(Last Updated On: )
ریاست جموں و کشمیر کے دور حاضر کے اُردو افسانہ کے تناظر میں بات کی جائے تو وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف افسانہ نگار نذیر جوہر سر فہرست دکھائی پڑتے ہیں ۔ نذیر جوہر نہ صرف جموں و کشمیر میں اس حوالے سے مقبول ہیں بلکہ اُردو افسانے کے حوالے سے انہیں پورے ملک ہند میں اپنا ایک منفرد اور مقام حاصل ہے ۔ آپ متواتر اور مسلسل کئی دہائیوں سے اُردو افسانے لکھتے چلے آرہے ہیں اور اُردو زبان کے تئیں آپ کی محبت اور خدمات کوئی ڈھکی چھُپی بات بھی نہیں ہے ۔ آپ ایک معروف ناول نگار بھی ہیں اور اب تک ان کے کئی ناول بھی چھپ چکے ہیں ۔ آپ ایک اسکرین پلے رائٹر بھی ہیں اور ان کے بہت سارے ٹیلی سیرئیل بھی ٹیلی کاسٹ ہوچکے ہیں ۔ آپ کی تقریبا” نصف درجن تصانیف بھی منصہ شہود پر آچکی ہیں جو آپ کی علمی و ادبی بصیرت کا برملا اظہار اور اعتراف ہے ۔ آپ بہت عمدہ لکھتے ہیں ، آپ کا لکھنے کا انداز بڑا خُوبصورت ہے ۔ آپ کی زبان بڑی دلچسپ اور لطیف ہے ۔ سادہ اور عام فہم زبان برتتے ہیں اور الفاظ کو موتیوں کی طرح زبان کی مالا میں پرو لیتے ہیں ۔ پھر ماشااللہ ، تحریر بس دیکھتے ہی بنتی ہے ۔
پچھلی کئی دہائیوں سے آپ کے تحریر کردہ اُردو افسانے بڑے مقبول ہو رہے ہیں اور برابر ان کی نگارشات کی سراہنا بھی کی جارہی ہے ۔ ابھی حال ہی میں ان کا ایک تازہ افسانہ ” دشا ” شایع ہوا ، جس کو بڑا پسند کیا گیا اور جس کی خوب پذیرائی بھی کی گئی ۔ اُردو افسانہ ” دشا ” دراصل انگریز دور کی ایک پُردرد کہانی ہے جس میں ایک کم سن معصوم لڑکی ” دشا ” کے درد و کرب کو بیان کیا گیا ہے ، جس کے باپ دھنپت لال کو دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزی فوج بیگار کےلئے اُٹھا کر لے جاتی ہے اور ننھی دشا اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتا ہوا دیکھتی ہے ۔
ایک روز انگریز فوج اور پولیس کی ایک ٹکڑی دندناتے ہوئے کِشن گڑھ گاوں میں داخل ہوگئ ۔
گاوں کے مکھیا کو طلب کیا اور پھر گاوں کے جوانوں کو جمع کرکے بیگار کےلئے اپنے ساتھ لے کر گئی ۔ ان دنوں بیگار عام تھی ۔ فرہنگی فوج اور پولیس ہندوستانی جوانوں کو زبردستی بیگار کےلئے لے کر جاتی تھی اور ساتھ سمندر پار انہیں میدان جنگ کے محاذ پر بھیجتی تھی ۔ ان سے بیگار کا کام لیتی تھی اور جبری محنت مشقت کراتی تھی ۔
تھوڑا بہت معاوضہ بھی دیتی تھی مگر ان جوانوں کی جان کے لالے پڑ جاتے تھے۔ عالمی جنگ عروج پر تھی سو ان جوانوں کی صحیح سلامت گھر واپسی کا لفظ ایک ایسا سوالیہ نشان تھا کہ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بس دعائیں تھیں کہ دعاؤں پر ہی اکتفا ہوتا تھا ۔
اُس دن ننھی گڑیا دشا میجر مائیکل کے پاوں پڑی تھی گڑگڑائی تھی، زار و قطار روئی تھی اور اپنے پتا دھنپت لال کی رہائی کی دہائی دینے لگی تھی جسے فرہنگی فوج گاوں کے دیگر بیس بائیس جوانوں کے ساتھ بیگار کےلئے لے کر جارہی تھی۔
