۱۰ جولائی ۲۰۲۳ کو لاہور سے عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر نذیر قیصر نے فون کیا اور اُن پر لکھی ہوئی کتاب “ لیجنڈ نذیر قیصر : ایک عہد ساز شاعر” کی تقریبِ رُونمائی جو ۱۳ جولائی کو اکادمی ادبیات اسلام آباد میں ہونی تھی میں مجھے بطورِ مہمانِ خصوصی دعوت دی – جسے میں نے بصد شکریہ قبول کیا اور میں نے ساتھ ہی عرض کیا کہ ۱۲ جولائی کو میرے کالموں اور مضامین کی کتاب “ چراغِ افکار” کی بھی تقریبِ رُونمائی “ ادارہ فروغِ اردو زبان اسلام آباد” میں ہے اور آپ کی شمولیّت میرے لیے باعثِ اعزاز ہو گی۔ نذیر قیصر پر لکھی جانے والی کتاب میں ُاُن کی شاعری پر نامور شاعروں اور ادبی نقّادوں کی آراء اور مضامین شامل ہیں۔ فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، احمد فراز، ناصر کاظمی ، بانو قدسیہ، اشفاق احمد،حبیب جالب، پروین شاکر، صوفی تبسّم، امرتا پریتم، جیلانی کامران، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ، مرزا ادیب اور کئی دیگر ادبی زعماء کی آراء کتاب میں شامل ہیں- کتاب میں نذیر قیصر پر لکھے گئے اردو کے علاوہ انگریزی کے مضامین بھی شامل ہیں۔اِس کتاب کو جے فے غوری نے مرتّب کیا ہے۔ نذیر قیصر کی چند غزلیات کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی شاملِ کتاب ہےجو Kristina M. Rogersنے کیا ہے۔ طاہر بلوچ نے اِس تقریب کا اہتمام کیا۔ تقریب میں ممتاز شاعروں ، افسانہ نگاروں اور ادبی دانشوروں نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت ممتاز افسانہ نگار شاہد حمید نے کی۔ ڈاکٹر وحید احمد اور نسیم عثمانی نے اس کتاب کے حوالہ سے سیر حاصل اور فکر انگیز گفتگو کی۔ ڈاکٹر عرفان الحق نے “نذیر قیصر کا جہانِ جمالیات” کے عنوان سے نہایت فکر انگیز اور بصیرت افروز مضمون پڑھا۔ صدرِ تقریب شاہد حمید کا مضمون بھی ادبی چاشنی سے بھرپُور تھا۔ راقم نے نذیر قیصر کی شاعری کو زندگی کی تیرہ و تار راتوں میں صبح کی کرن گردانتے ہوۓ اُنہیں “روشنی کا شاعر” قرار دیا اور اُن کے شاعرانہ فن اور فکر و نظر پر مفّصل روشنی ڈالی۔ آخر میں نذیر قیصر نے خطاب میں اپنے نظریۂ شاعری پر فکر انگیز گفتگو کی- اردو اور پنجابی کلام سنا کر سامعین سے خُوب داد وصول کی۔
نذیر قیصر نے اپنے دستِ مبارک سے مجھے یہ کتاب بطورِ تحفہ دی اور اِن یادگار الفاظ سے نوازا۔ “ اپنے نہایت محترم اور عزیز دوست اور نظریاتی ہمسفر جناب مقصود جعفری کی نذر۔ محّبت کے ساتھ”۔
نذیر قیصر کے تین شعری مجموعے شائع ہو چُکے ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ “ آنکھیں ، چہرہ اور ہاتھ “ جس کے متعلق شاعرہ پروین شاکر لکھتی ہیں “ آنکھیں، چہرہ، ہاتھ میری پسندیدہ کتاب ہے جو میرے سرہانے
پڑی رہتی ہے۔ نرم گفتاری اور محبّت کرنا میں نے نذیر قیصر سے سیکھا ہے”- اس کتاب کو احمد فراز نے بھی سراہا ہے۔ “ محبّت میرا موسم ہے” بھی اُن کا شعری مجموعہ ہے ۔ کتاب کا نام ہی بتاتا ہے کہ نذیر قیصر “ شاعرِ محبّت” ہیں اور وہ نفرتوں کا تاجر اور سوداگر نہیں بلکہ محّبت کا سفیر ہے۔
