نظریات کی رگڑ، ہرم ِ طاقت ، جنت ِ ’مغرب‘ اور عالمی سیاست
[ ادیب، اداکار، ہدایت کار اور ، فلمساز ’ کوسٹا گیورس ‘ (Costa Gavras) پر ایک نوٹ ]
” ۔ ۔ ۔ میری ماں اکثر مجھ سے کہا کرتی تھی کہ سیاست سے دور رہو کیونکہ اسی وجہ سے تمہارا باپ جیل گیا تھا ، لیکن آپ ، خود کو سیاست سے دور نہیں رکھ سکتے ، ایسا کرنے سے آپ بہت سے اُن اہم رشتوں کو رد کر دیتے ہیں جو آپ کے اردگرد اسی کے کارن موجود ہوتے ہیں ۔ معاشروں میں اس سے کٹے رہنا اور ’ خود پسندی ‘ کا شکار ہونا سب سے گھٹیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ہم چاہتے ہوئے بھی خود کو اس سے الگ نہیں رکھ سکتے ، ہم کوئی ’ پوزیشن ‘ نہ بھی لیں تب بھی ’ پوزیشن ‘ لے رہے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ فنون لطیفہ کی دیگر اصناف کی طرح سارا ’ سنیما ‘ بھی سیاسی ہی ہے چاہے وہ ایسی فلم ہی کیوں نہ ہو جس کا ہیرو ایک پستول لئے دنیا کو بچانے نکلا ہو ۔ ۔ ۔ “
یہ بات عالمی شہرت یافتہ یونانی نژاد فرانسیسی ادیب ، اداکار، یدایت کار اور فلم میکر ’ کوسٹا گیورس ‘ (Costa Gavras) نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی تھی ۔ بطور ہدایت کارکوسٹا گیورس کی اب تک سامنے آنے والی بیس سے زائد فلموں میں آخری فلم ’ Le Capital ‘ ( سرمایہ) ہے جو پہلی بار’ ٹورنٹو فلم فیسٹیول ‘ میں ستمبر 2012 ء میں پیش ہوئی تھی اور اسی سال نومبر میں سنیماﺅں کی زنیت بنی تھی ۔ یہ سٹیفن آسمونٹ (Stéphane Osmont) کے اسی نام کے ناول پر بنائی گئی ہے جس کا سکرپٹ ’ کوسٹا ‘ نے دیگر دو لکھاریوں کے ہمراہ مل کر لکھا تھا ۔
’ کوسٹا گیورس ‘ ( پورا نام ؛ Konstantinos Gavras ) 12 فروری 1933ء کو آرکیڈیا ، یونان کے علاقے ’ لوٹرارآئیس‘ میں پیدا ہوا ۔ وہ ابھی تین سال کا ہی تھا کہ یونان میں وہ آمریت قائم ہوئی جو ’ 4 اگست کی سرکار ‘ (4th of August Regime) کہلاتی ہے۔ یہ جنرل آﺅاینس میٹا کس (Ioannis Metaxas) نے قائم کی تھی ، ایسا کرنے میں اسے یونان کے بادشاہ جارج دوم کی بھی سرپرستی حاصل تھی ۔ یہ ایک ’ انٹی ۔ کمیونسٹ ‘ آمریت تھی جسے یورپ کی دیگر کئی بادشاہتوں اور حکومتوں کی حمایت حاصل تھی کیونکہ ابھی وہ ہٹلر کی بجائے سٹالن کو ایک خطرہ گردان رہے تھے ۔ وہ چھ برس کا تھا کہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے ہو گیا ۔ اگلے برس ہی جرمنی کے اتحادی اٹلی کے میسولینی نے یونانی سرکار کو ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم دیا جس سے انکار پر اٹلی نے یونان پر حملہ کر دیا جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا کہ اپریل 1941ء میں یونان پر’ ایکسس ( اطالوی ، جرمن ، بلغارین اور حواری) افواج کا قبضہ ہو گیا ۔ اس قبضے نے اس مزاحمت کو جنم دیا جو یورپ میں سب سے اہم گردانی جاتی ہے اور عمومی طور پر ’ یونانی‘ اور خصوصی طور پر ’ نیشنل مزاحمت ‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ فوجی ، نیم فوجی اور عام شہریوں پر مشتمل یہ مزاحمت 1944ء تک جاری رہی جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے ، یونان کی کمیونسٹ پارٹی بھی اس مزاحمت میں شامل تھی ۔ کوسٹا گیورس کا والد اس پارٹی کا ممبر تھا اور اس نے بھی اس مزاحمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کوسٹا نے اپنی زندگی کا یہ اوائلی حصہ ’ پیلوپونیز‘ کے ایک گاﺅں میں گزارا تھا ۔ 1945 ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر اس کا خاندان ایتھنز جا بسا ۔ بڑی جنگ تو ختم ہو گئی تھی لیکن یونان میں خانہ جنگی جنم لے چکی تھی؛ حکومتی فوج اور کمیونسٹ پارٹی کی ’ یونانی جمہوری فوج ‘ اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آراء تھے ۔ تین سالہ اس خانہ جنگی میں یونانی حکومت کو برطانیہ اور امریکہ کی آشیر باد اور مدد حاصل تھی جبکہ یونانی کمیونسٹ پارٹی کے مددگار یوگوسلاویہ ، البانیہ ، بلغاریہ اور سوویت یونین تھے ۔ 1948ء میں یونانی کمیونسٹ کمزورپڑنے لگے ، ایک تو انہیں ملک میں حامیوں کی کمی کا سامنا تھا جبکہ دوسری طرف سٹالن اور مارشل ٹیٹو میں بھی ان بن ہو گئی تھی یوں اکتوبر 1949 ء میں یونان کی ’ جُنتا ‘ اس خانہ جنگی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی ۔ کوسٹا گیورس کا باپ جو محکمہ مال میں کام کرتا تھا ، نوکری سے فارغ کر دیا گیا اور اسے جیل جانا پڑا ۔ کوسٹا اس وقت نوجوان تھا ، اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتا ہے؛