” میرے باپو کو چھوڑ دو ۔ پلیز میرے باپو باپو کو چھوڑ دو ۔ ” وہ اپنے ننھے سے ملائم خوبصورت ہاتھ جوڑے التجا کررہی تھی، جبھی میجر مائیکل ڈیسوزا تنگ آکر کرخت لہجے میں دہاڑا تھا۔
” ارے اس بچہ کو ہٹاو یہاں سے ۔ ” میجر مائیکل نے تحکمانہ لہجے میں گاوں کے ان پڑھ مُکھیا کالے رام کو مخاطب کیا تھا ۔
” جی شرکا ااااار ۔۔۔ ۔” کالے رام نے نسوار کی ایک گندی پچکاری زمین پر مارتے ہوئے جواب دیا تھا اور دشا کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے پرے کرنے کی کوشش کی تھی، جبھی دشا اسے جل دے کر نکل بھاگتی ہوئی میجر مائیکل کی طرف بھاگی تھی اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ پڑی تھی ۔
” میرے باپو کو چھوڑدو شاب ۔۔۔۔ میرے باپو کو چھوڑدو ۔”
دشا گڑگڑانے لگی تھی۔
” اری جااااو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔” مائیکل ڈیسوزا پھر دہاڑتا ہوا اپنی ٹانگیں چھڑانے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔
” نہیں جاتی ۔۔۔۔ پہلے میرے باپو کو چھوڑ دو ۔” دشا نے کہتے ہوئے میجر ڈیسوزا کی ٹانگوں کو اور زور سے کس کر پکڑ لیا تھا ۔ قریب ہی کھڑی ایک فوجی گاڑی میں سوار دشا کا باپ دھنپت لال پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ دشا میجر کی ٹانگیں پکڑ کر گڑگڑا رہی تھی ۔ منتیں کر رہی تھی، آہ و زاری کررہی تھی۔قریب ہی اس کی ماں رادھیکا دیوی مبہوت سی کھڑی اپنے ہاتھ مل رہی تھی ۔ دھنپت لال گاڑی میں بیٹھا یہ دلسوز منظر دیکھ کر انگاروں پر لوٹ رہا تھا، تڑپ رہا تھا اور بل کھا رہا تھا ، جبھی کرنل ڈیسوزا نے اپنی مظبوط ٹانگوں کو اس زور سے جھٹکا کہ ننھی دشا دور جا کر گری ۔
یہ اس افسانے کا ایک کربناک منظر ہے جسے تخلیق کار نے نہایت ہی استوار انداز سے افسانے میں برتا ہے اور ایسی منظر کشی سے نوازا ہے کہ پورا منظر ایک فلم کی طرح سے نگاہوں نگاہوں کے سامنے سے گزُر جاتا ہے۔ اس کے بعد کہانی میں جو جذباتی مناظر قلمبند کئے گئے ہیں ، وہ سب دیکھ کر کلیجہ مُنہ کو آتا ہے ۔ فرہنگی فوج دشا کے پِتا دھنپت لال کو زبردستی بیگار کےلئے لے کر جاتی ہے اور سمندر پار دوسری جنگ عظیم کے ایک محاذ پر تعینات کرتی ہے ۔ دشا اور اس کی ماتا بے یارو و مددگار رہ جاتے ہیں ۔
اس کے بعد معصوم ننھی دشا کی وہ بیتابی اور کرب دیکھنے لائق ہوجاتا ہے ، جو وہ اپنے پتا شری کے خط کے انتظار میں دکھاتی ہے ۔ وہ اکثر گاوں کے ڈاکیہ بابو کی ایک گھسی پٹی کھٹ کھٹ سائیکل کے آگے پیچھے بھاگتی رہتی ہے جو اکثر دشا کے گھر کے نذدیک سے گزرتا رہتا ہے ۔ وہ اکثر چیختی چلاتی رہتی ہے ۔
” اے چٹھی بابو ۔۔۔۔۔ باپو کی چِھٹی آئی ہے کیا ۔؟
