’’بٹرفلائی ہاؤس‘‘ کا باغیچہ ہزاررنگ کے پھولوں اور تتلیوں سے جگمگارہاتھا۔چنبیلی، سوسن، چمپا، موتیا، گلاب، نیلوفر، ڈاہلیا اور جانے کتنی ہی قسم کے پھول تھے جو بٹرفلائی ہاؤس کے وسیع باغیچے میں یوں کھِلے تھے گویا دھوپ کے ساتھ سُورج سے آئے ہوں۔پچاس کے پیٹے کا ایک دبلاپتلا شخص کسی پودے پر جھکا شایدکچھ ڈھونڈرہاتھا۔
’’یہ میرے بابا ہیں۔میں اکثرسوچتی ہوں، میرے بابا اگر ’’لیپی ڈاپٹرسٹ‘‘ نہ ہوتے تو شاعرہوتے‘‘
ماریہ نے جیسے خودکلامی کی۔ راہیل ماریہ کی بات پر مسکرادیا ۔وہ ماریہ کے بابا پروفیسر سارنگ کو دلچسپی سے دیکھ رہاتھا۔
’’تمہارے بابا پروفیسر تھے نا؟ کسی یورپی ملک میں؟‘‘
’’نہیں! چائنہ میں۔ میرےبابا دنیا کے دی بیسٹ لیپی ڈاپٹرسٹ ہیں‘‘
راہیل نے زیرِ لب دہرایا، ’’لیپی ڈاپٹرسٹ‘‘۔ ماریہ راہیل کی طرف دیکھ کر مسکرادی۔
’’لیپی ڈاپٹرسٹ اُس ریسرچر کو کہتے ہیں جو تتلیوں پرتحقیق کرتاہے‘‘
’’ماریہ! کیا تم نے بیالوجی کی فیلڈ اِسی وجہ سے اختیار کی؟ میرا مطلب ہے کیا تم بھی تتلیوں پرتحقیق میں دلچسپی رکھتی ہو؟‘‘
’’راہیل! میں دنیا کو ایک تتلی کی نظرسے دیکھناچاہتی ہوں۔ میرا تھیسز ہی تتلیوں کے وِژن پر ہے۔میں جاننا چاہتی ہوں کہ مہکتے ہوئے خوشرنگ پھولوں کے بیچوں بیچ زندگی گزارنے والے اِن سرمستوں کو یہ دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے‘‘
راہیل ہنسنےلگا۔
’’تم خود کیا کسی تتلی سے کم ہو؟‘‘
ماریہ بھی ہنسنے لگی۔
’’تتلیوں کی طبعی عمر بہت کم ہوتی ہے۔یہ اس مختصر سے وقت میں اپنی پوری زندگی جیتی ہیں۔بچپن، جوانی، بڑھاپا۔ ہم انسان ساٹھ ستر سال کی زندگی پاتے ہیں جو پھر بھی ہمیں تھوڑی محسوس ہوتی ہے‘‘
اتنا کہہ کرماریہ رُک گئی۔پھر وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ آئی اور راہیل کے نزدیک آکر قدرے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہنے لگی،
’’راہیل! کیا تم جانتے ہو؟’’اینمل فلِکّر فیوژن فریکونسی (Animal Flicker Fusion Frequency)‘‘ کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘
راہیل نے نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ماریہ نے دوبارہ کہا،
’’ کوئی بھی جاندار ، کسی حرکت کرتی ہوئی شئےکو جتنے فریمز فی سیکنڈ کی رفتار سے دیکھ سکتاہے، اُسے فلِکّرفیوژن فریکوئنسی کہتے ہیں۔ایک فوٹان کیمرے سےہم فقط ایک سیکنڈ کی ایسی ویڈیو بناسکتےہیں جسے ٹی وی سکرین پر چلائیں تو دیکھنے میں کئی گھنٹے لگ جائیں۔فوٹان کیمرہ روشنی کی حرکت کا سلوموشن بھی ریکارڈ کرسکتاہے۔تتلیاں اپنی کمپاؤنڈ آنکھوں کی مدد سے فوٹان کیمرے جیسا کام لیتی ہیں۔یہ روشنی کی ویولینتھ کو 254 سے 600 نینومیٹرتک دیکھ سکتی ہیں۔ وہ اپنی مختصر سی زندگی کو بھی کتنا طویل سمجھتی ہونگی، ہم اندازہ نہیں لگاسکتے‘‘
**********
پروفیسر واقعی مرفوع القلم تھا۔ اب تو بیوی بچوں نے بھی اُسے معاف کردیاتھا۔صرف ماریہ ابھی تک باپ کو باپ سمجھتی تھی۔وہی پروفیسر کےساتھ جُتی رہتی۔وہ باپ کے کھانے پینے اور چائے پانی کا خیال بھی رکھتی اور سارا وقت باپ کے ساتھ لیبارٹری میں بھی گھسی رہتی۔پروفیسر کی لیبارٹری میں آدھے انچ کے پروں والی’’ پِگمی‘‘ سے لے کرایک فٹ سائز کے پروں والی ’’گِنی‘‘ نسل تک، ہرقسم کی تتلیاں تھیں۔پروفیسر کی لیبارٹری گھر کے باغیچے سمیت ، ایک برامدے اور ایک ہال پر مشتمل تھی۔ہال کی تمام کھڑکیوں میں شفاف شیشے لگےتھےجہاں سے پروفیسر باہر باغیچے میں اٹھکیلیاں کرتی تتلیوں کو دیکھتا اور خودکلامی کرنے لگتا،
’’آج سونیا سُست لگ رہی ہے۔ ڈیانا نظر نہیں آرہی؟اور شہمیر کیوں اس طرح جھُول جھُول کر اُڑرہاہے؟‘‘
وہ اپنی تتلیوں کو ہمیشہ ناموں سے پکارتاتھا۔ماریہ بھی اُن تمام تتلیوں کے ناموں سے واقف تھی۔ وہ بھی انہیں ناموں سے پکارتی لیکن ہربار جب کوئی شناساتتلی مرتی تو ماریہ ضرورروتی۔
دونوں باپ بیٹی گھنٹوں تتلیوں کی نسلوں اور اُن کے ڈین این اے پر باتیں کرتے رہتے۔وہ اب تک فلوراسینٹ رنگوں والی تتلیاں، روشنی خارج کرنے والی ، بال دار پروں والی ، میناکاری والی ، شاہی فرمان، شیلڈز، پیراشُوٹس، فوجی اور مذہبی تتلیوں جیسی بے شمار نسلیں خود بھی پیدا کرچکے تھے۔نئی نئی نسلوں کے نئے نئے نام رکھتے وقت پروفیسر اور ماریہ خوب بحث کرتے۔کبھی باپ ہارجاتا تو کبھی بیٹی۔مذہبی تتلیوں کانام رکھتے وقت، بحث پروفیسر جیت گیاتھا۔
