جب ہم جوانی میں ہی مارکسی ہوگے۔۔ تو ہم نے 'غریبوں، مزدروں، کسانوں' کے مصنوعی عشق میں مبتلا ہوگے۔۔ وہ 'انقلاب کا ہراول دستہ تھے' وغیرہ ہمیں سبق پڑھایا گیا۔۔ اور ہر امیر بندے سے نفرت سکھائی گئی۔۔ سرمائے سے نفرت ، سرمایہ داری سے نفرت۔۔۔ تمام ترقی یافتہ ملکوں سے نفرت۔۔ 'غربیوں سے عشق' اگرچہ کمیونسٹ دنیا کی ریاکاری کے سوا کچھ نہ تھا۔۔
کچھ بڑے ہوئے، مارکسی نظریئے سے جان چھوٹی۔۔ بلکہ کمیونسٹ قوموں نے خود ہی اس سے جان چھڑوا لی۔ اب ہم 'انسان دوست' بن گے۔۔۔ اس ناطے سے بھی۔۔ 'غریب سے محبت' ہمارا ایجنڈا رہا۔۔۔ لیکن میری ریشنل سوچ اور اب زندگی کے تجربے سے بھی۔۔۔۔ میاں محمد بخش کا یہ قول۔۔۔ زہن میں کھٹکتا رہتا ہے۔۔۔ بہت کمال کی حکمت کی بات کی ہوئی ہے۔۔۔۔ جدید لبرل ازم میں تو کسی کو 'نیچ سمجھنا' گناہ کبیرہ کے برابر لیا جاتا ہے۔۔ یہ بھی ایک فیشن سا ہی ہے۔۔۔ ہم جس پر بھی ایمان لاتے ہیں، لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں۔۔۔ یہ ملک ویسے ہی غربت زدہ ہے۔۔ غریبوں کی اکثریت ہے۔۔
اپنا کریکڑ کیا خود ہی بیان کرنا۔۔۔ لیکن زندگی بھر ظالموں میں سے کبھی نہیں ہوا۔۔۔ نہ ایسا دل ہے نہ دماغ۔۔ نہ مزاج۔۔۔۔ خدا ترسی ، رحم دلی، ہمدردی ہی مزاج کا حصہ رہی۔۔ خود بے کسی سے سفر کا آغاز ہوا۔۔ غربت کسے کہتے ہیں۔ اچھی طرح معلوم ہے۔۔ خود کو قدرے خوشحال پا کر۔۔۔۔ ہمیشہ آس پاس کے ہر کمزور ، نچلے طبقے کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا۔۔۔ جب غربت تھی، کمینگی اس وقت بھی نہ تھی۔۔ تو اب اس نے کہاں سے آنا تھا۔۔۔ جس کسی کے کسی بھی طرح کام آ سکتا ۔۔ کام آیا ہوں۔۔ جب فیس بک کی وجہ سے دوست احبابی فینز کا دائرہ وسیع ہوا۔۔ فیس بک پر ایک فیز ایسا بھی آیا، قرضہ مانگنے والے بہت لوگ ہوتے تھے۔۔ اپنی ضرورتوں کا رونا روتے۔۔ کوئی تعلیم اخراجات کی بات کرتا / کرتی۔۔۔۔ غیر مالیاتی معاملات میں اگر کسی کے کام آسکا تو ہمیشہ کوشش کی۔۔ زندگی بھر کا ریکارڈ ہے۔ میں کبھی اپنے دوست سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا۔۔ کسی دوسرے کی ضرورت کا واسطہ ضرور دے دیتا رہا۔۔
آج جتنوں کے بھی میں نے مالیاتی/غیرمالیاتی بے لوث مدد کی ہے۔۔ ان میں اکثریت نہائت کمینی ، نیچ ثابت ہوئی۔۔۔ غریب اور محتاج لوگ واقعی کمینے اور نیچ ہوتے ہیں۔۔ یہ کم ظرف ہوتے ہیں۔۔ چھوٹے دل چھوٹے دماغ۔۔ ان کلچرڈ۔۔۔ انتہائی چھوٹی کمینی ثقافتوں میں رہنے والے۔۔ ان کے اندر وسعت کہاں سے آنی ہے۔۔ وہ ہوتے ہی اندھیرے کیویں کے مینڈک۔۔۔