بنیادی طور پر نذیر قیصر غزل کا شاعر ہے اور اُس نے غزل کے کلاسیکل آہنگ اور اساتذہ کے رنگ کو ترک نہیں کیا بلکہ پُرانی اصلاحات و تلازمات کو نئے معنی دیے اور جدید غزل کے گیسو سنوارے۔
نذیر قیصر کا دل دردِ انسانیّت سے معمور و مخمور ہے۔ وہ انسانوں کی مذہبوں، مسلکوں، فرقوں، قوموں اور جماعتوں میں تفریق اور تقسیم کے قائل نہیں۔ وہ وحدتِ انسانیّت کے پرچارک اور علمبردار ہیں۔ اُن کا شعری لہجہ روایت و جدّت کا حسین سنگم ہے۔ وہ ادب میں جدّت کے نام پر ادبی بدعت کا شکار نہیں ہوۓ۔ اُن کی زبان میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ اقبال ، فیض احمد فیض اور احمد فراز کی زبان ہے لیکن اُنہوں نے اسلوبِ فن میں ایک نئی طرز ایجاد کی ہے اور الفاظ کو نئے انداز سے برتا ہے۔ اُن کی آواز اُن کی اپنی آواز ہے۔اُن کا شمار بقول احمد ندیم قاسمی جدید غزل کے بانیانِ میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے جدّت کے نام پر شاعری کی زبان کو بگاڑا نہیں بلکہ سنوارا اور نکھارا ہے۔ اُن کے اشعار میں انگریزی زبان کے معروف شاعر جان ڈن( John Donne) کی طرح Conceit کا استعمال دکھائی دیتا ہے۔ جان ڈن اپنی محبوبہ کو فرطِ مسّرت میں O; my Americaکہہ کر پکارتا ہے جو دُور از کار تشبییہ ہے۔ جب میر تقی میر محبوبہ کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی قرار دیتے ہیں تو یہ واضع اور عام فہم فطری تشبہیہ ہے لیکن جب نذیر قیصر “ رات کا پیالہ “ کی تشبییہ استعمال کرتا ہے تو وہ Conceit ہے جسے سمجھنے کے لیے تدّبر اور تفکّر کی ضرورت ہے کیونکہ اِس کا مفہوم سطح پر نہیں بلکہ تہہ میں ہے۔ نذیر قیصر کے کلام کی ایک بڑی خُوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے فیض احمد فیض کی طرح دھیمے شعری لہجہ میں تلمیحات و تشبیہات کو نئے معنی دیے اور نئے پیراہن پہناۓ۔ اُن کا احتجاج ذاتی نہیں اجتماعی ہے۔ پیرایہء اظہار میں جدّت بھی ہے، شدّت بھی اور نُدرت بھی۔ تنوّع بھی ہے اور انفرادیت بھی۔ مرزا غالب نے کہا تھا
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
در اصل یہی اندازِ بیاں ہی تو ہے جس کی انفرادیت سے ہی ہم میر، غالب، اقبال اور فیض کے کلام کو پہچان لیتے ہیں۔ بات اندازِ بیان کی ہے۔بقولِ سیف الدین سیف
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
غزل قافیہ پیمائی نہیں بلکہ وجدان آرائی ہے۔ یہ عورتوں سے گفتگو نہیں بلکہ دشت میں ہرن کی وہ چیخ ہے جب شکاری کتّے اُسے گھیر لیتے ہیں اور اُس پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اُس فریاد جنگل کے خاموش ماحول میں ارتعاش ِدرد پیدا کر دیتی ہے-اِسی طرح شاعر بھی زمانے کی چیرہ دستیوں اور معاشرے کی ناانصافیوں پر نالہ کناں ہوتا ہے- بقولِ میر تقی میر
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب آتی ہے نظر اک مصرعِ تر کی صُورت
نذیر قیصر شعر براۓ شعر نہیں کہتا۔اُس کی شاعری میں جذبۂ محبّت اور آرزوۓ وصال کے ساتھ ساتھ مقصدّیت بھی ہے۔