”۔ ۔ ۔ بائیں بازو کے ہر مزاحمتی کو اس وقت کمیونسٹ گردانا جاتا تھا ۔ میرے والد کے جیل جانے کے بعد میری ماں لوگوں کے گھروں میں صفائی کا کام کرتی تھی اور میں خود بھی ہر وہ چھوٹا موٹا کام کرتا تھا جو مجھے مل جاتا ۔ یہ زمانہ ہماری مفلوک الحالی کا سب سے برا دور تھا ۔ میرے والد پر لگے ’ کمیونسٹ‘ ٹھپے نے مجھ پر یونان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دئیے تھے ۔ میں نے امریکی ویزے کے لئے درخواست دی لیکن یہ بھی وہاں چھائے ’ میکارتھی ازم‘ کی بنا پر مسترد کر دی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ “
ایتھنز میں چھوٹے موٹے کام کرنے کے دوران وہ یونانی بیلے کمپنیوں کے ساتھ بطور رقاص بھی کام کرتا رہا ۔ اپنی کمائی کا ایک حصہ وہ ماں کو دیتا ، کچھ پس انداز کرتا اور باقی فلم بینی پر خرچ کر دیتا ۔ یہ زیادہ تر ہالی ووڈ کی بنی فلمیں تھیں جن میں سے آسٹرین نژاد امریکی فلم میکر ایرچ وان سٹروہائیم کی ’ لالچ ‘ ( Greed,1924 ) نے اسے خاصا متاثر کیا تھا وہ اسے ’ یونانی المیے ‘ (Greek Tragedy) اور یونانی سماج سے جوڑتے ہوئے ایک اور انٹرویو میں کہتا ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ اس زمانے میں ، میں نے یونانی معاشرے کی ان پرتوں کو بہت قریب سے دیکھا جن کو شاید میں عام حالات میں کبھی نہ دیکھ پاتا ۔ ۔ ۔ ۔ “
کوسٹا گیورس 1954ء میں فرانس جانے میں کامیاب ہو گیا ۔ پہلے اس نے پیرس کی’ سوربونے‘ ( Sorbonne ) یونیورسٹی سے ’ قانون‘ کی تعلیم حاصل کرنا چاہی لیکن دقیق قانونی اصطلاحات اس کے آڑے آئیں اور ’فلم بینی‘ کا شوق اسے 1956ء میں فرانس کے فلمسازی کے قومی ادارے (Institut des hautes études cinématographiques) کی طرف لے گیا ۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ فرانسیسی ہدایت کار Yves Allégret, کا شاگرد بنا اور بعد ازاں ادیب و ڈرامہ نگار’ ژاں جیونو‘ سے تحریر کا فن سیکھتے ہوئے فلم میکر و ادیب ’رینے کلیئر‘ کا اسسٹنٹ بنا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب رینے کلیئر ’ Académie française ‘ کا منتخب رکن بھی تھا ۔ یوں کوسٹا کو اس قومی ادارے کے فلمی آرکائیوز تک پوری رسائی حاصل تھی ۔ ’ ژاں جیونو‘ اور ’ رینے کلیئر ‘ ہی کی ہلہ شیری سے اس نے’ سبیسچین جیپریسوٹ ‘ کے ناول ’ Compartiment tueurs‘ کو فلمی سکرپٹ میں ڈھالا اور اسی نام سے اپنی ہدایت کاری میں پہلی فلم ’ کمپارٹمنٹ میں قتل‘ بنائی جو نومبر1965ء میں ریلیز ہوئی ۔ بظاہر یہ ایک غیر سیاسی فلم تھی اورپراسرایت کی حامل کہانی بیان کرتی ہے ، لیکن قاتل کون ہے اور وہ کیوں قتل پر قتل کئے جا رہا ہے ، کوسٹا اس میں بھی سیاسی ’ تڑکا‘ (Touch) بھی لگاتا ہے ۔ اُس کا ’ قاتل ‘ کردار ، ایک نسل پرست پولیس اہلکار ’ ژاں لو گیبرٹ ‘ ہے ، جو’ جنوبی افریقہ‘ جانے کا متمنی ہے اور اس کے لئے اسے خاصے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ اس فلم سے کافی عرصہ پہلے وہ 1958ء میں’ Les rates ‘ نامی مختصر فلم بنا چکا تھا ۔
فروری 1969ءمیں اس کی فلم ’ زی‘ (Z) ریلیز ہوئی ۔ اس سے قبل اس کی فلم ’ چونکا نے والا دستہ ' (Un homme de trop) جو اپریل 1967 ء میں منظر عام پر آئی تھی اسے اسی سال ماسکو عالمی فلمی میلے میں لے گئی ، جہاں وہ’ گرینڈ پری‘ تو نہ جیت سکا کیونکہ یہ سوویت فلم ’ صحافی‘ ( The Journalist) اور ہنگری کی فلم ’ باپ‘ (Father) کوملا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم میں فرانسیسی مزاحمت کے موضوع پر بنی اس فلم نے اسے عالمی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
فلم ’ زی‘ (Z) اس کی وہ فلم ہے جس نے اسے بطورایک سیاسی فلم میکر کے کھڑا کیا ۔ اس کا محور اس کے اپنے دیس یونان میں ، 1960 ء کی دہائی کا سیاسی منظر تھا ۔ اس کا سکرپٹ یونانی ناول نگار ' Vassilis Vassilikos ' کے ناول ’ زی ‘ پرمبنی تھا جو اس نے یونانی جمہوریت ، امن پسند اور ایٹمی ہتھیاروں کے مخالف ممبر پارلیمان کے مئی 1963 ء میں قتل اوربعد میں اس پر ہونے والی تفتیش پر لکھا تھا ۔ اس ناول کو کوسٹا نے ’Jorge Semprún‘ اور ’ احمد رچیدی ‘ کے ساتھ مل کر سکرین پلے میں ڈھالا تھا اور بطور ہدایت کار فلم بنائی تھی ۔ یہ فلم آسکرز کے لئے ’ بہترین فلم ‘ اور ’ بہترین غیر انگریزی فلم‘ اور دیگر دو مختلف ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئی تھی ۔ اس نے پہلا تو نہیں البتہ دوسرا مقابلہ برائے بہترین تدوین اور بہترین غیر انگریزی فلم جیت لیا تھا ۔ اس فلم نے اور بھی کئی اہم ایوارڈ حاصل کرکے کوسٹا کے نام کو مستحکم کیا ۔
