ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے، دو ایک جیسے اپنی نظر و فکر میں ہو ہی نہیں سکتے، ہر شخص اپنے زمان و مکاں کا پلا ہوتا ہے، افراد کا یہ تنوع معاشرے اور دنیا کا فکری تنوع بنتا ہے۔ اس سے مختلف مکاتب فکر بنتے ہیں۔ اور سوچنے کے مختلف دھارے تشکیل پاتے ہیں۔ ایک ہی فکری گروپ کے اندر بھی اختلاف و تناقض موجود ہوتا ہے۔ یہ ایک بالکل نیچرل رویہ ہے۔ مثلا ہم 'لبرل آئیڈیالوجی' کو لیں، تو اس کے بھی بہت سے شیڈز ہم کوملیں گے۔ نام نہاد 'شدت پسند لبرل ازم سے لے کرماڈریٹ لبرل ازم، مذہبی لبرل ازم تک' ۔۔ ہر انسان کا ایک لیول نہیں ہوتا۔۔۔ جو جی جان سے مشن لے کر لبرل ازم کو پروموٹ کررہا ہوگا۔۔ وہ 'شدت پسند لبرل' لبرل نظر آئے گا۔۔ اس کے نزدیک جس کا لبرل ازم کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں۔ وہ ایک عام سال لبرل ویو رکھنے والا فرد ہے۔۔ وہ انٹیلیکچوئلی نہ اتنا فکری لحاظ سے Rich ہے، نہ حساس، نہ ایسا جذبہ کہ دنیا اور اپنے معاشرے کو بدلنے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہے۔۔۔ نہ ایسا علمی شعور ہے جو اس طرح کی اس کے اندر ' ذمہ داری' ڈال دے، نہ لکھنے پڑھنے کا کوئی ہنر نہ شوق۔۔۔۔۔ وہ بے چارہ مشکل سے ایک اچھا ' قاری' بھی نہیں ہے۔۔ لیکن فتوی یا اپنی رائے ٹھونسنا وہ اپنا فرض سمجھے گا۔۔۔۔ " یہ تو شدت پسند لبرل ازم ہے"۔۔۔ اس کو میٹھا قسم کا لبرل ازم چاہئے۔۔ جیسا وہ خود اپنے معاشرے کا انٹیلیکچوئلی ' بے کار' شہری ہے۔ یعنی اس کا کوئی ایکٹو رول نہیں۔۔ اور جو ایکٹؤلی سرگرم ہیں، ان کو وہ شدت پسندی کا طعنہ دے گا۔۔۔۔
ایک اور بھی کیٹیگری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو خود کو بھی انٹیلیکچولی Rich سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ لکھ پڑھ بھی لیتے ہیں۔۔ دو چار آرٹیکل بھی 'ہم سب ' جیسے کسی بلاگ میں چھپوا لئے۔۔ غریب اور پس ماندہ معاشروں میں ' احساس کمتری اور انا' دو بڑی ظالمانہ جبلتین ہوتی ہیں۔ اب آپ نے کوئی دو چار کتابیں پڑھ لی ہیں، کوئی دو چار کالم/مضمون بھی کہیں چھپ گے ہیں۔ اب آپ کے اندر انا کی گردن موٹی ہوجائے گی۔ آپ ' دانش ور' ہوچکے ہیں۔ ایسی کی تیسی کسی دوسرے کی'۔۔۔ اس میں کچھ ایسے بھی جن کے کہیں دو چار مضمون بھی نہیں چھپے ہوتے، اب ان لوگوں کا کام یہ ہوتا ہے۔۔ کسی زیادہ معروف رائٹر جس نے کہیں زیادہ کنڑی بیوٹ کیا ہو۔۔ اس سے جیلسی شروع کردیتے ہیں۔ کوئی رد میں معقول سنجیدہ علمی مضمون لکھنے کی بجائے۔۔ طنزیہ فقرے کسنا شروع کردیں گے۔۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جن کی فطرت میں دوسروں کی ٹانگ کھینجنا ہوتی ہے۔۔ یا کسی زیادہ معروف لکھنے پڑھنے والے پر ٹھٹھا کرکے اپنی گھٹیا انا کو ' بڑے ہونے کا احساس' دیتے ہیں۔ اور اپنے آس پاس دو چار چمچوں سے داد وصول پاتے ہیں۔