ایک روز ماریہ یونیورسٹی سے لوٹی تو حسبِ معمول پروفیسر کوکھڑکی کے پاس خودکلامی کرتے پایا۔اس نے پروفیسر کے عقب میں پہنچ کر کھڑکی سے باہرجھانکا۔ سامنے’’لائی سِنی ڈائی‘‘ نسل کی چند اُودی اُودی تتلیاں ڈاہلیا کے گلابی گلابی پھولوں پر منڈلا رہی تھیں۔اِن تتلیوں کو دیکھ کرماریہ نے یکلخت خوشی سے چلّاتے ہوئے باپ سے پوچھا،
’’ہائے!بابا! وہ لُوسی ہے نا؟‘‘
’’ہاں! یہ لُوسی ہے۔ ابھی صرف پانچ یونٹ جگائے ہیں میں نے‘‘
’’اُف بابا! آپ نے میرے آنے سے پہلے انہیں کیوں جگایا؟ ہائے! سمیارگس پرہماراتجربہ کامیاب رہا، اِس کا مطلب ہے؟‘‘
’’ہاں میزارائن کی کلاس میں یہ ہمارا پہلا کامیاب تجربہ ہے۔ اتنا طویل ہائبرنیشن۔ میں سوچ بھی نہ سکتاتھا کہ ہم کامیاب ہونگے‘‘
ماریہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی۔ وہ فوراً کھڑکی سے ہٹ آئی۔ اب وہ پرانی لکڑی کی الماری سے ایک فائل نکال رہی تھی۔
’’بابا ! یہ دیکھوتو! ایک دن وہ بھی تھا جب ہم لُوسی کاسکیچ بنا رہے تھے۔ اُف مائی گاڈ! ہاتھ سے کاغذ پر بنائی ہوئی ڈرائنگ کو یوں زندہ دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی‘‘
پروفیسر اپنی چہیتی بیٹی کو اتنا خوش دیکھ کر ہنسنے لگا۔ماریہ کی تو حالت غیر ہوگئی۔ وہ جانتی تھی کہ لُوسی گزشتہ نو ماہ سے سورہی تھی۔ایک تتلی جو اُن دونوں باپ بیٹی نے مل کر پیدا کی تھی۔پھر جب ابھی لُوسی نے عالمِ شباب میں قدم رکھا ہی تھا، پروفیسر نے اُسے ہائبرنیٹ کردیاتھا۔’’میزارائن بلیو‘‘ نسل کی سمیارگس تتلیاں یوں بھی طبعی عمر کے لحاظ سے نسبتاً زیادہ جیتی تھیں۔ لُوسی، سمیارگس نسل کے قریب تر تھی۔
’’بابا! کیا لُوسی پرفیکٹ ہے؟ کیا وہ ڈاہلیا کو پہچانتی ہے؟ ‘‘
’’میں کافی دیر سے یہی دیکھنے کی کوشش کررہاہوں‘‘
ماریہ نے دوائیوں اور کیمیکلز کے پیکٹس ایک میز پر رکھے اور تیزی سے دوسرے میز کی طرف بڑھی جہاں میگنِفائر رکھا تھا۔ یہ ایک دستی عدسہ تھا جیسا عموماً پرانے زمانے کی شکستہ تحریروں کو پڑھنے کے لیے ماہرینِ لسانیات استعمال کیا کرتے تھے۔ماریہ نے میگنِفائر اُٹھایا اور باہر کی طرف لپکی۔ پروفیسر اپنی بیٹی کا اشتیاق دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہورہاتھا۔
ماریہ باغیچے میں آئی ۔ چھوٹی چھوٹی کیاریوں پر مختلف رنگوں کی تتلیاں گردش کررہی تھیں۔ ماریہ سیدھا ڈاہلیا کے پھولوں کی جانب بڑھی۔وہ جانتی تھی کہ پروفیسر نے لُوسی کو ڈاہلیا کے نزدیک ہی چھوڑا ہوگا۔بونسائی پودوں کے گملے دائروں میں آراستہ تھے۔ یہ ڈاہلیا کے پھول تھے۔پھولوں پر لمبی نیند سے جاگی ہوئی مدہوش سمیارگس تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ یہ تعداد میں چار پانچ تھیں۔ ماریہ کو تلاش تھی تو اِن میں سے ایسی تتلی کی جو ڈاہلیا کے کسی پھول پر بیٹھ جاتی اورماریہ میگنِفائر سے اس کے طرزعمل کا معائنہ کرتی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ لُوسی اپنی مخصوص خوراک یعنی ڈاہلیا کے پھولوں کو پہچانتی تھی یا نہیں۔ کیونکہ لُوسی کے تمام فیچرز کو ماریہ اور پروفیسر نے مل کر مرتب کیا تھا۔
اور پھر ماریہ کی خوش قسمتی کہ وہ جونہی نزدیک پہنچی اُن میں سے ایک، سیدھا ڈاہلیا کے پھول کی ایک پتی پر جاکر براجمان ہوگئی۔ یوں جیسے وہ ماریہ کا ہی انتظارکررہی تھی۔ماریہ کے حلق سے مارے خوشی کے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔اگلے لمحے وہ تیزی مگر احتیاط سے عدسہ تھامے پھول کی طرف لپکی۔ماریہ کا دل جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہاتھا۔
