خانے نے جن لوگوں کی فہرست بھیجی اس میں ہمارے علاقے کی زیرِتعمیر مسجد کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے میرے دوست ضیاء الحق کا نام بھی شامل تھا ۔میں نے اُن سے رابطہ کیا تو انہوں نے بلاتاخیر سرٹیفیکیٹ بنا کر اور مہر لگا کر میرے حوالے کر دیا۔
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