اس کی اگلی فلم ’ اقبال جرم‘ ( L'aveu) کو ماسکو نواز بائیں بازو کے نقادوں نے منفی جانا ۔ یہ چیکوسلواکیہ کے ایک کمیونسٹ سیات دان ’ آرٹر لنڈن اوراس کی بیوی ’ لیزا لنڈن ‘ کی کتاب ’ L'Aveu‘ پر مبنی ہے ، آرٹر لنڈن کو ’ سلانسکی مقدمے‘ میں اقبال جرم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور عمر قید کی سزا دی گئی تھی ۔ اس مقدمے میں چیک کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری سلانسکی اورکمیونسٹ پارٹی کے تیرہ دیگررہنماﺅں کو ’ ٹراسکی ‘ و ٹیٹو نواز ہونے کے ساتھ ساتھ صہونیت پسند بھی قرار دیا گیا تھا ، سلانسکی سمیت گیارہ کو پھانسی دے دی گئی تھی جبکہ بقیہ تین کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی جن میں آرٹر بھی شامل تھا ۔ 1953ء میں سٹالن کی وفات کے بعد اسے 1955ء میں رہا کر دیا گیا تھا اور1963ء میں حقوق کی بحالی پر وہ فرانس چلاگیا تھا ۔ ’ L'Aveu‘ نامی آپ بیتی 1968 ء میں سامنے آئی تھی ۔ کوسٹا کی اس فلم کا سکرپٹ ’Jorge Semprún‘ نے لکھا تھا ۔ یہ فلم ماسکو نوازبائیں بازو کے نقادوں کو اس لئے پسند نہیں آئی تھی کہ یہ ’ سٹالن مخالف ‘اور استبداد کی عکاس تھی ۔ بائیں بازو کے حامی بھی اس فلم پر خوش نہ تھے ۔ ان کا کہنا تھا؛ ” ٹھیک ہے کہ پرولتاریہ کی آمریت کے کچھ مسائل ہیں ، لیکن سوشلزم کو کھڑا کرنا زیادہ اہم ہے اور اسے بچانا بھی ضروری ہے ۔“ ، کوسٹا اس فلم کے بارے میں کہتا ہے؛
” مجھے’ سٹالنی استبداد‘ پر فلم بنانے کا خیال اس وقت ہی آ گیا تھا جب اگست 1968 ء میں سوویت ٹینک چیک کمیونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکرٹری’ ڈوپچیک ‘ ( Alexander Dubcek) کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے اور اس کی اصلاحات کا قلع قمع کرنے کے لئے پراگ کی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے تھے اس کے لئے آرٹر کی آپ بیتی ہی مجھے سب سے زیادہ موزوں لگی ۔ “
جن لوگوں نے کافکا کو پڑھ رکھا ہے انہیں یہ فلم دیکھ کر کافکا کی یاد ضرور آئے گی ۔ آرٹر لندن کی سوانح ، ’Jorge Semprún ‘ کا لکھا سکرپٹ اور کوسٹا کی ہدایت کاری مل کر کچھ ایسے ہی سوال کھڑے کرتے ہیں جیسے کافکا کی تحریروں میں نظر آتے ہیں ؛ آرٹر لڈوک مار دیا جائے گا ؟ وہ زندہ کیوں چھوڑ دیا گیا ؟ ناظر فلم کے کئی موڑوں پر ’ کیوں ؟‘ میں پھنسا رہتا ہے ۔
اس کی اگلی فلم ’ محاصرہ‘ (État de Siège) کا موضوع امریکہ کی وہ ایجنسی ( United States Agency for International Development ) تھی جو بظاہر عالمی ترقی کے نام پر بنائی گئی تھی لیکن اس کے پردے میں دوسرے ملکوں کی پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کو اپنے ملکوں میں ’ سرکشی‘ کو کچلنے کے گُر سکھائے جاتے تھے ۔ یہ فلم کسی حد تک ’ یوراگوائے‘ میں تعینات امریکی سفارت کار ’ ڈین متروں‘ کے اغوا اور بعد میں قتل کر دئیے جانے سے بھی متاثر تھی ۔ یہ فلم فروری 1973 ء میں سامنے آئی تو اس پر سب سے شدید احتجاج امریکی ’ سی آئی اے‘ نے کیا تھا ۔
1980 ء کی دہائی کے آغاز میں کوسٹا نے انگریزی زبان میں بھی فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس وقت تک اس کی دو اور فلمیں سامنے آ چکی تھیں؛ ’ سپیشل سیکشن‘ ( Section spéciale) اپریل 1975ء میں جبکہ’ عورت کا لشکارا ‘ (Clair de femme) 1979ء میں بنی تھی یہ ’ رومن گرے‘ کے اسی نام کے ناول سے ماخوذ تھی ۔