*******
طاقتورعدسے کی دوسری طرف دو آنکھیں تھیں۔دو ایسی آنکھیں جو ماریہ کی آنکھوں میں پیوست ہوگئیں۔ماریہ کو یکلخت خوف سا محسوس ہوا۔ عدسے میں سے لُوسی ماریہ گھُوررہی تھی۔ماریہ کو لگا جیسے وہ کسی واہمہ کا شکار ہورہی ہے۔ اُس نے جھٹکے سے عدسہ پیچھے ہٹالیا اور بغیر عدسے کے لُوسی کو گھبرائی ہوئی نظروں سے تکنے لگی۔ لُوسی اب بھی ماریہ کو دیکھ رہی تھی۔ماریہ نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا، ’’یہ کیا بیوقوفی ہے؟ تم پاگل ہوتی جارہی ہو۔ ہروقت یہ سوچ سوچ کر کہ تتلیاں بھی باشعور ہوسکتی ہیں تمہارا دماغ خراب ہوگیاہے۔ تمہیں فقط وہم ہوا اور کچھ نہیں‘‘۔ خود کو ٹھیک ٹھاک ڈانٹنے اور سمجھانے کے بعد ماریہ نے دوبارہ عدسے کو لُوسی کی آنکھوں کے سامنے کردیا۔
لیکن اب کی بار۔ اب کی بار تو جیسے لُوسی کی چمکدار اور تیز آنکھوں نے ماریہ کو جکڑ لیا۔ ماریہ کو یوں لگا جیسے وہ تتلی نہیں کوئی بھوت ہو۔ماریہ نے دل کو کچھ حوصلہ دیا اور لُوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھیں۔ اب ماریہ کو یقین ہونے لگا تھا کہ لُوسی اُسے جانتی ہے۔ اُسے یقین ہونے لگا تھا کہ لُوسی اُس کے ساتھ ’’آئی کانٹیکٹ‘‘ بنارہی ہے۔ماریہ کا دل خوف اور تجسس سے بری طرح اُچھل رہا تھا۔ معاً اسے اپنے دماغ میں کچھ سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔ اِس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی، اُس کا دماغ یکایک تاریک ہوتا چلا گیا۔ اس نے سرکو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن ایک بار بھی نہ جھٹک سکی۔ اگلے لمحے وہ پھولوں کی کیاریوں کے بیچوں بیچ بے ہوش ہوکر گرپڑی۔
دورکھڑکی میں کھڑا پروفیسر ایک لمحے کو تو کچھ نہ سمجھ سکا کہ آخر ماریہ کے ساتھ کیا ہوا۔ پہلے پہل تو وہ سمجھا کہ اس کی بیٹھی ٹھوکر کھاکرگرگئی ہوگی۔لیکن پھر یکدم اُسے محسوس ہوگیا کہ معاملہ زیادہ خطرناک ہے۔ پروفیسر پاگلوں کی طرح ہال سے باہر کی طرف بھاگا۔ وہ بھاگتے ہوئے مسلسل پکارتا جارہاتھا۔ ’’ماریہ! ماریہ! ماریہ! میرا بچہ! کیا ہوا میرا بے بی!!!‘‘
پروفیسر نے ماریہ کا سر گود میں لیتے ہی زور زور سے گھر کے دیگر افراد کو پکارنا شروع کردیا،
’’ارے کوئی ایمبولینس منگواؤ! ارے کوئی ہے؟ کوئی جلدی سے ایمرجنسی نمبرپر کال کرو۔ او مائی گاڈ! او مائی گاڈ!‘‘
اورپھر کچھ دیر بعد بے ہوش ماریہ کو ایمبولینس میں ہسپتال کی طرف لے جایا جارہاتھا۔پروفیسر اور اس کی بیوی بری طرح رو رہے تھے۔وہ بھی ماریہ کے ساتھ ہی ایمبولینس میں سوار تھے۔ ایمبولینس کے ڈاکٹرز مسلسل ماریہ کو ٹریٹ کررہے تھے۔ماریہ کی ناک پر آکسیجن ماسک دھرا تھا اور ڈاکٹرز اُسے طرح طرح کے انجکشنز دینے میں مصروف تھے۔پروفیسر بار بار ڈاکٹروں سے پوچھتا،
’’کیا ہوا میری بیٹی کو؟ کچھ پتہ چلا؟ کچھ تو بتائیے ڈاکٹر صاحب! آخر ہوا کیا ہے بچی کو؟‘‘
آخر ایک ڈاکٹر نے چہرے سے کپڑے کا ماسک ہٹاتے ہوئے کہا،
’’میرا خیال ہے آپ کی بیٹی میجر سٹروک سے گزرہی ہیں‘‘
’’میجر سٹروک؟ ‘‘
پروفیسر جیسے سکتے میں آگیا۔
*****
اُس کی آنکھ کھلی تو پہلے پہل اُسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ کسی بہت ہی بلند نشت پربیٹھی تھی۔اُس کا دل دہل کر رہ گیا۔اس نے سمجھاوہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ ہاں وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ کیسی جگہ ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اسے یاد آیا آخری بار وہ لُوسی کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔اُس نے سوچا شاید لُوسی نے اُسے ہپناٹائز کرلیاتھا۔ اس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے ہی گھر کے باغیچے میں ہے۔اسے کچھ تسلی ہوئی۔ وہ بٹرفلائی ہاؤس میں تھی۔ ماریہ کا ڈر کچھ کم ہوا۔ یہ ایک خوبصورت خواب تھا۔ وہ اپنے باغ میں تتلیوں اور پھولوں کے بیچوں بیچ تھی۔معاً اس کے دل میں خیال آیا کہ اچھے خواب سے کیا ڈرنا۔ لیکن پھر ایک سوچ کہ آخر وہ سوئی کب تھی؟ وہ تو آخری بار لُوسی کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ ماریہ نے ذہن پر زور دیا لیکن اسے بالکل بھی یاد نہ آیا کہ دن کب گزرا، کب رات ہوئی اور وہ کب سوئی۔ وہ سب کچھ بھول کر ذہن پر زور دینے لگی۔ ایک دم اُسے خیال آیا کہ یہ کیسا خواب ہے؟ ایسا خواب جس میں وہ یہ بات جانتی ہے کہ وہ خواب دیکھ رہی ہے؟ وہ پھر گھبرانے لگی۔ لیکن گھبراہٹ بھی عجب تھی۔ اسے اپنا دل زور زور سے دھڑکتاہوا کیوں محسوس نہیں ہورہا تھا؟ معا ً اس نے کسی خیال کے تحت اپنے جسم پر نگاہ ڈالی تو بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اگلے لمحے وہ بری طرح چیخ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ اس کا جسم اب ایک تتلی کا جسم تھا۔وہ ایک تتلی بن چکی تھی۔ماریہ نے پورا گلا پھاڑ کر چلّانا اور بابا کو پکارنا چاہا لیکن اس کی آواز کسی اور طرح سے برآمد ہورہی تھی۔یاالٰہی یہ کیا ماجراہے؟ کیا میں سچ مچ خواب دیکھ رہی ہوں؟ ہاں میں سچ مچ خواب دیکھ رہی ہو؟ ہاں میں سچ مچ خواب دیکھ رہی ہوں؟ وہ ایک ہی جملہ بار بار دہرانے لگی۔ کبھی وہ خود کو خواب سے جگانے کے لیےاپنے پر زور زور سے پھڑپھڑاتی تو کبھی دوبارہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے چلانے لگتی۔
ماریہ کی چیخیں سن کر آس پاس اُڑتی تتلیاں بھی چونکیں۔ ان میں سے ایک تتلی تیزی سے ماریہ کی طرف لپکی۔
’’ارے کیا ہوا؟ اتنا چلّا کیوں رہی ہو؟ دیکھتی نہیں کتنا روشن اور شفاف دن ہے۔ شانت ہوجاؤ‘‘
ماریہ اُسے پہچانتی تھی۔ یہ تھریسیا تھی۔ ماریہ نے ہی اس کا نام تھریسیا رکھا تھا۔یہ ٹائیگر سوالوٹیل نسل کی تتلی تھی۔ جس کے جسم پرٹائیگرجیسے پیٹرن بنے ہوئے تھے۔پیلے رنگ کے پروں پر گہرے بھورے رنگ کی دھاریوں والی یہ تتلی ماریہ سے قد کاٹھ میں بڑی تھی۔ماریہ کو حیرت ہوئی کہ اُس نے تھریسیا کی بات سمجھ لی۔ کیا وہ اپنے خواب میں تتلیوں کی زبان سمجھ سکتی ہے؟ وہ سوچنے لگ گئی۔ آخر یہ سب کیا ہورہا تھا۔ معاً ایک خیال نے تو اس کی جان ہی نکال دی۔ کہیں کسی طرح وہ انسان سے تتلی تو نہیں بن گئی؟
اتنی دیر میں بہت سی تتلیاں ماریہ کے چاروں طرف جمع ہوچکی تھیں۔ایک ’’بلیو مارفو(Blue Morpho) تو اس کے ساتھ والے پتے پر آکربیٹھ گئی۔ماریہ بیسیوں تتلیوں میں گھری بری طرح کانپ رہی تھی۔ اسے اب یہی لگ رہا تھا کہ وہ انسان سے تتلی بن چکی ہے۔اس نے باقی تتلیوں کو دیکھا اور پھر خود کو دیکھا۔ وہ اب سمیارگس نسل کی ایک نیلی تتلی تھی۔وہی تتلی جسے اس نے خود اپنے بابا کے ساتھ مل کر پیدا کیا تھا۔وہی تتلی جس کا نام اُس نے لُوسی رکھاتھا۔ وہی تتلی جس کی آنکھوں میں جھانکتے جھانکتے وہ خود اُس کے اندر آگئی تھی۔
معاً اُسے چند ’’گارڈن ٹائیگر موتھ‘‘ اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ وہ انہیں پہچانتی تھی۔ یہ پتنگے تھے جو چھوٹی چھوٹی تتلیوں جیسے دکھتے تھے۔ ماریہ جب بھی کبھی باغیچے میں آتی تو وہ ان ٹائیگر پتنگوں کو پیار سے بدمعاش کہا کرتی تھی۔ لیکن آج وہ دیکھ رہی تھی کہ ’’گارڈن ٹائیگر موتھس‘‘ واقعی بدمعاش تھے۔ وہ ماریہ کو انسانی دنیا کے اوباش لڑکوں جیسے لگے۔جونہی وہ ماریہ کے قریب آئے بلیو مارفو ساتھ والے پتے سے اُڑ گئی۔ شاید وہ بھی اِن بدمعاشوں سے ڈرگئی تھی۔ باقی تتلیاں بھی اِدھر اُدھر سرکنے لگیں۔ یہ ٹائیگر پتنگے اب ماریہ کے گرد منڈلا رہے تھے۔ماریہ کو ایک لمحے کے لیے لگا کہ وہ لفنگے اس کی عزت لُوٹ لینگے۔
یکلخت ماریہ اپنی تتلی بن جانے کی پریشانی بھول گئی۔ اس کے دل میں آئی کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے۔ وہ بدمعاشوں کے چنگل سے نکلنے کی راہیں سوچنے لگی۔بدمعاش ٹائیگر پتنگے اب ماریہ کے گرد گھیرا تنگ کررہے تھے۔قریب تھا کہ وہ ماریہ کو کوئی نقصان پہنچاتے لیکن اچانک ایک جانب سے بڑےبڑے پروں والا’’نِمف(Nymph) ‘‘نسل کا تتلانمودارہوا۔ چھوٹے ٹائیگرپتنگے، نمف کو دیکھتے ہی بھاگ نکلے۔ نمف کے جسم پر سفید اورسیاہ دھاریاں تھیں اور ماریہ اُسے پہچانتی تھی۔ ماریہ نے اس کا نام’’بڈھاگُجر‘‘ رکھاہوا تھا۔ بڑے پروں والا نمف تتلا ماریہ کے قریب آیا ۔اب ماریہ پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ ہوگئی۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی کہ ’’یااللہ کسی بھی طرح کرکے اُسے اس خوفناک سپنے سے بیدار کردے‘‘۔ وہ بار بار اپنا سرزور زور سے جھٹکتی کہ شاید کسی طرح وہ جاگ جائے اور دوبارہ انسان بن جائے۔لیکن اُس کا خواب تھا کہ لمبا ہوتا جاتاتھا۔
