یہ تو ہمیشہ سے اندازہ تھا کہ نوائے وقت کی مار دور تک ہے لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ کرہ ارض کے ہر گوشے سے ردعمل آئیگا اور ردعمل بھی ایسا شدید کہ اس کالم نگار کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
ردعمل امانت ہوتا ہے اور اگر معاملے میں کالم نگار کے مفادات ملوث نہ ہوں تو یہ امانت قارئین کے پاس پہنچانی چاہیے۔ گزشتہ کالم (26 نومبر) جس میں ایم کیو ایم کو وقت ضائع کئے بغیر پنجاب کا رخ کرنے کی تلقین کی گئی تھی پڑھنے والوں کو پسند نہیں آیا اور اس ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں انہوں نے کسی قسم کا تکلف‘ لحاظ یا رعایت روا نہیں رکھی اور یہ ان کا حق تھا۔ اندرون ملک خاص کر کراچی اور لاہور سے اور بیرون ملک سے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھا رہا اور ای میلوں سے اِن باکس بھرتا رہا۔ شکایت کرنے والوں کے لہجے میں رنج تھا اور کرب‘ درد تھا اور دلسوزی اور رنجیدگی تھی اور دل گیری۔ کراچی سے ایک صاحب نے تو چیلنج کیا کہ آپ آ کر کراچی میں قربانی کریں اور پھر کھال نہ دے کر اپنا حشر دیکھیں۔ نیویارک سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے جس کی علمیت بلاشبہ قابل رشک ہے‘ مدلل ای میل بھیجی جس کا ایک حصہ یوں ہے :
’’شمالی ہند اور پنجاب کے رہنے والوں کے آپس میں شیر و شکر ہونے کی جو مثالیں آپ نے دی ہیں انکے علاوہ بھی بہت کچھ اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اردو کی خدمت بھی ان سب نے ملکر کی۔ اقبال‘ فیض اور راشد اردو کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر کے ساتھ عبداللہ حسین کھڑے ہیں۔ یہ سب درست ہے لیکن ایم کیو ایم کا ماضی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم‘ مولوی عنایت علی‘ محمد حسین آزاد‘ بیدل‘ تحریک مجاہدین‘ شبلی‘ سید سلیمان ندوی‘ محمد علی جوہر اور دوسرے زعما کی روایات کی امین ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! مجھے افسوس ہے کہ آپ کا کالم مجھے قائل نہیں کر سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد اور جرم کے حوالوں سے ایم کیو ایم کا کردار جاگیر داروں اور صنعت کاروں سے کم نہیں! اس وقت وطن عزیز کو شہری متوسط طبقے کی قیادت کی ضرورت ہے‘ ایسی قیادت جو جرائم‘ تشدد اور کسی بھی قسم کی نسلی اور لسانی گروہ بندی سے پاک ہو۔‘‘
ظاہر ہے ایک مختصر کالم قارئین کے خطوط کا متحمل نہیں ہو سکتا تاہم‘ ایم کیو ایم کے ضمن میں جو تحفظات سامنے آئے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے :۔
-1 تشدد اور جبر کی وارداتوں سے ایم کیو ایم کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا -2 12 مئی کے واقعات کی تحقیقات آج تک کیوں نہیں ہوئی۔ آخر اس المیے کا ذمہ دار کون ہے؟ -3 ایم کیو ایم تحریک کے قائد کی ملک کے اندر ضرورت ہے مگر وہ بدستور ملک سے باہر ہیں -4 ایم کیو ایم ایک عرصہ سے مرکز اور سندھ میں حکمران یا شریک حکمران ہے مگر اپنے دعوؤں کے برعکس ابھی تک اس نے زرعی اصلاحات کا کوئی ہلکا سا خاکہ بھی پیش نہیں کیا اور جاگیر دارانہ اور سرداری نظام کے خاتمے کیلئے کچھ نہیں کیا۔
ان تمام تحفظات کیساتھ ساتھ کالم میں پنجاب کے موجودہ اہل سیاست کے بارے میں جس ناامیدی کا اظہار کیا گیا تھا‘ قارئین نے اسکی بھرپور تائید کی اور اس خیال سے مکمل اتفاق کیا کہ پنجاب کی بساط سیاست پر جو شہسوار اور پیادے کھیل میں مصروف ہیں انکے دامن میں عوام کی حقیقی فلاح کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس کھیل میں بدقسمتی سے برادریوں ‘ قومیتوں اور عصبیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کبھی جاٹ نوازی کے مظاہرے دیدہ دلیری سے کئے جاتے ہیں‘ کبھی کشمیری برادری کو حاوی کیا جاتا ہے۔ میرٹ اور اہلیت نہیں دیکھی جاتی‘ اسکے بجائے اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ ارائیں کون ہے‘ اعوان کون ہے‘ راجپوت کون ہے‘ ککے زئیوں کا نمائندہ کون ہے؟ فلاں مغل ہے یا نہیں؟ اور کٹھڑ کون ہے اور گکھڑ کون ہے؟ جنوبی پنجاب کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ سرائیکی پٹی کے جاگیر داروں نے مختلف سیاسی پارٹیوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنی جاگیروں اور گدیوں کے زور پر چند خاندان پچھلے باسٹھ سال سے اقتدار پر قابض ہیں۔ لغاری‘ کھوسے‘ گیلانی‘ قریشی‘ کھر‘ مخدوم اور کچھ اور بالائی طبقات مڈل کلاس کو سامنے نہیں آنے دے رہے۔ اگر کوئی لبرٹی‘ مارکیٹ‘ گلبرگ‘ ماڈل ٹاؤن‘ شادمان اور ڈیفنس کو دیکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ سارا پنجاب ایسا ہی ہو گا تو وہ سخت غلط فہمی میں ہے۔ ذرا سرگودہا‘ جھنگ‘ میانوالی‘ اٹک‘ جہلم‘ راولپنڈی اور ساہیوال کے دیہات میں جا کر دیکھیں‘ خلق خدا تھانے کچہری کے جس جال میں پھنسی ہوئی ہے‘ اور اتنے عرصہ سے پھنسی ہوئی ہے اور تھانے جس طرح بااثر لوگوں کی مٹھی میں ہیں‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور یہ افسوس ناامیدی کے کندھے پر سوار ہے۔ پنجاب کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ عورتیں کالے رنگ کے تہبند باندھ کر کھیتوں میں غلاموں کی طرح مشقت کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل منڈی بہاؤالدین جانے کا اتفاق ہوا‘ پورا قصبہ گرد کے ایک گہرے بادل میں چھپا ہوا تھا اور مٹی اور دُھول نے پوری آبادی کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ تو پھر … ع
چیست یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ کوئی ریت سے اپنا سر نکالے یا نہ نکالے‘ کوئی جاگتے میں خواب دیکھنا چھوڑے یا نہ چھوڑے‘ پنجاب کا نجات دہندہ کوئی ایک شخص کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک تحریک کا‘ ایک سیاسی جماعت کا کام ہو گا اور اکیلے آدمی کے بس کی بات نہیں۔ پنجاب کی نجات دہندہ وہ سیاسی جماعت ہو گی جو اپنے اندر انتخابات کرا کر ایک مضبوط قیادت کو اوپر لائے گی اور اس سیاسی قیادت کو برادری ازم سے مکمل طور پر بے نیاز کر دیگی۔ اس سیاسی قیادت کو دو ٹھوس پروگرام دینے ہونگے۔ اول : زرعی اصلاحات ۔ ان خطوط پر جن بھارتی پنجاب میں تقریباً 55 سال پہلے زرعی اصلاحات عمل میں لائی گئی ہیں۔ آج اگر بھارتی پنجاب‘ پاکستانی پنجاب سے رقبے میں چھوٹا ہونے کے باوجود پورے بھارت کو اناج مہیا کر رہا ہے تو یہ کوئی مافوق الفطرت جادو یا سنیاسیوں کا کمال نہیں ہے بلکہ زرعی اصلاحات کا نتیجہ
ہے اور ملکیت زمین کے ڈھانچے
(Land – Ownership – Pattern)
کو تبدیل کرنے کا اثر ہے۔ دوم : پنجاب میں (بالخصوص دیہی آبادی میں) خواندگی کی شرح جلد از جلد زیادہ کرنے کا پروگرام… سارے سیاسی دعوؤں ‘ اشتہار بازی اور الیکٹرانک میڈیا پر شور و غوغا برپا کرنے کے باوجود ۔۔ تلخ سچائی یہ ہے کہ چند شہروں کو چھوڑ کر باقی پنجاب میں خواندگی کی سطح وہیں کی وہیں ہے جہاں تھی! کہانی ۔۔ گزشتہ کالم میں ایم کیو ایم سے شروع ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں اس وقت اگر کوئی غیر مذہبی سیاسی پارٹی متوسط طبقے پر مشتمل ہے تو وہ ایم کیو ایم ہی ہے لیکن ایم کیو ایم کو وہ دھبے مٹانے ہوں گے جنہوں نے اسکی تصویر کو آلودہ کر رکھا ہے۔ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔!
یہاں تاج اسکے سر پر ہوگا جو تڑکے شہر میں داخل ہو
یہاں سایہ ہُما کا نہیں پڑتا‘ یہاں کوہ قاف نہیں ہوتا
جس ملک میں سردار کے حکم پر جلتے انگاروں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑے‘ سائیں کے گستاخ نوکر کی ہڈیاں پانی میں ابال کر اونٹوں کو کھلا دی جائیں‘ ہاری کی منکوحہ زمیندار کے مستقل استعمال میں ہو‘ زرعی ملکیت کی کوئی حد نہ ہو اور اسکے باوجود چینی اور آٹا ناپید ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس ملک میں سیاسی جماعتیں زرعی زمین کی طرح موروثی ہوں‘ اس ملک میں وہی سیاسی جماعت نجات دہندہ ہو گی جس کی طرف خلق خدا کھنچتی چلی آئیگی اور یوں کھنچتی چلی آئیگی کہ اسے زمیندار روک سکے گا نہ برادری! اور ۔۔ زمیندار اور برادری دونوں سر پِیٹ پِیٹ کر کہیں گے …؎
اس کے ہاتھوں پر نیلم ہے‘ نیلم کا لشکارا
نیلم کا لشکارا دیکھ کے خلق غلام ہوئی