’ لاپتہ‘ ( Missing ) وہ پہلی فلم ہے جو کوسٹا نے انگریزی میں بنائی ۔ یہ فروری 1982ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ اس فلم کا محرک’ تھامس ہوسر‘ کی کتاب ’ The Execution of Charles Horman: An American Sacrifice ‘ تھی جو 1978ء میں سامنے آئی تھی اور پُلزر انعام کے لئے بھی نامزد ہوئی تھی ۔ امریکی صحافی چارلس ہورمین کی ، ’ چلی‘ میں جمہوری طور پر منتخب ہوئے سوشلسٹ صدر ’سلواڈورالندے‘ اور اس کی حکومت کے خلاف ، سی آئی اے کی پشت پناہی سے ہوئے فوجی ’جُنتا ‘ کے انقلاب کے دنوں میں ، گمشدگی اور قتل کے اصل واقعات پر مبنی اس کتاب کو امریکی سکرین رائٹر’ ڈونلڈ ای سٹوراٹ ‘ نے کوسٹا کے ہمراہ سکرین پلے میں ڈھالا تھا ۔ بائیں بازو کا رجحان رکھنے والا چارلس ہورمین ’چلی‘ اس لئے جاتا ہے کہ وہ ، انتخاب لڑ اور جیت کر حکومت میں آئے الندے اور کی پارٹی کی ان اصلاحات ، کی رپورٹنگ کر سکے جو ملک کی حالت بدلنے کے لئے کی جا رہی تھیں لیکن فوجی ’جُنتا ‘ اس کی ایسی کوریج سے خوش نہیں تھی ، یہی اس کے اغوا اور پھر قتل کا سبب بنی تھی ۔ اس کی بیوی اور کٹر مسیح سسرچارلس کے اتہ پتہ لگانے کے عمل میں اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ چارلس کے اغوا اور قتل میں امریکی سی آئی اے اور سفارت خانے کا بھی عمل دخل تھا ۔ انہیں چارلس کی میت تو مل جاتی ہے لیکن ان کی طرف سے دائر مقدمے کی شنوائی نہیں ہوتی ۔
اگسٹو پینوچے کے دور اقتدار میں 1990ء تک اس فلم پر ’ چلی‘ میں پابندی رہی البتہ ’ پیٹریشیو ایلون‘ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ ’ چلی‘ میں ریلیز ہوئی تھی ۔ خود امریکہ میں ’ تھامس ہوسر‘ کی کتاب اور کوسٹا کی یہ فلم اس وقت مارکیٹ سے ہٹا لی گئی تھیں جب ’ چلی‘ میں فوجی بغاوت کے دور میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر ’ نتھانئیل ڈیوس اور اس کے دو حواریوں نے تھامس ہوسر ، کوسٹا گیورس اور یونیورسل پکچرز کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا تھا ۔ جب ڈیوس اور اس کے حواری مقدمہ ہار گئے تو’ تھامس ہوسر‘ کی کتاب نئے نام ’Missing ‘ سے سامنے آئی اور فلم بھی یونیورسل پکچرز نے دوبارہ ریلیز کی تھی ۔ اس فلم نے 1982 ء کے ’ کینز فلم فیسٹیول میں ’ پام ڈی اور ( گولڈن پام ) کا ایوارڈ جیتا جبکہ ’ جیک لیمن ‘ کو بہترین ایکٹر کے اعزاز سے نوازا گیا تھا ۔ آسکرز کے حوالے سے اس کے سکرپٹ کو ایک آسکر دیا گیا تھا ۔ اسی سال بیفٹا (BAFTA) نے اس کے میوزک کو بہترین قرار دیا تھا ۔
اگلے برس ستمبر میں کوسٹا کی فلم ’ ہانا کے‘ (Hanna K.) ریلیز ہوئی ۔ یہ ایک طرف ہانا کوفمین کی کہانی ہے جو جرمن ’ ہولوکوسٹ‘ سے بچ نکلنے والی ایک امریکی یہودن ہے جویروشلم ، اسرائیل میں آباد ایک وکیل ہے ۔ دوسری طرف یہ ایک فلسطینی ’ سلیم باکری‘ کی کہانی ہے جو دہشت گردی کرنے کے لئے اسرائیل میں در آنے کے الزام میں پکڑا جاتا ہے ۔ ہانا اسرائیل کی سرکارکی طرف سے اس کی وکیل مقرر کی جاتی ہے ۔ یوں فلم ہانا اور سلیم کے کرداروں کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور کوسٹا یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر در بدر ہوئے یہودی واپس اسرائیل آ سکتے ہیں تو فلسطینی بھی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنی مادر زمین میں آ کر بس سکیں ۔ ’ مسنگ‘ کی طرح کوسٹا کی یہ انگریزی فلم بھی متنازع رہی ، ایک طرف یہ خیالات تھے؛
” سیاسی اور فلمی ، دونوں اعتبار سے کوسٹا کی یہ فلم ایک اہم اور امر فلم ہے ۔“
دوسری طرف یہ بھی کہا گیا؛
” کوسٹا نے اسرائیل ۔ فلسطین کے پیچیدہ انسانی مسئلے کو پیش کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن اس پہلی فلموں کی طرح یہ فلم بینوں کے جذبات کو نہیں جھنجھوڑتی ۔ “
اہل یہود کے حامیوں اور یہودیوں کا رویہ اس فلم کے بارے میں اور بھی سخت تھا ۔ یہودیوں کی عالمی تنظیم ’ بنائی برِتھ ‘ ( B'nai B'rith) کی طرف سے ایک یادداشت جاری کی گئی جس میں تمام یہودیوں اور حامیوں کو یہ کہا گیا کہ جب یہ فلم ان کے شہروں میں نمائش کے لئے پیش ہو تو وہ کھل کر اس کی نِندا کریں ۔ یہودیوں کی راہنمائی کے لئے اس یادداشت کے ساتھ نمونے کے طور پرمنفی تنقیدی نوٹ بھی منسلک کئے گئے ۔ امریکہ میں یہودی لابی اس بات میں بھی کامیاب ہوئی کہ کوسٹا گیورس کے دورہ امریکہ کو ، جس کے اصل پلان میں اس نے دس سے زائد شہروں میں جانا تھا ، کو نیویارک تک ہی محدود کر دیا گیا جہاں اسے دو ہفتے تک ہوٹل میں ہی محبوس رہنا پڑا ۔ فلم مارکیٹ کرنے والی کمپنی ’ یونیورسل پکچرز‘ بھی یہودی لابی کے اثر سے نہ بچ سکی اور اس نے اس فلم کی ’ اشتہاری‘ مہم منسوخ کر دی اور کوسٹا کو اپنے پلے سے لگ بھگ پچاس ہزار ڈالر خرچ کرکے اس کے اشتہار اخباروں میں شائع کرانے پڑے ۔ امریکہ کے شہروں میں اس فلم کی نمائش چند روز تک ہی جاری رہ سکی کیونکہ اس پر کئے جانے والے سارے تبصرے منفی تھے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا ؛
