رات کو ذرا دیر سے آپ اپنے دوست کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کا بھائی صوفے پر لیٹا تھا۔ کوئی آواز نہیں، آپ کی طرف دھیان نہیں، سر ایک طرف ڈھلکا ہوا، جسم ساکن۔ آپ نے دیکھتے ہی دوست سے کہا، “ششش، آہستہ بولو۔ یہ جاگ نہ جائے”۔ لیکن آپ کو کیسے پتا ہے؟ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دیکھتے ساتھ ہی آپ نے یہ کیسے بغیر شک و شبہے کے جان لیا کہ یہ وہ سو رہا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا یہ اندازہ ٹھیک تھا اور ہو سکتا ہے کہ اس دوران آپ نے غلطی سے کچھ گرا کر اسے اٹھا بھی دیا ہو جس سے یہ کنفرم ہو گیا ہو۔ وقت کے ساتھ ہم کچھ سگنل دیکھ کر بڑی اچھی طرح سے اس بات کا پتا لگا لیتے ہیں کہ کون سو رہا ہے۔ یہ اتنتنے قابلِ اعتبار سگنل ہیں کہ سائنسدان اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ نہ صرف انسان بلکہ دوسری انواع کے سونے کا پتا ان سگنلز سے لگ جاتا ہے۔
سونے کی پوزیشن۔ تقریباً تمام خشکی کے جانور ایک قسم کی پوزیشن اختیار کرتے ہیں جو افقی ہوتی ہے جیسے آپ کے بھائی کی صوفے پر تھی۔ پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ خاص طور پر پوسچرل مسل جو گریویٹی کے خلاف سیدھا رکھتے ہیں اور ہمیں فرش پر گرنے سے بچاتے ہیں۔ سوئے ہوئے جاندار کے نیچے جو بھی سطح ہو گی، وہ اس کے اوپر گرا ہوا لگے گا، جیسے آپ کے بھائی کا سر ڈھلکا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جاندار کوئی کمیونیکیشن نہیں کرے گا یا کوئی ریسپانس نہیں دکھائے گا۔ جیسا کہ آپ کے بھائی نے آپ کے اندر داخل ہونے کو نوٹ نہیں کیا۔ اور پھر وقت، جو چوبیس گھنٹے کے ایک ردھم پر چلتا ہے۔
رات کو دو بجے آپ کو یہ توقع ہو گی کہ تقریباً ہر کوئی اسی حالت میں ہو گا۔ اسی طرح زرافے کے چار گھنٹوں سے لے کر بھوری چمگادڑ کی انیس گھنٹوں کی روزانہ نیند تک ہر جاندار کے لئے اسی طرح کا ٹائم ٹیبل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ سے ایک مختلف سوال ۔ آپ کو خود اپنے بارے میں کیسے پتا لگتا ہے کہ آپ سوئے تھے؟ ہر روز، جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو آپ کو پتا ہوتا ہے کہ آپ رات بھر سوئے۔ یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ نیند اچھی آئی یا بری۔
یہاں پر کچھ یونیورسل انڈیکیٹر ہیں۔ اس دوران، آپ کا بیرونی دنیا سے راابطہ کٹ جاتا ہے۔ آپ کو اس دوران معلوم نہیں ہوتا کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے کان “سن” رہے ہوتے ہیں۔ آنکھوں کی پلکیں بند ہوتی ہیں لیکن یہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی آپ کے سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی حس کی ساتھ ہے۔ ان سے آنے والے سگنل دماغ تک پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک فرق یہاں پر آ چکا ہوتا ہے۔ حسیات کے سگنل کے ملاپ کے علاقے میں آ کر ان سگنلز کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔ یہاں پر ایک رکاوٹ کھڑی ہو جاتی ہے جو تھیلیمس کی سٹرکچر میں ہے جو ایک بیضوی اور لیموں سے چھوٹا آبجیکٹ ہے۔ یہ دماغ کے حسیاتی ادراک کا دروازہ ہے۔ یہاں پر طے ہوتا ہے کہ کس حسیاتی سگنل کو گزرنے کی اجازت دینی ہے۔ ایک اچھی نیند میں اس کو تالا لگ جاتا ہے اور دماغ میں بلیک آوٗٹ ہو جاتا ہے۔ جب دماغ اپنا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کر لے، تو یہ نیند کی حالت ہے۔