گجر تتلے نے ماریہ کے پاس ایک بڑے سے پتے پر بیٹھتے ہوئے ماریہ کو گھورنا شروع کردیا۔ وہ ماریہ کو کسی اوباش نوجوان کی بجائے ایک سمجھدار بزرگ جیسا محسوس ہوا۔ تتلے نے بھی ماریہ کو ہمدردی بھری نظروں سے دیکھا اور پھر نہایت حلیم لہجے میں پوچھا،
’’تمہارا نام کیا ہے بیٹا؟‘‘
’’ماریہ‘‘
ماریہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’ماریہ؟ یہ کیسا نام ہے؟ ایسا نام تو میں پہلی بار سن رہاہوں۔ کیا تم ’پُورماشانی تتلیوں‘‘ کے ساتھ نہیں آئی ہو؟ وہ جو پانچ تتلیاں آج سے کچھ دن پہلے ’’شردھان‘‘ میں وارد ہوئیں، تم انہی میں سے ایک ہو نا بیٹا؟‘‘
’’کچھ دن پہلے؟‘‘ ماریہ نے حیرت سے سوچا۔کچھ دن پہلے کیسے؟ نیلی تتلیوں کو تو آج ہی پروفیسر نے طویل ہائبرنیشن سے جگایاتھا۔ماریہ نے بڈھے گجر کو کوئی جواب نہ دیا۔وہ متلاشی نگاہوں سے باقی نیلی تتلیوں کو ڈھونڈنے لگی۔جلد ہی اُسے نزدیکی پھولوں پر پریشانی کے عالم میں بیٹھی اپنی ہم نسل تتلیاں دکھائی دیں۔ ماریہ نے دور سے دیکھا کہ نیلے رنگ کی سمیارگس تتلیاں ماریہ کو ہی تکے جارہی تھیں۔ وہ آپس میں باتیں بھی کررہی تھیں۔ معاً بزرک بڈھےگجر نے دوبارہ کہا،
’’کیا بات ہے بیٹا؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ تمہاری فیملی تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے پھول تمہارے پاس ہیں۔ تم ایک خوبصورت لڑکی ہو۔ اور کیا چاہیے؟ سب کچھ تو ہے۔ کچھ تو بتاؤ! آخرتم کیوں رورہی ہو؟‘‘
فیملی کا ذکر سنتے ہی ماریہ اور زور سے رونے لگی۔ اسے اپنے بابا یاد آگئے۔اس نے سب کچھ بھلا کر دور ہال کی کھڑکیوں کی جانب دیکھنا چاہا لیکن ہال اُسے خود سے بہت دور ، بہت ہی دور محسوس ہورہاتھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے گھرسے کوسوں دور آگئی ہے۔ حالانکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اپنے ہی باغیچے میں ہے۔ اب اُسے احساس ہورہا تھا کہ تتلیوں کا زمان و مکاں کس طرح کا ہوتاہے۔ باغیچے کی ہرچیز اُسے بہت بڑی بڑی لگ رہی تھی۔ ہوا کے ساتھ ہلتے ہوئے پتے اُسے سلو موشن میں ہلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔اسے دُور سے اپنے گھر کی چھت آسمان کو چھُوتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔باغیچے کے سارے درخت پرانی دنیا کے بوسیدہ دیوہیکل پیڑ معلوم ہوتے تھے۔ جیسے یہ بڈھے پیڑ صدیوں سے یہاں کھڑے ہوں۔
********
’’مورسینا! تم اپنی چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ لے جاؤ! تم سب اب ایک فیملی ہو۔ یہ کب تک یہاں بیٹھی رہے گی۔ دن گزرنے والا ہے۔ اِسے ابھی آرام کی ضرورت ہے۔ یہ تمہاری بہن ہے۔ یہ اگر یونہی یہاں بیٹھی رہی تو اسے کتنےغنڈے، بدمعاش اور موالی نقصان پہنچا سکتے ہیں ‘‘
’’دن گزرنے والا ہے؟‘‘ یہ دوسری بات تھی جس پر ماریہ غیرمعمولی طورپر چونکی۔ وہ جانتی تھی کہ ابھی تو دوپہر بھی نہیں ہوئے۔ توپھر بڈھاگجر ایسے کیوں کہہ رہاتھا کہ دن گزرنے والا ہے؟ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتی جس نیلی تتلی کو بڈھے گجر نے مورسینا کہہ کر پکاراتھا۔ وہ اُڑتی ہوئی ماریہ کے پاس آئی اور ساتھ والے پھول پر بیٹھتے ہی کہنے لگی،
’’نیلمانہ! کیا ہوا؟ کوئی بھوت دیکھ لیا ہے کیا؟ اتنا چیخ اور چلّا کیوں رہی ہو؟ دیکھوتو! سب لوگ کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ ہم لوگ یہاں شردھان میں نئے نئے آئے ہیں۔ اس لیے بھی سب کی نظریں ہمہ وقت ہم پر ہوتی ہیں۔تمہاری وجہ سے یونہی تماشا بن گیا۔ ہوش میں آؤ نیلم!‘‘
ماریہ نیلی تتلی کی بات سن کر سٹپٹاگئی۔کون نیلمانہ؟ کیسا بھوت؟ اسے نہ جانے کیوں غصہ آگیا۔ اس نے نیلی تتلی کو قدرے مالیخولیائی لہجے میں جواب دیا،
’’میں ماریہ ہوں۔ میں تتلی نہیں ہوں۔ میں انسان ہوں۔میں نہیں جانتی کسی شردھان وردھان کو؟ یہ ہمارا باغیچہ ہے۔ میرا اور میرے بابا کا۔میں تم سب کی مالک ہوں۔ میں نے اور میرے بابا نے پیدا کیا ہے تم لوگوں کو‘‘
وہ بہت غصے میں تھی۔ چیخ چیخ کر بات کررہی تھی۔ آس پاس کی تتلیوں میں مزید تماشا بنتا دیکھا تو مورسینا نے اپنا لہجہ بہت نرم کرلیا اور بڑے پیار سے ماریہ کو سمجھانے لگی،