جدید شاعری میں متشاعروں نے جو دولتِ الہام سے عاری ہیں نے ابہامی شاعری کو جنم دیا جو زوالِ شاعری کا شاخسانہ ہے۔ نذیر قیصر کی شاعرانہ علامتیں غیر فطری اور غیر شاعرانہ نہیں۔ روایتی انداز میں ہجر و وصال کی داستانِ غم سے جداگانہ اندازِ شاعری ہے جسے پڑھ کر کیف و کیفیّت اور حیرت و استعجاب ہوتا ہے۔ نئے نئے معانی دریافت ہوتے ہیں۔ وہ فطرت کا نبّاض اور پرندوں کا دلدادہ ہے۔اُس کی شاعری میں رومانویت اور حسن پرستی ہے جو ہر شاعر کا فطری وصف ہے۔
مگر وہ روایتی شاعروں کی طرح خیالی محبوبۂ طناّز کی زُلفِ گرہ گیر کا اسیر نہیں۔وہ بقولِ علامہ اقبال “ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں” کے تتبع میں زندگی کی تلخیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔اُس کی شاعری کے استعارے اور علامتیں چراغ، بارش، سمندر، آنکھیں، ہوا، آئینہ ، خوشبو، بادل، رات ، پیالہ اور پرندے خاص پس منظر کی نئی علامتیں ہیں۔اُس کی آواز پہچانی اور مانی جا رہی ہے مگر مجھے “ صبحِ الہام” کے مُصنّف حیدر دہلوی کا شعر یاد آ رہا ہے
ابھی ماحول عرفانِ ہنر میں پست ہے حیدر
یکا یک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی
نذیر قیصر آورد کا نہیں آمد کا شاعر ہے۔وہ نظریاتی، بے باک، نڈر اور انقلابی شاعر ہے
اُس کی شاعری آماجگاہِ طلسم ہے۔اشعار میں گہرائی اور گیرائی ہے۔نذیر قیصر بڑا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا انسان بھی ہے۔ وہ رنگ و نسل، ذات پات، اور مذہب و مسلک کے فتنوں، مناقشوں اور گُروہ بندیوں سے بالاتر ہے۔وہ صلح جُو، امن پسند، انسان دوست، عدل و انصاف کا داعی، فطرت شناس، ندیمِ کائنات اور صوفی منش انسان ہے۔ وہ کم آمیز و مہذب و معتبر انسان ہے۔ وہ نرم گفتار بھی ہے، صاحبِ اسرار بھی ہے ،باوقار بھی ہےاور خود دار بھی ہے۔وہ یوں دست بہ دعا ہے
اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے
یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے
اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر میرے پاؤں کے برابر کر دے
جیسے مذہب میں عہد نامۂ قدیم و عہد نامۂ جدید ہے ، شاعری میں نذیر قیصر کی شاعری “ عہد نامۂ جدیدِ محبّت” ہے۔ یہ ایک حیرت کدہ ہے۔ شاعرِفطرت ولیم ورڑزورتھ ( William Wordsworth) کی طرح نذیر قیصر بھی درختوں، دریاؤں ، بادلوں ، پرندوں اور مظاہرِ فطرت سے عشق کرتا ہے۔تھامس ہارڈی( Thomas Hardey) انسان اور فطرت کو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار قرار دیتا ہے جبکہ نذیر قیصر کائنات اور انسان کو باہم شِیر و شکّر اور دوست قرار دیتا ہے۔ وہ مہاتما بدھ کی طرح گیانی ہے۔وجدانی اور عرفانی ہے۔ فطرت کا نبّاض ہے اور پُکار اُٹھتا ہے
کچھ پوچھتی ہیں پیڑوں کی سر سبز ٹہنیاں
کچھ کہہ رہے ہیں راہ میں پتّے گرے ہوۓ
اُس کی ذہنی کیفیّت اور طلسماتی ذات میں منیر نیازی کی طرح عجیب وسوسے اور ما فوق الفطرت اور ما بعد الطبیعاتی احساسات بھی ملتے ہیں۔ کہتے ہیں
قیصر یوں لگتا ہے جیسے اپنے ساتھ
اور بھی کوئی ذات لئے پھرتا ہوں
اِس سلسلے کے دو مزیداشعار ملاحظہ ہوں
