ایک دفعہ ہنسوں کا ایک جوڑا کسی ملک کے اوپر سے اڑتا ہوا جا رہا تھا انہوں نے نیچے دیکھا تو محسوس کیا کہ یہ ملک کسی بڑی نحوست کا شکار ہے۔ یہ دیکھ کر ہنسوں کا جوڑا نیچے اتر آیا۔ نیچے ان کی نظر ایک بندر پر پڑی تو اس سے سوال کیا کہ اس ملک پر اتنی نحوست کیوں طاری ہے۔ اس پر بجائے کوئی جواب دینے کے بندر نے ہاتھ بڑھا کر ہنس کی مادہ کو پکڑ لیا اور کہنے لگا کہ یہ تو میری مادہ ہے۔ اس پر ہنس نے بہت شور مچایا لیکن بندر پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بالاآخر معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ گیا۔ قاضی نے اس سارے معاملے کو سنا اور پھر فیصلہ سنا دیا کہ بندر حق پر ہے اور ہنس کی مادہ اس کے حوالے کر دی۔ ہنس نے بہت شور مچایا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے بندر کی مادہ ہنس کیسے ہو سکتی ہے لیکن ہنس کی کسی نے ایک نہ سنی اور قاضی نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ فیصلے کے بعد جب بندر اور ہنس قاضی کی عدالت سے باہر آئے تو بندر نے ہنس کی مادہ اس کے حوالے کی اور اس سے کہا کہ اب تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ ہمارے ملک پر نحوست کیوں طاری ہے۔ اب جتنی جلدی ہو سکے اپنی مادہ کو لے کر اس ملک سے نکل جاو ایسا نہ ہو کہ تم بھی ہمارے ملک پر طاری نحوست کا شکار ہو جاؤ۔
بظاہر اس کہانی کا ہمارے ملک اور نظام عدل سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر دیانتداری سے سوچا جائے تو ہمارے ملک اور ہمارے نظام عدل کی اس کہانی سے گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ ہمارے نظام انصاف کی تاریخ متنازع ترین عدالتی فیصلوں سے بھری ہوئی ہے، ایسے فیصلے جن کی نہ تو کہیں نظیر ملتی ہے اور نہ یہ فیصلے اس قابل ہیں کہ ان کی مثال دی جا سکے۔ ہماری عدلیہ اپنےانہی فیصلوں میں سے ایک فیصلے کے ذریعے ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھا چکی ہے اور دو وزرائے اعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج چکی ہے۔ ستم بالائے ستم سابق وزیراعظم کو پھانسی کا حکم سنانے والے عدالتی بینچ میں شامل ایک جج جو بعد میں چیف جسٹس بھی بنا اس نے تسلیم کیا کہ ہمارے اوپر بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اس جج نے مزید کہا کہ جج اپنی نوکریوں کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں۔ اس جج کے اعتراف جرم سے ہمارے نظام انصاف کے انصاف کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک ہی طرح کے کیسوں میں مختلف طرح کے فیصلے سامنے آتے رہے ہیں۔ کبھی ہمارے مسٹر جسٹس نظریہ ضرورت کا ہتھوڑا اٹھائے نظر آئے تو کبھی یہ مسٹر جسٹس نامعلوم دباؤ کے تحت نظریہ سہولت کاری کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ جسٹس اے آر کارنیلئس، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس بھگوان داس جیسے غیر مسلم جج یا انگلیوں پر گنے جانے والے چند دوسرے جج اگر نکال دئیے جائیں تو باقی سب جج یا تو نظریہ ضرورت والے بچتے ہیں یا نظریہ سہولت کاری والے۔ پچھتر سالوں میں ہمارے نظام انصاف کی فقط اتنی سی داستان ہے۔
نظریہ سہولت کاری کی تازہ ترین مثال سابق وزیراعظم عمران خان کے لئے پاکستان کے نظام انصاف کا فاسٹ ٹریک پر آ جانا ہے۔ ایسے کیس جن کی سماعت اور فیصلے کے لئے عمران خان کے مخالف سیاستدان سالوں سے انتظار کر رہے ہیں لیکن فیصلے تو دور کی بات ان کی سماعت تک نہیں ہو رہی جبکہ ان سے ملتے جلتے کیسوں میں عمران خان کو دنوں میں ان کی سہولت اور خواہش کے مطابق انصاف فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس کی کلاسک مثال پنجاب کے وزیراعلی کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی جانب سے ق لیگ کے ووٹ مسترد کئے جانے کی رولنگ کے متعلق فیصلہ ہے۔ اس کیس میں سب سے پہلے تو اتحادی جماعتوں کی جانب سے عدالتی بینچ پر اٹھائے جانے والے اعتراض اور فل کورٹ کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ عام طور پر عدلیہ کی یہ روایت رہی ہے کہ اگر کسی جج پراعتراض اٹھا دیا جائے تو وہ جج خود ہی کیس سے علیحدہ ہو جاتا ہے تاکہ کسی کو فیصلے پر اعتراض نہ ہو لیکن اس کیس میں نہ صرف تینوں ججوں نے ان پر اعتراض اٹھائے جانے کے باوجود کیس سننے پر اصرار کیا بلکہ فل کورٹ بنانے سے بھی انکار کر دیا۔