نیند کا دوسرا فیچر وقت کے ادراک میں ہونے والی عجیب اور متضاد تبدیلیاں ں ہیں۔ وقت کا شعوری ادراک ختم ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ ایک بس یا جہاز کے سفر کے دوران اگر سو گئے ہوں تو یہ بالکل علم نہیں ہوا ہو گا کہ کتنی دیر سوئے تھے۔ اٹھ کر گھڑی دیکھ کر اندازہ لگایا ہو گا، کیونکہ نیند میں وقت کوکو ٹریک کرنے کی یہ صلاحیت بھی بجھ چکی ہوتی ہے۔ اور وقت میں محسوس ہونے والا یہ خلا ہی آپ کو آگاہ کرتا ہے کہ درحقیقت آپ اس دوران سو رہے تھے۔
لیکن جہاں پر شعوری ذہن اس صلاحیت کو کھو دیتا ہے، وہاں پر غیرشعوری طور پر دماغ وقت کی حیران کن طور پر بالکل ٹھیک ٹھیک پیمائش کر رہا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یاد ہو کہ کسی وقت آپ نے کسی وجہ سے جلد اٹھنے کیلئے چھ بجے ککا الارم لگایا تھا اور اچانک جب ہڑبڑا کر آنکھ کھلی تو گھڑی دیکھنے پر پتا لگا تھا کہ چھ بجنے میں دو منٹ باقی تھے۔ بغیر کسی اور مدد کے، معجزاتی طور پر وقت کی یہ ٹریکنگ بہت ہی پریسیژن کے ساتھ دماغ میں سوتے وقت چل رہی ہوتی ہے۔ دماغ میں چلنے والے کئی اور پراسس کی طرح یہ بھی ایسا ہی حصہ ہے جہاں پر اس ایکوریٹ ٹائم رکھنے والے حصے کی شعوری رسائی نہیں۔ یہ صرف وقت پڑنے پر سطح پر ابھرتا ہے اور چھ بجنے میں دو منٹ پر جگا دیتا ہے۔
سوتے ہوئے وقت کی پیمائش کا ایک اور بڑا مختلف روپ خواب میں وقت ہے۔ خواب میں وقت کا ادراک بالکل مختلف ہوتا ہے اور عام طور پر یہ لمبا ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یاد ہو کہ آپ خواب کے دوران الارم پر اٹھے۔ الارم کو پانچ منٹ کے لئے موٗخر کیا کہ تھوڑی سی میٹھی نیند اور۔ اور پھر خوابِ دیکھنے لگے۔ پانچ منٹ بعد الارم پھر بول پڑا۔ لیکن آپ پ کو ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔ ان پانچ منٹ کے دوران خواب میں آپ کو لگا تھا کہ گھنٹہ بھر گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ۔ہ۔ نیند کا وہ حصہ جس میں خواب نہ ہو (نان رپیڈ آئی موومنٹ والا حص)، اس میں وقت ک کا ادراک بالکل نہیں ہوتا لیکن خواب والے حصے کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہوتا ہے اور یہ اصل وقت سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ یہ بالکل بھی ایکوریٹ نہیں ہوتا اور عام طور پر کھنچا ہوتا ہے۔
وقت کے اس طرح کھنچ جانے کی وجہ کا ہمیں ٹھیک طرح سے علم نہیں۔ حال میں چوہوں پر کئے جانے والے تجربے نے کچھ اشارے دئے ہیں۔ چوہوں کو بھول بھلیوں میں ٹرین کروایا گیا۔ جس طرح چوہا اس میں راستوں کو سیکھ رہا تھا، اس وقت اس کے دماغی خلیوں کی فائرنگ کے پیٹرن کو ریکارڈ کیا گیا۔ سائنسدان یہ ریکارڈنگ کرتے رہے۔ اس وقت بھی جب چوہا سو گیا تھا اور اس کی نیند کی مختلف حالتوں میں۔ ریپڈ آئی موومنٹ والی حالت کی سٹیج وہ ہے جب انسان خواب دیکھتے ہیں۔ اس دوران چوہے کے دماغ کے خلیوں کی فائرنگ ویسے ہو رہی تھی جیسے اس وقت جب وہ بھول بھلیاں سیکھ رہے تھے، جیسے وہ اسے دہرا رہا ہو۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی رفتار جاگتے وقت کی رفتار سے بہت کم تھی۔ یہ نصف اور ایک چوتھائی کے درمیان تھی۔ ابھی تک کی واحد وضاحت اس تجربے سے ہے کہ شاید اس عالم میں نیورل ٹائم یں ہونے والے اس ڈرامائی سست رفتاری کی وجہ سے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ خواب ک کا وقت گھڑی پر گزرتے وقت کے مقابلے میں سست پڑ گیا ہے۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر اس مضمون کو لکھنے والے کی نہیں ہے۔