ایک اور کیٹیگری ہے، جو زیادہ پڑھے لکھے، واقعی صاحب دانش ہوتے ہیں، ان کی قابل قدرکنٹری بیوشن بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہ اپنے ساتھی لکھاری کے کسی ایک پوائنٹ پر اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے۔۔ وہ خود کو زیادہ پڑھا لکھا یا سینئر ہونے کے ناطے ان کی خواہش ہوتی ہے، کہ وہ اپنے اس ہم فکر دوسرے ساتھی کولازمی طور پر "ٹھیک اور درست" کریں۔ یہ بھی ایک جارحانہ سا رویہ لگتا ہے۔ کسی ایک بات پراگر اختلاف رائے ہے تو اسے' ٹھیک ' کرنا کیوں ضروری ہے؟ اسے انفرادی تنوع کے طور کیوں قبول نہ کیا جائے۔ ٹھیک کرنے کا خبط کیوں ہو۔ ہم فکری تنوع کو کیوں دوستانہ طور پر قبول نہیں کرتے؟ اس میں جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ یا تعلق داری کو خراب کرنے کی یا لامتناعی مباحثے کی؟
اسی طرح ایک اورطرح کی بھی کیٹیگری ہے۔ وہ آپ کی کسی ایسی بات پرجو ان کے عقیدے، ایمان، نظریئے سے مختلف ہوگی، جارحانہ زبان میں حملہ آور ہونگے، کوئی علمی دلیل کے بغیر ہی آپ کی مذمت کریں گے۔ یہ وہ " دانش ور" ہوتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی کچھ لکھا نہیں ہوتا۔ اپنی ذاتی زندگیوں میں مگن ہوتے ہیں۔ لیکن کسی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ صرف غصہ ، مذمت، حملہ کرسکتے ہیں۔
ایک اور کیٹیگری ہے جو لامتناعی مباحثہ کے شوقین ہوتے ہیں۔ خواہ وہ کتنی دیر بے نتیجہ چلتا رہے۔ میں تو ان کو فکری احمقوں اور تخریب کاروں میں شمار کرتا ہوں۔ اسی لئے میں نے اپنی وال پر مباحثہ کا دروازہ بند کررکھا ہے۔ اس پھٹکار کے باجود کہ " ارشد اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتا۔۔ اوئے تم کیسے لبرل ہو"۔ اصل میں یہ لوگ مناظرہ باز ہوتے ہیں۔ مباحثہ اکیڈیمک سیکھنے سکھانے کا نام ہوتا ہے۔ مناظرہ دوسرے کو نیچا دکھانے اور نہ سمجھنے کے لئے ہوتا ہے۔
میری اپنی رائے یہ ہے ، جس کی جو بھی رائے ہے، جو بھی نظریہ ہے، جو بھی اختلاف ہے، وہ کسی دوسرے کو رگیدے بغیر، کسی جیلیسی میں پڑے بغیر اپنی وال میں کوئی مدلل، سنجیدہ رائٹ اپ لکھ دے۔ اور آراٰ کی اس متنوع دنیا کو ہم اسے بالکل فطری لیں۔ انسانی معاشرے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک دوسرے سے 80، 90 فیصد ہم آہنگ ہے، تو باہمی عزت ، احترام ، دوستی برقرار رکھیں۔ اگر آپ کا کوئی اپنا 'فکری نظام حیات' ہے، تو بسمہ اللہ اپنی وال پر اپنی دکان سجائیے، اور اپنے قارئین پیدا کیجئے۔ بجائے دوسروں کےکندھے پر سوار ہوئے۔
“