یوں ڈر رہا ہوں شام سے خالی مکان میں
جیسے زمین پر کوئی میرے سوا نہ ہو
کون پوشیدہ ہے میری روح میں
کس نے میرا جسم ہے پہنا ہوا
نذیر قیصر مروجّہ معنوں اور روایتی روش کی رُو سے مذہبی انسان یا صُوفی نہیں ہے۔وہ عرفانی ، روُحانی اور انسانی معنوں میں صُوفی ہے اور ہم اُسے جدید صُوفی بھی کہہ سکتے ہیں جس کا خانقاہی نظام سے کوئی تعلّق نہیں۔ شعر ملاحظہ ہو
دُنیا اچھّی لگتی ہے، رب اچھّا لگتا ہے
اچھّی آنکھوں والوں کو سب کچھ اچھّا لگتا ہے
پرانی غز ل پر جمالیات اور تصوف کا رنگ غالب ہے۔پرانی غزل میں محبوب شرمیلا،بے وفا، سنگدل، عہد شکن، پردہ دار، بے نیاز اور ظالم نظر آتا ہے۔ اکثر شاعر خیالی محبوبہ کے تصّور میں مرزا غالب کی طرح سوختہ جاں دکھائی دیتے ہیں۔ غالب کہتے ہیں
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوۓ
ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔سماجیات، نفسیات اور ادبیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زمانے کے تقاضوں کے زیرِاثر تصوّرِ محبّت اور اندازِ محبّت بدل گیا ہے۔ نذیر قیصر کی شاعری میں تخیلاتی محبوبہ نہیں ہے۔ وہ افلاطونی عشق میں مُبتلا نہیں ۔ میر تقی میر افلاطونی عشق کے نمایندہ شاعر تھے ۔ کہتے ہیں
دُور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
حسرت موہانی بھی افلاطونی عشق میں مبتلا تھے ۔ کہتے ہیں
دیکھنا بھی تو اُنہیں دُور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حُسن کو رُسوا کرنا
نذیر قیصر کا عشق حزنیہ نہیں بلکہ لارڈ بائرن اور احمد فراز کی طرح رجائیہ ، نشاطیہ اور انبساطیہ ہے۔ احمد فراز نے کہا تھا
تُو خدا ہے ، نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
نذیر قیصر کربِ ہجر سے گریز پا لذّتِ وصل کا شاعر ہے۔ اِسضمن میں اُسکے چند اشعار سنیے اور سر دُھنیے
اُس نے ہاتھوں پہ ہونٹ کیا رکھّے
آ گئی ساری جان ہاتھوں میں
تم میں جاگ رہا ہوں میں
مجھ کو خود میں سونے دو
آؤ لپٹ کر سو جائیں
جو ہونا ہے، ہونے دو
مصطفیٰ زیدی کا شعری مجموعہ” کوہِ ندا” اُسکی محبوبہ “شہناز “ کی داستانِ وصال ہے اوروہ اُسے “بستر کی شکن شکن “ میں شریکِ جسم و جاں پاتے ہیں- نذیر قیصر بھی کہتے ہیں
وہ دریچے میں کھڑی اچھّی لگی
ہار بستر پر پڑا اچھّا لگا
نذیر قیصر نے قدیم شعراء کے تتبع میں محبوبہ کے لیےتذکیر کا صیغہ استعمال کیا ہے اور کہیں کہیں تانیث کا صیغہ بھی استعمال کیا ہے-
شاعری میں “ غبار”آمریت و فسطائیت اور گردشِ زمانہ کی علامت ہے-بقول بیدل دہلوی
ہر کجا رفتم غبارِ زندگی درپیش بُود
یارب این خاکِ پریشان از کجا برداشتم
نذیر قیصر نے بھی“ غبار” کو نئے معنی عطا کیے۔آخر میں اُن کی ایک رجائی اور انقلابی غزل سے تین اشعار آپ کے ذوقِ شاعری کی نذر
حصارِ جبر سے سورج نکلنے والا ہے
نظر اٹھاؤ کہ منظر بدلنے والا ہے
پسِ فصیلِ خموشی صدائیں کیسی ہیں؟
سُنو کہ درد کا چشمہ اُبلنے والا ہے
کہو کہ پہلی کرن تیغ بننے والی ہے
کہو کہ آخری تارا نکلنے والا ہے
۱۸جولائی ۲۰۲۳
اسلام آباد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...