’’دیکھونیلمانہ! تم میری بہن ہو۔ ہم لوگ پورماشانی کی طویل نیند سے جاگے ہیں۔ مطلب، ہم آج سے اسّی ہزار دن پہلے پیدا ہوئے تھے۔ پھر ہم سوگئے تھے۔ بزرگ موروان بابا کا خیال ہے کہ تمہاری ذہنی حالت پورماشانی کی طویل نیند کی وجہ سے ایسی ہے۔تم جانتی ہو؟ ہمیں یہاں بہت وقار سے رہنا چاہیے کیونکہ پورماشانی کی نیند نے ہمیں شردھان کا سب سے قدیم شہری بنادیاہے۔ان لوگوں میں سے کوئی بھی اتنی بڑی عمر کا نہیں۔ ’’موروان بابا‘‘ بھی ہم سے بہت چھوٹے ہیں‘‘
’’اسّی ہزار دن؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تم سمیارگس نسل کی تتلیاں ہو۔ میں تمہیں جانتی ہوں۔ میرے بابا نے تمہیں صرف نوماہ کے لیے ہائبرنیٹ کیاتھا۔ میں بڈھے گجر کو بھی جانتی ہوں۔یہ موروان بابا نہیں ہیں۔ یہ نِمف نسل کے عمررسیدہ تتلے ہیں‘‘
ماریہ کی بات سن کر بڈھے گجر سمیت آس پاس موجود سب تتلیاں دنگ رہ گئیں۔ یہ لڑکی کیسی باتیں کررہی تھی؟ موروان بابا کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں نمودار ہوئیں۔
ماریہ سچ مچ ہوش میں نہیں رہی تھی۔ اس پرحیرت کے پہاڑ ٹوٹتے چلے جارہے تھے۔ تو کیا تتلیوں کی دنیا میں اُس کا نام ’’ نیلمانہ‘‘ تھا؟ ابھی وہ مورسینا کی باتوں پر غور کررہی تھی کہ باقی سمیارگس تتلیاں بھی ماریہ کے نزدیک آکر بیٹھ گئیں۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ہم نسل تتلیوں کو تکے جارہی تھی۔اُسے احساس ہورہاتھا کہ تتلیوں کا ایک پورا جہان ہے۔ اُن کا وقت الگ ہے۔ ان کے نام الگ ہیں۔ ان کی زبانیں الگ الگ ہیں۔ وہ خاموش تھی لیکن اس کا دماغ تیزی کے ساتھ چل رہاتھا۔
معاً اُس کی نظر سامنے ڈاہلیا کے ایک اور پودے پر پڑی۔ اسے لگا جیسے پتوں کے پیچھے سےاسے کوئی جھانک رہاتھا۔ اس نے چونک کر اُس طرف دیکھا تو تمام نیلی تتلیوں نے بھی سرگھما کر ماریہ کی نظروں کا تعاقب کیا۔ لیکن انہیں وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ مورسینا نے ایک مرتبہ پھر ماریہ کو سمجھانا چاہا،
’’نیلمانہ! تم یہاں کب تک بیٹھی رہوگی؟ آؤگھر چلیں! آج کا دن ختم ہونے والا ہے۔ اتنا زیادہ جاگنا صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔صبح ہوتے ہی ہم پھولوں پر پروازکریں گے۔ اپنے اپنے ساتھی تلاش کرینگے۔ گانے گائینگے۔ کھیل کھیلیں گے۔ ابھی تو ہمارا وقت شروع ہوا ہے۔ اب تک تو ہم سب سورہے تھے۔ تم اب ہوش میں آؤ۔ کیا تمہیں کچھ بھی یاد نہیں؟ کیا تمہیں ہمارے سونے سے پہلے کا وقت بھی یاد نہیں؟ کیا تم ہم سب کو بھول چکی ہو؟ کیا تمہیں’’ شاؤزان‘‘بھی بھول گیاہے؟ پورماشانی ہونے سے پہلے تم دونوں میں کتنا پیار تھا؟ شاؤزان سے تو تمہاری حالت دیکھی نہیں جارہی۔ دیکھوتو! وہ کتنا اداس ہے۔ دیکھوتو! وہ تمہارے لیے رورہاہے؟‘‘
ماریہ نے گھوم کر دیکھا۔ سامنے والے پھول پر ایک نوجوان نیلا تتلا اُداس بیٹھا ماریہ کی جانب دکھ بھری نظروں سے دیکھ رہاتھا۔جب سے یہ لوگ بیدار ہوئے تھے نیلمانہ کا رویّہ اس کے ساتھ اُکھڑا اُکھڑا سا تھا ۔آج ہی نیلمانہ اور شاؤزان کے درمیان کسی بات پر لڑائی بھی ہوئی تھی۔ آج صبح کا آغاز ہوتے ہی نیلمانہ نے شاؤزان کو بری طرح ڈانٹ دیا تھا۔ شاؤزان بیچارہ ابھی تک یہی سمجھ رہا تھا کہ نیلمانہ اس سے ناراض ہے۔ اس لیے وہ اس کے نزدیک آنے سے کترارہاتھا۔
ماریہ نے شاؤزان کی جانب دیکھا تو جیسے اُسے کچھ یاد آنے لگا۔ اسے ایسا لگنے لگا جیسے وہ یہاں ایک تتلی بن کر پہلے بھی رہتی رہی ہے۔ اسے اپنی تتلیوں والی یاداشت واپس آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔اس کے دماغ میں کسی فلم کے فلیش بیک کی طرح بہت سے مناظر گھومنے لگے۔ہاں وہ پہلے ایک بھی تتلی ہوا کرتی تھی۔اُس کا نام واقعی نیلمانہ تھا۔اسے مورسینا کا چہرہ بھی اب یاد آنےلگا۔ مورسینا ان سب میں بڑی تھی۔ وہ سب کا خیال رکھتی تھی۔ یہ لوگ آج سے ستائیس دن پہلے بیدار ہوکر یہاں آئے تھے۔یہ تتلیوں کے ستائیس دن تھے۔اسے یاد آنے لگا کہ شاؤزان اسے پسند کرتاتھا۔ وہ ڈاہلیا کے گلابی پھولوں پر مل کر منڈلایا کرتے۔ وہ کھیلتے کھیلتے کتنی دور نکل جایا کرتے تھے۔ جب بھی شاؤزان اسے کہتا کہ نیلمانہ! کیاتم مجھ سے پیار کرتی ہو‘‘ تو وہ شرارت سے جواب دیتی، ’’بالکل بھی نہیں‘‘۔ اب اُسے آہستہ آہستہ سب باتیں یاد آنے لگیں۔اس نے اپنے پاس بیٹھی مورسینا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کا نام ہولے سے دہرایا،