” ۔ ۔ ۔ ہانا کے ، ایک بڑی دلدلی ناکامی ہے ۔ ۔ ۔ “
1988ء میں کوسٹا کی ایک اور انگریزی فلم ’غداری‘ ( Betrayed) سامنے آئی ، اس سے پہلے وہ 1986 ء میں فرانسیسی فلم ’ خاندانی کاروبار‘ (Conseil de famille) بنا چکا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ ’ ہانا کے ‘ پر امریکیوں کے رد عمل نے اسے اسی ملک کے ہم عصر پس منظر میں ایسی فلم بنانے پر اکسایا ہو گا تاکہ وہ ان کو امریکہ کے باسیوں کا ایک اور مکھوٹا دکھا سکے ۔ اس نے ہنگرین نژاد امریکی ادیب و سکرین رائٹر ’ جو ‘ (Joe Eszterhas) کو سفید فام نسل پرست ’رابرٹ میتھیو‘ اور اس کے’ نیو ۔ نازی ‘گروپ ’ دی آرڈر‘ جو امریکی حکومت کو ’ZOG ‘ ( Zionist Occupied Government) کہتے تھے، سامنے رکھ کر سکرپٹ لکھنے کو کہا ۔ کوسٹا شاید جانتا تھا کہ اس موضوع پر ’ جو‘ سے بہتر کوئی اور سکرپٹ نہیں لکھ سکتا کیونکہ وہ نازی ازم کا اتنا مخالف تھا کہ یہ جاننے پر کہ اس کا باپ ہنگری میں نازیوں کا معاون و مددگار رہا تھا ، اس نے باپ سے تعقات منقطع کر لئے تھے اور یہ قطع تعلق باپ کے مرنے تک برقرار رہا تھا ۔ اس فلم کا سکرپٹ لکھنے میں Stephen Singular کی کتاب ’ Talked to Death: The Life and Murder of Alan Berg ‘ سے بھی مدد لی گئی ۔ ایلن برگ ایک ریڈیو اینکر تھا جسے اسی نیو ۔ نازی گروپ نے قتل کیا تھا ۔
فلم کا آغاز بھی شکاگو میں ایک یہودی ریڈیو کے اینکر کے قتل سے ہوتا ہے جس کی تفتیش کرتے ہوئے کیٹی فلپ کو ’ انڈر کور‘ اس زرعی بستی میں گھسنے کے لئے بھیجا جاتا ہے جو ایف بی آئی کو مشکوک لگتی ہے ۔ کیٹی وہاں ’ گیری سائمن ‘ ، جو دو بچوں کا باپ ہے اور ویت نام جنگ میں لڑائی بھی لڑ چکا ہے ، کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے ۔ گیری اس سفید فام نسل پرست نیو۔ نازی گروپ کا لیڈر ہے جو کالوں کو بھی امریکہ کی دھرتی کا بوجھ گردانتے ہوئے انہیں قتل کرتے ہیں ۔ بالآخر کیٹی سب جان جاتی ہے اورمحبت و وطن کی حفاظت کی دوئی کا شکار رہتی ہے لیکن فلم کے اختتام پر وہ ’ گیری سائمن ‘ کو گولی مار دیتی ہے ۔ کوسٹا کی یہ فلم بھی امریکیوں کو نہ بھائی ۔اسے ایک بھٹکتے، غیر حقیقی اور گنجلک پلاٹ والی فلم قرار دیا گیا ۔
’ ڈبہ موسیقی‘ ( Music Box ) کوسٹا کی اگلی انگریزی فلم تھی ۔ یہ دسمبر 1989ء میں ریلیز ہوئی ۔ اسے بھی ’ جو‘ ( Joe Eszterhas ) نے لکھا تھا ۔ کسی حد تک یہ ’ جو‘ کی اپنے زندگی اور سوویت سرخ فوج کے سابقہ فوجی جون دیمجنجوک ، جس پر پولینڈ میں لگ بھگ پچیس ہزار یہودیوں کو قتل کرنے کا الزام تھا، سے ماخوذ تھی ۔ جون دیمجنجوک کو 1986ء میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے اسرائیل بھیجا گیا تھا جہاں اسے 1988ء میں موت کی سزا کا حقدار ٹہرایا گیا تھا ، 1993 ء میں اسرائیل کی سپریم کورٹ نے نئے شواہد کی بنا پر اس کی سزا کا فیصلہ بدل دیا ۔ وہ مجرم تھا یا نہیں اس کا فیصلہ اس کی موت ( مارچ 2012ء ) تک نہ ہو سکا ۔
فلم کے پلاٹ کی مرکزی کردار شکاگو کی ایک وکیل اینی ٹالبوٹ ہے جسے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا باپ ، جو ہنگری سے ہجرت کرکے امریکہ آ بسا تھا ، کی امریکی شہریت خطرے میں ہے جس کی وجہ اس کے ’ جنگی جرائم‘ ہیں ۔ وہ اس کا مقدمہ لڑتی ہے اور جیت جاتی ہے لیکن مقدمے کی پیروی کے دوران تحقیق کرتے ہوئے آخر اس پر یہ راز فاش ہو جاتا ہے کہ اس کا باپ حقیقی طور پر ’جنگی مجرم‘ ہے ۔
گو اس فلم نے برلن فلم فیسٹیول میں ’ گولڈن بئیر ‘ ایوارڈ حاصل کیا اور اس کی مرکزی اداکارہ ’ جیسیکا لینگ ‘ آسکر اور گولڈن گلوب ایوارڈز کے لئے نامزد بھی ہوئی تھی لیکن امریکی نقاد اس فلم پر بھی خوش نہ تھے ؛
”۔ ۔ ۔ حقیقی زندگی کے ایک اہم المیے کو ایک بے تُکا ’ میلو ڈراما ‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے جو نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ گھٹیا بھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ “
1990 کی دہائی میں کوسٹا کی پانچ فلمیں سامنے آئیں جن میں چار فرانسیسی زبان میں تھیں : 1991ء میں اس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لئے بننے والی ان مختصر فلموں کے مجموعے ’ فراموشی کے خلاف‘ (Contre l'Oubli ) میں ایک مختصر فلم بنائی جس میں دیگر 29 ہدایت کار وں کی فلمیں بھی شامل تھیں ۔ ’ چھوٹا کشف ‘ ( La Petite Apocalypse) فروری 1993ء میں ریلیز ہوئی جبکہ ’ لومئیراینڈ کمپنی‘ ( Lumière et compagnie) 1995ء میں سامنے آئی ۔ یہ دنیا کے 41 یدایتکاروں کی کاوش کا نتیجہ تھی جنہوں نے اُس کیمرے کو استعمال کرکے ، زیادہ سے زیادہ تین ’ Takes ‘ میں ، آواز کے بغیر 52 سیکنڈ کی مختصر فلم بنانی تھی ، اسی برس اس کی ایک اور مختصر فلم ’ À propos de Nice, la suite‘ بھی ریلیز ہوئی ۔ نومبر 1997ء میں انگریزی فلم ’ دیوانوں کا شہر‘ ( Mad City) ریلیز ہوئی جس میں ڈٹسن ہوفمین ( میکس بریکٹ) اور جان ٹرےوولٹا ( سیم بیلی ) مرکزی کردار ادا کر رہے تھے ۔ سیم بیلی ایک عجائب گھر میں سیکورٹی گارڈ ہے جو نوکری سے نکال دئیے جانے پر اسی میوزیم میں کیوریٹر اور سکول کے بچوں اور ان کی استانیوں کو یرغمال بنا لیتا ہے ۔ میکس بریکٹ جو ایک ٹی وی جرنلسٹ ہے اس ’یرغمالی صورتحال ‘ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے ۔ فلم کے اختتام تک سیم بیلی یرغمالیوں کو چھوڑ کر خود کو بارود سے اڑا دیتا ہے ۔ فلم کا اختتام ٹی وی جرنلسٹ میکس بریکٹ کے اس جملے پر ہے ؛ ” ہم نے اسے مار دیا ۔ “
کوسٹا نے اس فلم میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ دور جدید کا ’میڈیا ‘ کس طرح حقیقی زندگی کی پیچیدہ صورتوں کو اپنے مقاصد کے استعمال کرتا ہے اور انہیں اپنے زاویوں سے دیکھ کر کچھ کا کچھ کر دیتا ہے ۔ کوسٹا کی یہ فلم کیسی رہی اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس کو بنانے میں پچاس ملین ڈالر لگے تھے جبکہ باکس آفس سے یہ صرف دس ملین ڈالر ہی واپس لا پائی ۔ یہ فلم کسی حد تک 1951ء کی فلم ’ Ace in the Hole‘ سے متاثر تھی جس میں صحافی کا کردار ’ کرک ڈگلس ‘ نے ادا کیا تھا ۔ کوسٹا کی اس فلم سے اثر لیتے ہوئے ’ انڈین ہدایت کار ’ ایم اے نیشاد ‘ نے ملیالم زبان میں ’ پلک ‘ نامی فلم 2006 ء میں بنائی تھی جبکہ عامر خان ‘ نے 2010ء میں ’ پیپلی لائیو‘ کے نام سے ایک ہندی/ اردو فلم بنائی ۔ اس کی یہ فلم البتہ باکس آفس پر کامیاب رہی تھی ۔
اپنی اگلی انگریزی فلم ’ آمین‘ ( Amen. ) جو 2002 ءمیں سامنے آئی تھی ، میں کوسٹا واپس ’ ہولوکوسٹ ‘ کے موضوع پر جاتا ہے اور’ ایس ایس‘ کے ایک حقیقی کردار ’ کرٹ گرسٹائن ‘ کو بنیاد بنا کر فلم کی کہانی بُنتا ہے ۔ یہ جرمن ادیب اور ڈرامہ نگار رالف ہوچتھ (Rolf Hochhuth) کے ڈرامے ’ The Deputy, a Christian Tragedy‘ سے بھی ماخوذ ہے ۔ ’ کرٹ گرسٹائن ‘ ایس ایس ہائی جین انسٹی ٹیوٹ میں پانی کو صاف کرنے اور چوہوں جیسے جانوروں کی تلفی کے پراجیکٹ پر کام کرنے والا افسر ہے ۔ وہ اس کے لئے ہائیدروجن سائنائڈ جسے اس نے ’ Zyklon B ‘ کا نام دیا ہوتا ہے ، استعمال کرتا ہے جبکہ اس کی بنائی یہ ’ پروڈکٹ ‘ جرمن نازی ’ یہودیوں‘ اور ’ معذور افراد ‘ کو ختم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس پس منظر میں کوسٹا اصل میں ویٹیکن کے پوپ پائیس دو دہم ‘ کی اس قتلام پر خاموشی اور امریکہ کے اس انتظار ، جو وہ ثبوت کے منتظر ہیں ، کا پردہ فاش کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کامیاب بھی ہے ۔ کوسٹا کی اس فلم کو کئی نقادوں نے سٹیون سپیلبرگ کی فلم ’ Schindler's list ‘ سے بھی بہتر قرار دیا جبکہ دیگر نے اسے ” ۔ ۔ ۔ ’جرمن مشین ‘ بمقابلہ ’ ویٹیکن ‘ اور اتحادیوں کی سفارت کاری‘ ۔ ۔ ۔ ۔“ کا نام دیا ۔ امریکیوں کا رویہ اس فلم کے بارے میں بھی کچھ زیادہ مثبت نہیں تھا ؛
” ۔ ۔ ۔ کوسٹا گیورس جو اخلاقی کھوج کی مد میں سسپنس کے استعمال میں ماہر گردانا جاتا ہے اپنی اس فلم کے کرداروں میں ڈرامائی زندگی پھونکنے میں ناکام ہے “ ، ”۔ ۔ ۔اس میں کافکین نامعقولیت بھی ہے ۔ ۔ ۔ “ ، ” سارا زور اس بات پر ہے کہ ’ جرم ‘ کو کیسے روکا جائے ۔ ۔ ۔“ ، ” کوسٹا نے ایسے اداکاروں کو فلم میں برتا ہے جو انگریزی زبان میں رواں نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ “ ، ” فلم کا اختتام بھی کچھ زیادہ جاندار نہیں اور ناظرین کو چونکانے میں ناکام ہے ۔ ۔ ۔ “ ، ” ۔ ۔ ۔ رومن پولینسکی ’ پیانسٹ ‘ میں بنیادی طور پر ظلم کے شکار لوگوں پر نہ کہ ظالموں پر ، توجہ مرکوز رکھتا ہے جبکہ کوسٹا کا رجحان ناصحانہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ “ ، ” ۔ ۔ ۔ کوسٹا کی فلم میں تاریخ زندہ دکھائی نہیں دیتی بلکہ اوپری لگتی ہے ۔ ۔ ۔ “
