(Last Updated On: )
انچاس ہزار سال پہلے سربیا میں موجود Altai Mountains کی غار میں نینڈرتھلز نے رہنا شروع کیا۔ تقریبا سو سال کے دورانیے میں وہاں بارہ نینڈرتھل رہے۔ یہ نینڈرتھلز قریبی رشتہ دار تھے۔
نینڈرتھلز تھے کون؟
نینڈرتھلز انسانوں کے سب سے قریبی ارتقائی کزن رہ چکے ہیں۔ یہ ہمارے کزن کیسے رہ چکے ہیں اس بات کا ثبوت ہمیں انسانی ڈی این اے میں موجود انکے جینز سے گاہے گاہے پتا چلتا رہتا ہے۔
سربیا کی اس جگہ جہاں یہ غار تھی اس کے نزدیک بسون، ہرن اور گھوڑے بہت زیادہ موجود تھے۔ ایسے میں ایک نوعمر لڑکی کسی Bison کا گوشت چباتے وقت اپنا دانت کھو دیتی ہے۔ اور اس کا یہ ٹوٹا دانت دیگر نینڈرتھلز کے ڈھانچوں کی ہڈیوں کیساتھ وہیں پڑا رہ جاتا ہے۔
انچاس ہزار سال بعد جرمنی کے کچھ محققین کو یہ دانت دیگر ہڈیوں کیساتھ ملتا ہے مگر اس بات کا پتا نہیں چلتا کہ یہ دانت کس ڈھانچے کا ہے؟
محققین ان تمام ہڈیوں کو اینالائز کرتے ہیں اور ان سے ڈی این اے کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فاسلز سے ڈی این اے حاصل کرنا کافی مشکل کام ہے۔ عموما یہ ڈی این اے حاصل کرنا تقریبا ناممکن کام بن جاتا ہے لیکن انتہائی باریک بینی سے ہم جانوروں کے دانت یا دیگر ہڈیوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔
جب اس ڈی این اے کا مطالعہ کیا گیا تو یہ ڈی این اے اس گروہ کے بارہ لوگوں میں سے ایک شخص کے ساتھ بہت زیادہ قریبی تعلق ظاہر کر رہا تھا۔ مزید کھوج لگانے کے بعد پتا چلا کہ یہ دانت والا ڈی این اے اس غار میں رہنے والے ایک شخص کی بیٹی کا ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ ان بارہ افراد کے جینوم کے ڈی این اے کی سات لاکھ سائٹس کا مطالعہ کیا گیا۔ جس کے بعد پتا چلا کہ یہ آپس میں رشتہ دار تھے۔ کیونکہ ان کے ڈی این اے میں موجود تبدیلیاں اتنی کم تھیں کہ وہ تین یا چار نسلوں میں ہی ہو سکتی ہیں۔ زیادہ میں نہیں۔
حالیہ دس سالوں میں ہمیں ابھی تک انیس نینڈرتھلز کا ہی ڈی این اے ملا تھا۔ یہ انیس نینڈرتھلز ایک دوسرے کے دور کے رشتہ دار تھے اور ان میں سے زیادہ تر ملنے والے ڈھانچوں کی تعداد فیمیلز کی تھی۔ مگر اس غار کی تحقیق کافی الگ ثابت ہوئی۔
یوں انسانی تاریخ میں ہمیں پہلی بار پتا چلا کہ نینڈرتھلز بھی ہماری طرح خاندان کی شکل میں رہا کرتے تھے۔ مگر جس وقت یہ بارہ لوگ سربیا کی اس غار میں رہے وہ نینڈرتھلز کے ناپید ہونے کا وقت تھا۔
اس بات کا کیسے پتا چلا؟
غار کے ان باسیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ یہ نینڈرتھلز ایک دوسرے کیساتھ ایک بڑی تعداد میں کا نیوکلیر ڈی این اے جو کہ اجداد کا بتا سکتا ہے وہ سپین کے نینڈرتھلز سے مل رہا ہے۔ اور ان کے نر افراد کے پاس موجود Y کروموسوم کا ڈی این اے اتنا مختلف نہیں تھا۔ اس میں موجود تغیر اتنا ہی تھا جتنا آج کے نا پید ہوتے گوریلا میں ہے۔ اور یہ بات ان کی سپی شی میں مردوں کی کم ہوتی تعداد کی نشاندہی کرتی ہے۔
ان کے نیوکلیئر ڈی این اے اور وائے کروموسوم کے علاوہ انکے مائٹوکانڈریا کے ڈی این اے کو دیکھا گیا۔ یہ کسی بھی خلئے کا بجلی گھر ہوتی ہے اور اس کا ڈی این اے ماں کی طرف سے آتا ہے۔ سو جب اس کا تجزیہ کیا گیا تو اس سے پتا چلا کہ تمام نر نینڈرتھلز (جن کے ڈھانچے مل سکے ہیں) کا ڈی این اے مادہ نینڈرتھلز سے کافی مختلف تھا جو کہ ماداؤں کی زیادہ تعداد کی دلیل ہے۔
گو ان بارہ چودہ افراد کا ڈی این اے بہت کم معلومات دیتا ہے لیکن ابھی تک یہی پتا چلا ہے کہ نینڈرتھلز 30 سے 100 تک کے گروہ کی شکل میں ایک جگہ رہا کرتے تھے اور ان کی بیٹیاں نر پارٹنر ملنے کے بعد اپنی ماؤں کے گھر چھوڑ دیا کرتی تھیں۔
جس عرصہ میں یہ نینڈرتھلز وہاں موجود تھے ٹھیک اس سے پانچ سے دس ہزار سال کے بعد ہمارے یہ کزنز نا پید ہو گئے۔ آج ہمیں گاہے گاہے ان کے ڈھانچے مل جاتے ہیں اور ان پہ کی گئی تحقیق ان کے سماج اور حیاتیات جاننے میں بہت مدد کر رہی ہے۔ کھوج کا یہ سفر انسانوں اور لاکھوں دیگر مخلوقات کے دنیا میں آن کے پورے پراسس کو جاننے میں مدد دے رہا ہے اور اس کی مدد سے ہم میڈیسن کے علم کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔
اگر آج نینڈرتھلز ناپید نا ہوتے تو وہ ہمارے درمیاں دوسرے بندروں، چمپنزی اور گوریلا وغیرہ کی طرح جی رہے ہوتے لیکن ارتقاء کی اس دوڑ میں وہ انسانوں سے ہار گئے اور ناپید ہو گئے۔ لیکن ان کے ڈھانچے انکے وجود کی واضح دلیل ہیں