’’مورسینا!‘‘
مورسینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اور پھر جیسے وہ سمجھ گئی کہ نیلمانہ کی یاداشت واپس آرہی ہے۔ مورسینا کے چہرے پر خوشی کا شگوفہ سا پھوٹا۔ اس نے پرجوش انداز میں اپنی ساتھی تتلیوں کو بتایا،
’’ارے دیکھوتو! نیلمانہ ٹھیک ہورہی ہے۔ دیکھو تو! اس نے میرا نام پکارا۔ وہ سب کو پہچاننے لگی ہے‘‘
مورسینا بہت خوش ہورہی تھی۔ اس نے اپنے دائیں پَر سے نیلمانہ کو چھوا اور ہنستے ہوئے کہنے لگی،
’’بس کروبی بی! چلو! اب جِن کھیلنا بند کرو! نئے دن کا آغازہوتے ہی تم بالکل ٹھیک ہوجاؤگی۔ مجھے پورا یقین ہے‘‘
یہ کہہ کر مورسینا نے اُڑنے کے لیے پرتولے ۔مورسینا کو دیکھ کر باقی نیلی تتلیاں بھی اُڑنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ اب سب ماریہ کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ وہ اُڑے تو سب اُڑیں۔ آخر ماریہ نے پہلی بار اپنے پر پھیلائے۔ اسے اُڑنے سے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ کبھی اُڑی ہی نہ تھی۔ لیکن ساتھ ہی اس کی یاداشت میں کچھ ایسے مناظر بھی گڈ مڈ ہورہے تھے جب وہ اُڑا کرتی تھی۔اس نے ایک بار اپنے پرپھڑپھڑائے اور گرتے گرتے بچی۔ لیکن اتنی سی حرکت سے ہی اس کے پیر پھول کی پتی سے پھسل گئے اور وہ اتنے اونچے پھول سے نیچے گرنے لگی۔ابھی وہ فضا میں ہی تھی کہ اس کے پرخود بخود کھُل گئے۔اس نے اپنی تمام تر توانائی مجتمع کی اور اُڑنے لگی۔
اب وہ اُڑ رہی تھی۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔بہت ہی انوکھا۔ ہوا میں بلند ہوتے ہی اسے سب کچھ بھول گیا۔ سارے غم۔ سب پریشانیاں ایک ساتھ نہ جانے کہاں چلی گئیں۔اسے اپنے دل میں ہلکی سی خوشی محسوس ہوئی۔وہ سرگھما گھما کر سارے باغیچے کو دیکھنے لگی۔ ماریہ اُڑرہی تھی۔وہ پھولوں کے اوپر منڈلا رہی تھی۔ اس کے خاندان کی سمیارگس تتلیاں اس کے آس پاس اڑ رہی تھیں۔ سب خوشی سے نہال تھے کہ ان سب کی لاڈلی نیلمانہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ اچانک ماریہ کو محسوس ہوا کہ اس کے پہلو میں کوئی لڑکا ہے۔ ہاں! یہ شاؤزان تھا۔ شاؤزان ماریہ کے پہلو بہ پہلو اُڑرہاتھا۔وہ کبھی مسکرا کر ماریہ کی طرف دیکھتا اور کبھی خوشی سے قلابازیاں کھانے لگتا۔اب یہ لوگ اپنے ٹھکانے کی طرف جارہے تھے۔
********
نئے صبح کے آغاز پرماریہ کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو قدرے ہلکا پھلکا محسوس کیا۔یہ اٹھائیسواں دن تھا۔اسے اب سب کچھ یاد آچکاتھا۔ سب کچھ یاد آجانے کی وجہ سے اس کے کافی سارے خوف دور ہوگئے تھے۔ اسے یاد آیا کہ وہ فی الحقیقت کبھی انسان رہی ہی نہیں تھی ۔ وہ دراصل ایک تتلی ہی پیدا ہوئی تھی۔اسے یاد آیا کہ اسی ہزار دن قبل جب وہ اسی دنیا میں پرواز کیا کرتی تھی تو اس کی ساری سہیلیاں اسے نیلمانہ کہہ کر ہی پکارتی تھیں۔لیکن پھر یہ ماریہ نامی لڑکی کی یاداشت اس کے دماغ میں کیوں گھُس گئی؟اب اس کے ذہن میں دویاداشتیں تھیں۔ ایک ماریہ کی اور دوسری نیلمانہ کی۔ کبھی اُسے لگتا کہ وہ ماریہ ہے جو انسان تھی اور کسی وجہ سے تتلی بن گئی اور کبھی اسے لگتا کہ وہ شروع سے ہی ایک تتلی تھی اور پورماشانی کی طویل نیند میں چلنے والے کسی خواب کی گونج ابھی تک اس کے دماغ میں موجود تھی۔لیکن یہ کیسی گونج تھی۔ یہ تو ایک مکمل یادتھی۔ اُسے یاد تھا کہ وہ پروفیسر سارنگ کی بیٹی تھی۔ اسے یاد تھا کہ وہ مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی کررہی تھی۔ اُسے یاد تھا کہ اُسے ایک لڑکا پسند کرتاتھا جس کا نام راہیل تھا اور جو انگلش لٹریچر کا طالب علم تھا۔ اسے سب کچھ یاد تھا۔ وہ کبھی دُور ہزاروں ’’فرسانگی‘‘ کے فاصلے پر موجود عمارت کی کھڑکیوں کے پاس جانے کا سوچتی۔