’ آمین ‘ ، کوسٹا کے فلمی کیرئیر میں انگریزی زبان میں اب تک سامنے آنے والی فلموں میں آخری ہے ۔ اس کے بعد کی اس کی چاروں فلمیں فرانسیسی میں ہیں ۔ ’ کلہاڑی‘ ( Le couperet) 2005ء کی فلم ہے ۔ بلجئیم کے پس منظر میں یہ ایک چالیس سالہ کیمسٹ کی کہانی ہے جسے ’ آﺅٹ سورسنگ ‘ کی وجہ سے سینکڑوں دیگر ملازمین کے ہمراہ بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چارو ناچار وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایسے تمام کیمیا دانوں کو ہلاک کر ڈالے جو اس سے زیادہ اِس مضمون کا علم رکھتے ہیں ۔ 2006ء میں اس کی پروڈیوس کی اور لکھی فلم ’ کرنل‘ ( Mon colonel) سامنے آئی جو ایک دائیں بازو کے انتہا پسند کرنل کے بارے میں ہے جس نے الجیریا کی آزادی کی جنگ میں بہمانہ قتلام کیا ہوتا ہے ۔ فلم کا آغاز الجیریا کے آزاد ہونے کے بیس سال بعد اس کرنل کے پیرس میں قتل کئے جانے سے ہوتا ہے اور دوران تفتیشی افسر لفٹین گیلوئس کو اس کرنل کے کرتوں کا پتہ چلتا ہے ۔
کوسٹا گیورس کی اگلی فلم جنت ِ ’مغرب ‘ ( Eden à l'ouest) فروری 2009ء میں فرانس اور یونان میں ریلیز ہوئی ۔ اسے آپ غیر قانونی طور پر اپنا دیس چھوڑ کر بدیس میں جنت کی تلاش میں جانے والوں کی ’ اوڈیسی‘ کہہ سکتے ہیں ۔ اس فلم کا مرکزی کردار بیس بائیس سالہ ’ الیاس‘ ہے جودیگرغیر قانونی تارکین وطن کے ہمراہ سمندری راستے سے یورپ میں داخل ہوتا ہے۔ جب کشتی یونان کے قریب پہنچتی ہے تو پولیس ’ پٹرول ‘ سے بچنے کے لئے وہ دیگر کی طرح سمندر میں کود جاتا ہے ۔سمندر کی لہریں اسے ایک ایسے ساحل پر لے جاتی ہیں جہاں ’ ننگ دھڑنگ ‘ لوگوں کا گروہ موجود ہے ۔ ۔ ۔ وہ خود کو ’ ایڈن کلب ۔ پیراڈائز‘ کا ملازم ظاہر کرتا ہے ، اس کے منیجر کے زنابالجبر کا شکار ہوتا ہے ، ہاتھوں سے باتھ روم صاف کرتا ہے ، ’ نکل نکلبائی‘ نامی شعبدہ باز کے ساتھ کام کرتا ہے ، درمیانی عمر کی کرسٹینا کا عاشق بنتا ہے ، پیرس کا رخ کرتا ہے جس کے بارے میں شعبدہ باز نے یہ کہا ہوتا ہے کہ اصل جنت تو پیرس میں ہے اور وہ اگر پیرس پہنچ سکے تو اس سے ضرور ملے ۔ فلم کا بیشتر حصہ اب اس کے سفر پر مشتمل ہے جس کے دوران اسے کئی مصائب و علائم سے گزرنا اور نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پیرس پہنچ کر بھی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں روزگار کے مواقع نہیں ہیں ۔ وہ بالآخر شعبدہ باز کو تلاش کر لیتا ہے لیکن وہ اسے شعبدہ باز وں کی ایک چھڑی دے کر کنی کترا کرنکل جاتا ہے ۔ مایوس الیاس اس چھڑی کو ایفل ٹاور کی طرف منہ کرکے ہوا میں اچھالتا ہے ، اسی لمحے ٹاور کی بتیاں جل اٹھتی ہیں ، وہ سمجھتا ہے کہ یہ واقعی جادو کی چھڑی ہے اور چند لمحوں کے لئے خوش ہو جاتا ہے لیکن جب پولیس اہلکار اس کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ خوفزدہ ہو کر جادو کی چھڑی ان کی طرف کرکے گھماتا ہے لیکن اہل کار غائب نہیں ہوتے ۔ پھر سے مایوس ہو کرالیاس سست قدم اٹھاتا ایفل ٹاور کی طرف چلنا شروع کر دیتا ہے ۔
غیر قانونی نقل مکانی کے موضوع پرکوسٹا کی یہ فلم پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی ۔ کچھ نقادوں کو اس فلم میں ’ میجک ریلزم ‘ کی جھلک دکھائی دی جبکہ کچھ کو اس میں علامتی پن بھی دکھائی دیا جیسے مرکزی کردار کا نام ’ الیاس‘ الوہی کتابوں میں ایک پیغمبر کا نام ہے جو خضر کی طرح اب بھی دنیا پہ موجود ہے اور جا بجا پایا جاتا ہے ، ویسے ہی جیسے مہاجر ، جنت کا تصور اور ننگ دھڑنگ پورپی گروہ ، نقل مکانی ، غیر قانونی ہی سہی اور خانہ بدوشی ۔ کچھ نے اسے ” ایک عمدہ بُنا ہوا کپڑا “ قرار دیا ۔
’ سرمایہ‘ (Le Capital) تاحال اس کی آخری فلم ہے ۔ اگر اس فلم کو چند لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہے؛ پیسہ بولتا ہے ، اوزار کی طرح خاموش نہیں پڑا رہتا ۔ یہ ایک فرانسیسی بنک ’ فینکس ‘ کے نئے سربراہ ’ مارک ‘ کی کہانی ہے جو پہلے کے خصئیوں کے کینسر سے صاحب فراش ہونے پرنہ صرف بورڈ آف ڈائریکٹرز کو لاچار کر دیتا ہے اور بنک کا پورے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر امریکی معیشتی اداروں کے سرمایہ کوبہتر منافع دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی پیسے بنانے لگتا ہے ۔ اس کے لئے وہ نہ صرف بنک کے سینکڑوں ملازمین کو فارغ کرتا رہتا ہے بلکہ بنکنگ کے بدترین ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے فرانسیسی بنکنگ اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑاتا رہتا ہے ، بیوی سے بھی دوغلے پن سے کام لیتا ہے اور ملک کی سپر ماڈل سے معاشقہ لڑاتا ہے ۔ ستمبر میں یہ فلم فرانس کے عالمی فلمی میلے میں دکھائے جانے کے بعد نومبر 2012ء میں سنیماﺅں میں ریلیز کی گئی تھی ۔ اس فلم کو ’ وال سٹریٹ کے چلانے والوں اور اس کے حامیوں نے تو پسند نہ کیا لیکن دیگر نے اسے سرمایہ داری نظام ، اس کے سب سے مہلک معاشی ہتھیار ’ بنکنگ ‘ اور اِس کے پُر فریب حربوں پر دیر تک یاد رہنے والی فلم گردانا ۔
