آج – 25/نومبر 1909
نظم، غزل کے معروف ترین شعراء میں نمایاں شاعر” نذیرؔ بنارسی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نذیرؔ بنارسی کا شمار نظم اور غزل کے معروف ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ ٢٥ نومبر ١٩٠٩ء کو بنارس میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد بنارس کے مشہور طبیب تھے ۔ نذیر بھی طبابت کے اس آبائی پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ شاعری میں نذیر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کے موضوعات اپنے آس پاس بکھری ہوئی زندگی کے حقیقی رنگوں سے چنے۔ انہوں نے اپنے وقت کی اہم سیاسی، سماجی ،علمی اور ادبی شخصیات پر طویل طویل نظمیں بھی لکھیں۔ نذیر کے شعری مجموعے ’گنگ وجمن‘ راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے‘ ’جواہر سے لال تک‘ ’ غلامی سے آزادی تک‘ اور ’کتاب غزل‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ نذیر کی شاعری ایک طور سے ان کے عہد کی سیاسی ، سماجی اور تہذیبی اتھل پتھل کا تخلیقی دستاویز ہے۔ ٢٣ مارچ ١٩٩٦ء کو بنارس میں انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر نذیرؔ بنارسی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
آس ہی سے دل میں پیدا زندگی ہونے لگی
شمع جلنے بھی نہ پائی روشنی ہونے لگی
—
سامانِ سفر پیارے کیا ساتھ نہ لوں کیا لوں
اک شب کا مسافر ہوں کیا چھوڑنا کیا رکھنا
—
اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے
—
ایک دیوانے کو جو آئے ہیں سمجھانے کئی
پہلے میں دیوانہ تھا اور اب ہیں دیوانے کئی
—
بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
—
خود مل گئے اس بت سے مجھے کر کے نصیحت
واعظ بھی خدا ہی کے سنوارے نکل آئے
—
جی میں آتا ہے کہ دیں پردے سے پردے کا جواب
ہم سے وہ پردہ کریں دنیا سے ہم پردا کریں
—
وہ گھر آئے تھے نذیرؔ ایسے میں کچھ کہنا نہ تھا
شکر کا موقع تھا پیارے تو نے شکوا کر دیا
—
دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں
لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں
—
عمر بھر کی بات بگڑی اک ذرا سی بات میں
ایک لمحہ زندگی بھر کی کمائی کھا گیا
—
وہ آئنہ ہوں جو کبھی کمرے میں سجا تھا
اب گر کے جو ٹوٹا ہوں تو رستے میں پڑا ہوں
—
یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
مری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی
—
ہوئے مجھ سے جس گھڑی تم جدا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مری ہر نظر تھی اک التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
—
اور تو کچھ نہ ہوا پی کے بہک جانے سے
بات مے خانے کی باہر گئی مے خانے سے
—
تمہیں نے دل کے اندھیرے کو دی ضیائے امید
تمہیں غریب کے گھر کا دیا بجھا کے چلے
—
ہمیں تو اس لب نازک کو دینی تھی زحمت
اگر نہ بات بڑھاتے تو اور کیا کرتے
—
شاید کہ نذیرؔ اٹھ چکا اب دل کا جنازہ
اب سانس کے پردوں میں وہ کہرام نہیں ہے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
نذیرؔ بنارسی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