اب وہ پھر اُڑرہی تھی۔ نیلمانہ کو یوں گلابی پھولوں پر پرواز کرتے دیکھا تو شاؤزان سے رہا نہ گیا۔ وہ بھی اپنے گہرے نیلے پر پھڑپھڑاتا مورسینا کے ساتھ آمِلا۔ شاؤزان نے آتے ہی کہا،
’’نیا دن مبارک ہو۔یہ سال کتنا روشن ہےنا؟‘‘
ماریہ ہنس دی۔ اب اسے سب معلوم تھا۔ یہ لوگ انسانوں کے ایک دن کو اپنے لیے ایک سال سمجھتے تھے۔ ماریہ نے شاؤزان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
’’شاؤ! تمہیں پتہ ہے؟ ہمارا ایک سال کسی اور کے لیے فقط ایک دن کے برابر بھی ہوسکتاہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہاں! ہمارے تین سو دنوں کا ایک سال ہوتاہے نا؟
اُس نے شاؤزان سے سوال کیا،
’’ہاں‘‘
’’ تمہیں پتہ ہے ؟ ہمارےنوہزار دِنوں سے انسانوں کا ایک مہینہ بنتاہے۔ہمارے اسّی ہزار دنوں سے انسانوں کے نومہینے بنتے ہیں‘‘
’’انسانوں کے؟ انسان کون ہیں۔ وہ کہاں ہوتے ہیں؟‘‘
شاؤزان کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ نیلمانہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں نیلمانہ سے پوچھا تو وہ ہنسنے لگی۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ نیلمانہ ابھی تک پوری طرح صحتیاب نہیں ہوئی۔ لیکن ماریہ تھی کہ بولتی چلی جارہی تھی۔شاؤزان کے پوچھنے پر ماریہ نے کہا،
’’انسان بھی ایک زندہ مخلوق ہیں۔وہ ہم سے بہت بڑے ہیں۔ہم ہوا میں اُڑسکتے ہیں لیکن وہ زمین پر چلتے ہیں‘‘
ماریہ کو یاد آیا کہ ہاں، سچ مچ وہ لوگ انسانوں کو نہیں جانتے تھے۔ اُسے یاد آیا کہ ایک تتلی کے طور پر وہ انسانوں کودرختوں جیسا ہی سمجھتی تھی جن پر نہ کوئی پھول اُگتے تھے اور نہ ہی پتے۔ جن کی شاخوں سے خوشبُو کی بجائے بدبُو آتی تھی۔ماریہ کو یاد آیا کہ چلنے والی نسل کے چھوٹے درخت بڑے درختوں سے زیادہ خطرناک ہوتے تھے۔ چھوٹے درخت تتلیوں کے پیچھے بھاگتے اور اُنہیں پکڑ کرجان سے ماردیتے تھے‘‘
معاً ایک خیال کے تحت ماریہ نے شاؤزان سے پوچھا،
’’شاؤ! ایڈونچر کا موڈ ہے؟‘‘
شاؤزان یکایک خوش ہوگیا۔
’’ارے کیوں نہیں؟ ایڈونچر اور وہ بھی تمہارے ساتھ؟ افف بہت مزہ آئیگا۔ بتاؤ! کہاں چلیں؟‘‘
’’وہ ہ ہ ہ ہ وہاں‘‘
ماریہ نے دور سے پہاڑ نما عمارت کی دیوہیکل کھڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔شاؤزان ٹھیک سے سمجھ نہ پایا۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔
’’کہاں؟ ؟؟‘‘
’’یار! وہ دیکھونا۔ وہ وہاں وہ جو بڑی سی عمارت ہے۔ اس کی کھڑکیوں کے پاس‘‘
شاؤزان کو ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ دراصل وہ سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ نیلمانہ اُسے کسی دوردراز کے شہر میں یوں بے سازوسامانی کے عالم میں جانے کے لیے کہے گی۔ اس نے بے یقینی سے دہرایا،
’’تم آسمان کے دروازے کی بات کررہی ہو؟ وہ جہاں سے چلنے والے درخت نمودار ہوتے ہیں؟
ماریہ کو یاد آیا کہ ایک تتلی کی حیثیت سے وہ لوگ پروفیسر اور اس کی عمارت کو آسمانوں کا دروازہ کہا کرتے تھے۔ماریہ نے فوراً جواب دیا،
’’ہاں ہاں! وہیں‘‘
’’تم پاگل ہوگئی ہو نیلمانہ! کوئی تتلی آج تک وہاں نہ گئی ہوگی‘‘
’’کیوں نہ گئی ہوگی۔ تمہیں کیا پتہ؟ میں خود پہلے وہاں رہتی تھی۔ ہماری ساری فیملی، تم بھی اور نیلمانہ اور سومانہ اور مالیَم اور پالسینا، ہم سب پورے اسّی ہزاردن وہیں تو سوتےرہے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے؟ وہاں ایک پروفیسر رہتے ہیں۔ وہ میرے بابا ہیں۔ وہ تتلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔انہوں نے ہی ہمیں پیدا کیا ہے۔ یہ جو تمہارے پروں کا ڈیزائن ہے نا؟ یہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے ڈرائنگ کیا تھا۔ میں نے او رمیرے بابا نے ،ہم سب کا ڈیزائن بنایا تھا۔ پہلے کاغذ پر۔ پھر کمپیوٹر میں۔ پھرہم نے سمیارگس تتلیوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کی تھی۔ ہم تمہاری عمریں لمبی کرنا چاہتے تھے۔میں یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ میرا ایک دوست تھا راہیل۔ وہ لٹریچر کا سٹوڈینٹ تھا‘‘
ماریہ بولتی چلی جارہی تھی اور شاؤزان تھا کہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے چلا جارہاتھا