میں نے جب یہ فلم دیکھنی شروع کی تھی تو مجھے یاد آیا اس موضوع پر فلم بنانے کا خیال کوسٹا کو پچاس سال سے تنگ کر رہا تھا ۔ اس نے ’ Le Capital ‘ نام کے سرورق والی ایک کتاب ( کارل مارکس کی ) ، اپنی 1965ء کی فلم ’ Compartiment tueurs ‘ کے ایک منظر میں دکھائی تھی ۔ اسے کارل مارکس کی ’ سرمایہ‘ پر تو فلم بنانے کی ہمت نہ ہوئی البتہ اکیسویں صدی میں معیشت داںسٹیفن آسمونٹ کا اسی نام کا ناول اسے زیادہ موزوں لگا جو اس نے 2004 ء میں لکھا تھا ۔ مجھے یہ بھی خیال آیا تھا کہ کوسٹا اس فلم کو کسی نہ کسی طرح ’ مارکسی فلسفے ‘ سے بھی جوڑے گا اور ایسا ہی ہوا : وہ مارکسزم کو آگے بڑھانے والے آگو ’ ماﺅ زے تنگ ‘ کو فلم میں کچھ یوں لے ہی آیا ؛ ( مارک اپنے امریکی سرمایہ کاروں کے سربراہ سے ’ویڈیو چیٹ ‘ کرکے اپنے سونے کے کمرے میں جاتا ہے ، بستر پر اس کی بیوی دراز ہے اور پاس ہی ’ ماﺅ‘ کی سوانح کھلی پڑی ہے ۔ وہ اسے بند کرکے سائڈ ٹیبل پر رکھتا ہے اور بیوی کے پہلو میں لیٹ جاتا ہے ، یہاں میاں اور بیوی کے درمیان یہ مکالمہ ہے؛)
مارک ؛ امریکی چاہتے ہیں کہ میں ملازمین کی اکثریت کو فارغ کر دوں ۔ ادھر فرانسیسی ، میرے اپنے ساتھی میری کمر میں چھرا گھونپنا چاہتے ہیں ۔
بیوی؛ تو کیا تم لوگوں کو نکال دو گے؟
مارک؛ اگر میں ایسا نہیں کرتا تو خود فارغ ہو جاﺅں گا ۔
بیوی؛ کوئی بات نہیں تم ’ تدریس ‘ میں واپس چلے جاﺅ ۔
مارک؛ وہاں بھی تو چھانٹیاں چل رہی ہیں ۔ فینکس ایک بحری جہاز ہے ، میں اس کی کپتانی بہتر طریقے سے کروں گا ۔ میں ایسا کرنے کے لئے راستہ کھوج رہا ہوں ۔
بیوی؛ کیا کرنے کے لئے ؟
مارک؛ سٹاف کی چھانٹی کرنے کے لئے ، کچھ ایسے کہ یہ نہ لگے کہ لوگوں کو نکالا گیا ہے ۔
بیوی؛ ماﺅ کی طرح کرو۔
مارک ؛ کون ؟
بیوی ؛ ماﺅ زے تنگ ! اس نے ’ ثقافتی انقلاب میں ’ رینک اینڈ فائل ‘ (Rank & File ) کا طریقہ استعمال کیا تھا تاکہ اپنے پرانے ساتھیوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے ۔
مارک؛ ٹھیک کہتی ہو! مجھے بھی کچھ ایسی ہی تراش خراش کرنا ہو گی ۔
فلم کے اختتام پر مارک اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے ؛ ” میں تم لوگوں کا ماڈرن رابن ہڈ ہوں ، ہم غریبوں کو لوٹتے رہیں گے اور امیروں کو دیتے رہیں گے ۔ “ ، پھر وہ ناظرین کی طرف مڑتا ہے اور انہیں مخاطب کرتا ہے ؛
” یہ بچے تھے ، اب جوان ہوگئے ہیں ، یہ اب اسی طرح مزہ کریں گے اور تب تک کرتے رہیں گے جب تک یہ سب برباد نہیں ہو جاتا ۔ “
کوسٹا بنیادی طور’ استبداد ‘ کا مخالف ہے چاہے یہ بادشاہی ہو، فاششٹ ہو، سٹالنی ہو ، فوجی ہو ، ماﺅئسٹ ہو یا سرمایہ داری نظام کے پنوں میں رینگ رہی ہو ۔ ’ سرمایہ ‘ میں جہاں اس نے ماﺅ کے’ ثقافتی انقلاب ‘ پرایک طنز داغی ہے وہیں سرمایہ داری نظام کے معاشی’ استبداد ‘ کا پردہ بہت بے باکی اور تفصیل سے چاک کیا ہے ۔
12 فروری 2017 ء کو ، کوسٹا گیورس زندگی کی 83 بہاریں مکمل کر چکا ہے ۔ وہ ابھی بھی بھرپور توانائی کے احساس کے ساتھ اپنی بیوی میشیل رے ، جس سے اس نے 1968ء میں شادی کی تھی اور جس سے اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، کے ساتھ جی رہا ہے اوریہ جانتا ہے کہ سیاسی موضوعات کو فلم کے میڈیم میں کس طرح ڈھالنا ہے ۔ وہ اپنے اس ہنر میں ماہر ہے ، اس کے اس کام میں میشیل بھی اس کی ساتھی ہے اور’ K.G‘ فلم پروڈکشنز کے کام کو سنبھالتی ہے ۔ کوسٹا متنوع موضوعات چُنتا ہے جو دنیا کے مختلف سماجوں سے تعلق رکھتے ہیں ، اہم ہیں اور عالمی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کے حامل بھی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اس کی زنبیل سے’ نیا ‘ کیا نکلتا ہے ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