ملا حلوائی، کیفے ذائقہ،الحسن کافی ھاؤس اور کیفے وزیر کے خوش ذائقہ کھانے دلی اور اودھ کے کھانوں اور مٹھائیوں کو مات دیتے تھے، کیفے وزیر میں جو دن میں بائیس گھنٹے کھلا رھتا تھا اور نہایت سستے داموں چائے، سموسے، چکن تکا اور نہاری وغیرہ ملتی تھی،ایک پیالی چائے عوض آپ اپنے دوستوں کے ساتھ دو گھنٹے بیٹھ کر جمیل الدین عالی،عصمت چغتائی،کرشن چندر، جیلانی بانو، جوش اور اداس نسلوں کے خالق عبدللہ حسین کے علاوہ رونا لیلی،ناھید اختر، خورشید انور، ندیم وحید مراد اور شمیم آرا پر بحث و مباحثہ کر سکتے تھے۔
ناظم آباد کلب اھل ناظم آباد کا ریلیکسییشن پوائنٹ تھا اور پھر غالب لائبریری تھی جس میں تین ھزار سے ذیادہ کتابیں تھیں اور جس کو حبیب بنک نے فیض احمد فیض اور مرزا ظفر الحسن کی کوششوں سے بنایا گیا تھا ، اس زمانے میں یہ ادبی تقریبات کا مرکز تھی۔
فلمی تفریحات کے لئےریلیکس سینما، نایاب سینما، شالیمار سینما لبرٹی سینما تھے جہاں شرفائے ناظم آباد اپنی فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے جاتے، میٹنی شوز میں گھریلو خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے ھاؤس فل ھوتا، لڑکیاں بالیاں اپنی پڑوس اور کالج کی سہیلیوں کے ساتھ بے خوف خطر فلمیں دیکھتیں مگر کبھی کسی قسم کی بیہودگی یا خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت سننے میں نہیں آتی تھی۔
ان دنوں گرمیوں میں گھر کے دالان صحن اور چھتوں پر سونے کا عام رواج تھا کھڑکیاں کھلی رکھی جاتیں جن سے فراٹے بھرتی ھوا پورے گھر کو فیضیاب کرتی چوری چکاری،اسٹریٹ کرائمز ڈاکے کلاشنکوف جیسی چیزوں کا نہ ڈر تھا اور نہ کوئی تصور تھا۔
پھر محرم آتا تو زیڈ اے بخاری اور رشید ترابی کی مجلسوں اور شہدائے کربلا کے اذکار سے ناظم آباد کی گلییوں میں سوگواروں کے جھمگھٹے لگ جاتے سبیلیں لگتیں لڑکے لڑکیاں سیاہ لباس پہنے ایک گھر سے دوسرے گھر مجالس میں شریک ھونے جاتے۔اور مجال ھے کوئی شیئعہ سنی کے اختلاف کی بات بھی سنی گئی ھو۔
چراغوں کا دھواں ھوگئے ھیں، وہ زمانے رفتگاں ھو گئے ھیں، آج یہ سب باتیں ایک خواب سا لگتی ھیں مگر جو لوگ ان سنہرے برسوں میں ناظم آباد کی اس گولڈن لائف کا حصہ رھے ھیں وہ آج بھی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس یادگار دور کو یاد کرتے ھیں اور گنگناتے ھیں کہ قصہ ناظم آباد مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ!!!
کیفے ذائقہ کی نہاری بہت مشہور ہوتی تھی لوگ کئی کئئ میل دور سے اسکو کھانے آ تے تھے ملاحلوائ کی کھوپرے کی میٹھائی جو وہ پیلے رنگ مین بناتے تھے بہت مشہور تھی آج بھی ملا حلوائی کی دوکان موجود ہے ۔ اسکے برابر مین ملا احمد کے تکےکی دوکان تھی جسکا تکہ سب سے زیادہ مشہور تھا کیفے ذائقہ کہ برابر ربڑی ملا کرتی تھی جو بہت مزے کی ہوتی تھی اس سے دو چار دوکان آ گے احمد سویٹ تھی جو بعد مین فریش ویل کے نام سے موجود تھی احمد سویٹ کے کالے گلاب جامن بہت ہی عمدہ ہوتے تھے اسکے سامنے روڈ پر مشہور دوکانوں میں فنسی بیکری جسکے پاپے بہت مشہور تھے یہ آ گرے والوں کی بیکری تھی جو بیکری کے کام مین ماہر تھےاس کے ساتھ ہی باٹا شوز کی دوکان آج بھی موجود ہے بچپن میں ہم سب دوستوں نے باٹا کے جوتے ہی پہنے ہیں ایک زمانے مین باٹا کی کالی چپل نتھنوں والی بہت مشہور تھی ۔ بلو ربن بیکری معروف سویٹ قلبی فالودھے کی دوکان یہ سب ناظم آباد چورنگی کی مشہور دوکانوں میں سے تھیں ہمارے ایک دوست عمران کی وایٹ روز کے نام سے ایک دوکان جو اسکول یونیفارم کی تھی آج بھی موجود ہے سب سے پہلے مسٹر برگر بھی ناظم آباد چورنگی پر کھلا کراچی بروسٹ بھی سب سے پہلے یہاں آ یا دہلی مسلم کباب ہاؤس کو کون نہیں جانتا اسکے دھاگہ والے کباب بہت ہی مشہور ہے سب سے پہلے یہ ہوٹل بھی چورنگی مین ہی کھلا جو آج تک موجود ہےناظم آباد چورنگی کو ہم بھول ہی نہیں سکتے ہیں یہ ہماری بچپن کی یادوں کا مرکز ہے جب سے کہاں انڈر گراؤنڈ مارکیٹ بنی تھی اور کافی عرصے تک روڈ متاثر ہوئ تھی جب سے اس مارکیٹ کا زوال آیا تھا یہاں پر ایک کھلونے کی دوکان ہانگ کانگ اسٹور ہوتی تھی اسکول کے بیگوں کی بھی یہاں کافی دوکانیں تھیں صدر کے بعد ناظم آباد چورنگی کی مارکٹ بڑی مارکیٹوں میں سے ایک تھی یہ ہم سب کی یادوں کا مرکز ہے جسکو ہم کبھی بھی بھلا نہیں سکتے۔
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...