میں اپنے بزنس پارٹنر کے ساتھ ہمیشہ مزدوروں (ورکرز) کی ہمدردی کا سٹینڈ لیتا تھا۔۔ ایک دن وہ مجھے کہنے لگا۔۔ 'ارشد صاحب۔۔ آپ جس طرح ان کے ساتھ پیش آتے ہیں۔۔ وہ پتا کیا سمجھتے ۔۔ یہ مالک چوتیا ہے۔۔۔ اسے اور ایکسپلائٹ کرو۔۔۔ چونکہ انہوں نے دوسروں سے ہمیشہ کرختگی اور گالیاں ہی سنی ہوتی ہیں۔ وہ ان کو درست رکھتی ہیں۔۔
میں کہتا یار ان کا ریٹ بڑھا دو۔۔ شائد زیادہ توجہ اور شوق سے کام کرے۔۔ لیکن میرے پارٹنر کا کہنا درست تھا۔۔ وہ کہتا تھا، کہ جتنا مرضی ریٹ بڑھا دو۔۔ یہ کبھی دل سے کام نہیں کریں گے۔۔
وہ نیچ ماحول اور نیچ کلچر میں رہ کر نیچ اقدار کے حامل ہوجاتے ہیں۔۔ بچاروں کے چھوٹے دماغ ہوتے ہیں۔۔ ایک مشہور و معروف تیزی سے ابھرتے 'شاعر، ناول نگار' کئی سال پہلے اپنی پہلی نہائت رسمی ملاقات میں اس پر رحم کھا کر۔۔ پچاس ہزار کا چیک خود بخود دے آیا۔۔ نہائت زلیل انسان نکلا۔۔ میرے خلاف دوستوں میں بکواس کرتا رہا۔۔ لوگوں کہتا ۔۔ ارشد صاحب نے مجھے اس کے ' بزنس' میں 'پارٹنر شپ میں پیسے دیئے تھے۔۔ اس کی چھوٹی سی کتابوں کی دکان تھی۔۔ اندازہ لگائیں میں نے اس دلے سے پارٹنر شپ کرنی تھی۔۔!! (یہ ایک پرانی بات ہے ایسے مثال دی ہے) اس طرح کے بہت لوگ آئے ہیں۔۔ بہرحال ایسے بھی بہت سے میرے فیس بکی نوجوان دوست ہیں۔۔ جو میرے پیار اور شفقت کا بے لاگ دعوی کرسکتے ہیں۔۔
ایسے ہی بہت لوگ آئے۔۔ مجھے ہمارے فوک مفکر و فلاسفر میاں محمد بخش کی بات زہن میں کھٹکتی رہی۔۔۔ اگرچہ اس phenomenon کو اب میں ریشنلی اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔۔ لوگ نیچ ہوتے ہیں۔۔ اور ان کی آشنائی۔۔ آپ کو مفت بھری میں دکھ بھی دیتی ہے۔۔ ان نیچ اور کمینے لوگوں کی وجہ سے دل بہت برا ہوا ہے۔۔ غرببوں کو گلورفائی نہ کیا کریں۔۔ نہ ہم انفرادی طور پر دنیا سے کروڑوں لوگوں کی محتاجی دور کرسکتے ہیں۔۔ میں کبھی ریشنلی خود کو سنگ دل کرنے کی یوں کوشش کرتا ہوں۔۔ کہ میں خدا تھوڑا ہی ہوں۔۔۔ میں کون کسی کی قسمت بدل سکتا ہوں۔۔ کروڑوں کروڑوں لوگ محتاج ہیں۔۔ میرا کیا زمہ ہے۔۔ اور کربھی کیا سکتا ہوں۔۔ ویسے بھی تاریخ اور فطرت ۔۔ بتاتی ہے۔۔ نیچر نے ویسے ہی ' بھرتی ' کے لئے۔۔ کروڑوں کروڑوں کیڑے مکوڑے پیدا کئے ہوتے ہیں۔۔ جنہوں نے یونہی مرجانا ہوتا ہے۔۔ وہ کہیں پورے سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں۔۔
آج سے پھر ایک کمینی فطرت لونڈے نے دل توڑا ہے۔۔ چنانچہ پھر عہد کررہا ہوں۔۔ دل کو سخت کرنے کا۔۔ کسی سے ہمدردی نہیں کروں گا۔۔۔ جہنم میں جائیں۔۔۔ نیچر کا کچرا ہے۔۔ میں تھوڑا ہی زمہ دار ہوں۔۔
“