اس کیس کا فیصلہ بھی توقع کے عین مطابق اور تضادات سے بھرپور ہے۔ اس سال سترہ مئی کو انہی ججوں پر مشتمل بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63A کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی مرضی کے بغیر ڈالے گئے ووٹ کاونٹ نہیں ہوں گے اور ایسا کرنے والے ارکان اسمبلی ڈی سیٹ بھی ہو جائیں گے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں تحریک انصاف کے پچیس ارکان کا ووٹ حمزہ شہباز کے وزیراعلی کے ووٹ سے مائنس کردیا گیا اور یہ ارکان ڈی سیٹ بھی کر دئیے گئے۔ اس فیصلے کا براہ راست فائدہ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو ہوا۔ بائیس جولائی کو ہونے والے وزیراعلی کے رن آف الیکشن میں سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کا حوالہ دے کر جب ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت کے برعکس ووٹ ڈالنے والے ق لیگ کے دس ارکان کے ووٹ مسترد کر دئیے گئے تو اسی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی دوبارہ تشریح کرتے ہوئے یہ دس ووٹ بحال کر دئیے اور اپنے نئے فیصلے میں لکھ دیا کہ اگر پہلے فیصلے میں ججوں سے اگر ججمنٹ میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اب اسے درست کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پہلے والے غلط فیصلے کا فائدہ بھی عمران خان کو دیا گیا اور اب اگر غلط فیصلے کی غلطی درست کر دی گئی ہے تو اس کا فائدہ بھی عمران خان کو ہی پہنچایا گیا ہے۔
اسی کیس سے ملتا جلتا کیس پچھلے سال ہونے والے چیرمین سینٹ کے الیکشن میں اجلاس کی صدارت کرنے والے سید مظفر شاہ کی رولنگ کا بھی ہے جس میں سید مظفر شاہ نے سید یوسف رضا گیلانی کو ڈالے جانے والے سات ووٹ مسترد کرکے صادق سنجرانی کو چیرمین سینٹ قرار دے دیا تھا۔ یہ کیس ڈیڑھ سال سے سپریم کورٹ کی نظر کرم کا منتظر ہے لیکن وزیراعلی پنجاب کے کیس کا چاردن میں تحریک انصاف کی منشا اور خواہش کے مطابق فیصلہ کر دینے والی عدالت کو چیرمین سینٹ کے انتخاب سے متعلق کیس پتہ نہیں کیوں نظر نہیں آ رہا جبکہ چیرمین سینٹ کی آدھی مدت اس کیس کا فیصلہ ہونے کے انتظار میں پہلے ہی گزر چکی ہے۔ پاکستان کا یہی عدالتی نظام ہے جس نے سابق صدر آصف علی زرداری کو بارہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا۔ آصف علی زرداری بعد میں ان تمام کیسوں سے باعزت بری بھی ہو گئے لیکن انہیں ان کیسوں میں کبھی ضمانت نہ مل سکی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں جب سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت کے کیس کی سماعت ہوئی تو اس جج نے فائلیں اٹھا کر پرے پھینک دیں کہ لے جاو کوئی ضمانت نہیں ملے گی۔ آج یہ جج تاریخ کے صفحات میں گم ہو چکا ہے اور اپنے وقت کے اس طاقتور ترین جج کو آج کوئی بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتا لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے بارہ سال جیل کی سلاخوں کے پئچھے ضائع کیوں کر دئیے گئے؟
اس وقت ہمارے ملک کی اعلی ترین عدالت کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی اہم آئینی کیس ہو، عمران خان سے متعلق کوئی کیس ہو یاعمران خان کی جماعت کے کسی رکن سے متعلق کیس ہو ان کیسوں کی سماعت تین چار مخصوص جج ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ سنئیر ججوں کو کسی بھی اہم کیس کے لئے بننے والے بینچ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ اب ایک عام آدمی جس کا ان معاملات سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا ہے کہ کیا سپریم کورٹ میں یہی تین چار جج رہ گئے ہیں جو ہر بینچ کا بھی حصہ ہیں اور ہر اہم فیصلہ بھی یہی تین چار جج کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے باقی ججوں کا اعتبار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ مخصوص ججوں کی جانب سے ایک جماعت اور اس کے رہنماوں کو مسلسل اور تیز ترین ریلیف دیا جانا اور ان کی منشا کے مطابق فیصلے دئیے جانے کی روش نے ان مخصوص ججوں کو تو متنازعہ بنایا ہی ہے اس سے سپریم کورٹ کی ساکھ پر بھی سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔
اعلی عدلیہ کی جانب سے آئین کی من مانی تشریح اور پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے منظور کئے جانے والے آئین کو تین چار مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ کے ذریعے بدل دئیے جانے کا پارلیمان کی جانب سے سنجیدگی سے نوٹس لیا گیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اسی بات پر زور دیا کہ آئین بنانے کا کام پارلیمان کا ہے اور پارلیمان کے اس اختیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اعلی عدلیہ آئین کی تشریح تو کر سکتی ہے لیکن اسے آئین میں تبدیلی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ آئین کی تشریح جیسے حساس معاملات کو درست رخ پر لانے کے لئے پارلیمان کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو جلد ہی اپنی سفارشات پیش کرے گی تاکہ جلد از جلد عدالتی اصلاحات کی جا سکیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت میں آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کے لئے بہت سی باتوں پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ان میں سے بہت سی چیزوں پر عملدرآمد کر بھی دیا گیا لیکن بہت سارے اقدامات ایسے تھے جن پر میاں نواز شریف کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے ان کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ ان کاموں میں سب سے اہم کام ایک آئینی عدالت کا قیام تھا جو آئینی امور کی تشریح کے لئے مخصوص ہوتی۔ اس عدالت کی تشکیل سینٹ کی طرز پر ہونی تھی اور چاروں صوبوں سے برابر کی تعداد میں جج لئے جانے تھے۔ آج اگر آئینی عدالت موجود ہوتی تو بہت سارے آئینی مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔ دوسرا اہم کام جو نہ ہو سکا وہ ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار تھا جس کے مطابق ججوں کی تعیناتی ایک پارلیمانی کمیشن کے ذریعے ہونی تھی۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اس پر عمل کر بھی دیا گیا لیکن پھر اس وقت کے چیف جسٹس اور میاں نواز شریف کے دباؤ کی وجہ سے انیسویں ترمیم کے ذریعے اس میں ترمیم کرکے ججوں کی تعیناتی کا اختیار جوڈیشل کونسل کو دے دیا گیا۔ دوسرے دو معاملات آرٹیکل 62 میں ترمیم اور نیب قوانین سے متعلق تھے جن میں ترمیم کرنے سے میاں نواز شریف نے کُلی طور پر انکار کر دیا۔ میاں نواز شریف کو بعد میں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور میاں نواز شریف کو آرٹیکل 62 کے تحت ہی نااہل قرار دیا گیا۔ نیب قوانین جنہیں ڈریکولا قوانین بھی کہا جاتا ہے پرویز مشرف نے اس وقت کی اپوزیشن کو قابو میں رکھنے کے لئے متعارف کروائے تھے، میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو بعد میں اسی نیب کو بھی بھگتنا پڑا۔ آج میاں نواز شریف بھی یہ سوچتے تو ہوں گے کہ وقتی سیاسی مفاد کو وسیع تر قومی مفاد پر فوقیت دینا کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اگر اٹھارویں ترمیم کے وقت میثاق جمہوریت کی اصل روح کے مطابق قانون سازی کر دی جاتی تو آج پاکستان کی تاریخ تھوڑی مختلف ہوتی۔ آئین اور جمہوریت جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے ایسا ہرگز نہ ہوتا۔
قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین پر مشتمل عدالتی اصلاحات کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی اپنا کام تو شروع کر چکی ہے لیکن یاد رہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ اتحادی جماعتیں اگر اپنے عزم میں پختہ ہیں تو پوشیدہ قوتیں بھی پوری طرح سرگرم ہیں اور حکومت کے عدالتی اصلاحات کے کام کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جائے گا۔ اگر پارلیمان یہ جنگ جیت سکی تو یہ ملک اور قوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ سول سپریمیسی کا خواب بھی اسی طرح ہی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس خواب کی تکمیل میں بہت سارے اگر اور مگر آتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کوئی معاشرہ کفر پرتو قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی پر نہیں اس لئے ہمیں اپنے معاشرے کو زندہ رکھنے کے لئے ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور ایسا نظام عدل تشکیل دینا ہو گا جس میں انصاف سب کے لئے برابر ہو اور بغیر کسی تفریق کے بلا تاخیر سب کو انصاف مہیا ہوسکے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...