فزکس میں 2014 کا نوبل پرائز جاپانی سائنسدانوں ایسامو آکاساکی، ہیروشی امانو اور شوجی ناکامورا کو دیا گیا۔ ان کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے نوے کی دہائی میں نیلے رنگ کی ایل ای ڈی لائٹ ایجاد کی تھی۔ اس ایجاد میں اس قدر خاص کیا کہ نوبل انعام کی حقدار ٹھہری؟ اس کے لئے ایک جائزہ مصنوعی روشنی کا۔
زمین پر قدرتی روشنی کا منبع سورج ہے۔ سورج کے چھپ جانے کے بعد اندھیرا۔ صرف چاند اس سورج کی روشنی کا کچھ حصہ منعکس کر کے بھیج دیا کرتا۔ سب سے پہلی بار آگ جلا کر مصنوعی روشنی پیدا کی گئی اور یہ ٹیکنالوجی انسان (ہومو سیپیئن) سے پہلے کی ہے۔ یہ آگ ہی مختلف شکلوں میں بہت عرصے تک مصنوعی روشنی کا ذریعہ رہی۔ لکڑی، چراغ، دئے، موم بتی، مشعلیں اندھیری جگہوں پر روشنی کرنے کا ذریعہ رہے۔
اٹھارہویں صدی کے اختتام تک روشنی کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ جانوروں کی چربی سے بنائی گئی موم بتی تھی۔ مصنوعی روشنی اس قدر مہنگی تھی کہ کم آمدنی والا اسے افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ دنیا کی یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، حکومتی دفاتر میں بھی روشنی کرنے کا یہی طریقہ تھا لیکن زیادہ تر دنیا اندھیرے میں رہتی تھی۔
انیسویں صدی کے آغاز میں کوئلہ سے بنی گیس کے لیمپ شروع ہوئے۔ 1850 تک بڑے شہروں میں یہ عام ہو چکے تھے۔ روشنی بھی زیادہ تھی اور قیمت تھی کم۔ اس کے اگلی ٹیکنالوجی کیروسین کی تھی جس کا آغاز 1860 کا ہے۔ گیس کے برعکس اس کے لئے مہنگے پائپ درکار نہیں تھے، اس لئے پہلی بار امراء کے گھرانوں کے نکل کر عام لوگوں تک مصنوعی روشنی کی رسائی ہوئی۔
اس کے بعد 1880 کی دہائی میں بجلی کی آمد ہوئی لیکن 1920 کی دہائی میں بجلی کی روشنی پہلی بار اتنی سستی ہوئی کیروسین کے لیمپ کا مقابلہ کر سکتی۔
بیسویں صدی میں روشنی کا طریقہ زیادہ تر بلب اور پھر ٹیوب لائٹ رہی۔ انرجی سیور (کومپیکٹ فلورسنٹ لائٹ) 1975 میں ہونے والا بڑا بریک تھرو تھا جس کا کمرشل استعمال بیسویں صدی کے آخر میں ممکن ہو سکا۔
سرخ اور زرد ایل ای ڈی تو بن چکے تھے مگر نیلے رنگ کی زیادہ روشنی رکھنے والی ایل ای ڈی پہلی بار 1994 میں پہلی بار انڈیم گیلیم اور نائیٹرائیڈ کی مدد سے لیبارٹری میں بنائی گئی۔ اس کی مدد سے ممکن ہوا کہ اکیسویں صدی میں اس ٹیکنالوجی سے سفید روشنی حاصل کی جا سکے جو عام صارف تک پہنچ سکے۔ ایک موم بتی ایک واٹ سے آدھا لیومن روشنی کرتی تھی، ایک بلب دس لیومن جبکہ ایل ای ڈی دو سو لیومن روشنی کرتی ہے۔ گھروں اور بازاروں میں اب لگی اس روشنی کی ٹیکنالوجی کی طرف توجہ نہیں جاتی لیکن اندھیروں کو روشن کر دینے کے سفر کی صدیوں کی کہانی نیچے دئے گئے دوسرے لنک سے۔
دنیا میں پندرہ فیصد توانائی روشنی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ کم توانائی سے زیادہ روشنی حاصل کر کے توانائی کا مسئلہ کم کر کرنے پر اس نیلی بتی کی ایجاد پر ان تین جاپانی سائنسدانوں کو نوبل انعام دیا گیا۔ اس سے دنیا کے ڈیڑھ ارب لوگوں کے معیارِ زندگی پر کیا فرق پڑا؟ اس کے بارے میں نیچے دیا گیا آرٹیکل۔
قدرتی روشنی کا ذریعہ سورج ہے لیکن اگر غور کریں تو مصنوعی روشنی کا ذریعہ بھی سورج ہی ہے۔
پہلی تصویر سیٹلائٹ سے جنوبی ایشیا کی۔ یہ ایک تصویر بتاتی ہے کہ توانائی کی ضروریات میں اضافہ کس قدر تیز ہے۔
دوسری تصویر اس وقت کی روشنی کی مختلف سورسز کے لیومن فی واٹ کا۔
تاریخی طور پر مصنوعی روشنی کی قیمت کیا رہی ہے، اس کا گراف تیسری تصویر سے۔
اس نوبل پرائز کے بارے میں
https://www.nobelprize.org/…/phys…/laureates/2014/press.html
مصنوعی روشنی کی تاریخ
https://www.energy.gov/articles/history-light-bulb
روشنی کی ایفیشینسی کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Luminous_efficacy
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