وہ ڈاکیہ بابو کے کھٹ کھٹ سائیکل کی زکام زدہ گھنٹی کی ٹرن ۔۔۔ ٹرررن کی آواز سنتے ہی سر پٹ بھاگتی ہوئی گھر سے باہر نکل آتی رہتی ہے اور چٹھی بابو سے اپنے پتا کے خط کا تقاضا کرتی رہتی ہے ۔ ” نہیں آئی ہے مُنیا ۔ ” ڈاکیہ بابو اسے ہر بار مایوس کرتا ہے اور دشا کے چھوٹے سے من میں اضطراب کا موجیں مارتا ہوا ایک سمندر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ وہ مہینوں ایسی ہی درد و کرب کی کیفیات سے گزُر جاتی ہے اور پھر ایک دن ڈاکیہ بابو اسے چِٹھی کی جگہ ایک تار تھما دیتا ہے اور بڑی احتیاط سے اسے اس کے باپو کے مرنے کی خبر سناتا ہے ۔ یہ خبر دشا اور اس کی ماتا رادھیکا کو بڑی تکلیف پہنچاتی ہو اور ان پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑتا ہے ۔
یہ ایک ایسی جذباتی کہانی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کہانی کو بڑی تکنیک اور مہارت سے بُنا گیا ہے ۔ جذبات کو انتہا تک ابھارنے میں مصنف نذیر جوہر کامیاب نظر آتے ہیں ۔ کرداروں کو تخلیق کرنے میں مصنف نے وہ مہارت دکھائی ہے کہ قاری عش عش کر اُٹھتا ہے ۔ تین کرداروں کی فقط اس کہانی نے کہانی کو کتنا دلچسپ اور پُر اثر بنا دیا ہے کہ یہ ایک پورے دور کی کہانی نظر آتی ہے ۔ اس کہانی میں انگریز دور کے ظلم و جبر اور محکوم عوام کی بے بسی کو کس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ۔ کرداروں کی ساخت کو کس خوبصورتی اور مہارت سے تراشا گیا ہے کہ قاری انگشت بدنداں رہتا ہے اور کہانی کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے ۔ دشا ، رادھیکا اور ڈاکیہ بابو کے کردار کتنے متحرک اور جاندار ہیں کہ سامنے سے ان کے گھومنے پھرنے کا گُماں گزرتا ہے ۔ یہ مصنف کی ذہانت اور کاریگری کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے جو نذیر جوہر جیسے تخلیق کار ہی سر انجام دے سکتے ہیں ۔
افسانے میں جو منظر نگاری پیش کی گئی ہے وہ لاجواب ہے ۔ میجر مائیکل کا دشا کے پتا دھنپت لال کو گرفتار کر کے لے جانے اور اس دوران معصوم دشا کی آہ وزاری اور حالت زارکی تصویر کشی بڑے غضب کی ہے ، خاص کر اس وقت دشا اور میجر مائیکل کی بات چیت اور مکالمے درد و کرب کا وہ منظر پیش کرتے ہیں کہ قیامت سے پہلے کی بس ایک قیامت ہوجاتی ہے ۔ اسی دوران دشا کی ماتا رادھیکا کی بے بسی اور پتا دھنپت لال کا گاڑی میں بیٹھ کر یہ سب دیکھنا اور درد و کرب سے مچل اُٹھنا بڑا درد ناک منظر پیش کرتا ہے اُدھر اس دوران گاوں کے ان پڑھ مکھیا کا کچھ نہ کرنا اور بس تماشا دیکھتے رہنا بھی ایک ستم ظریفی کو بیان کرتا ہے ۔ پھر دھنپت لال کا اپنے اندر کے اُٹھتے ہوئے طوفان کو ٹھنڈا کرنا اور یہ سب سہنا بھی اس منظر کو دلسوز اور دردناک بنا دیتا ۔
افسانہ ” دشا ” میں برتی گئی سادہ ، عام فہم اور خُوبصورت زُبان دل و دماغ میں ایک معطر اور لطیف تاثر پیدا کرتی ہے کہ جس کےلئے افسانہ نگار پہلے سے ہی معروف اور مشہور ہیں اور ہمہ وقت اپنے ہمعصر انشاء پردازوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔ آپ کی برتی گئی زبان اور طرزِ نگارش ایک ہلکی پھُلکی کہانی کو بھی جاندار اور شاندار بناتی ہے ۔ آپ کی زُبان آپ کی نگارشات میں بلاشبہ ہمہ رُخی رنگ بکھیر دیتی ہے اور آپ کی تحاریر کو ہمہ رنگی بنا دیتی ہے ، جس کےلئے ، مصنف مبارکبادی کا مُستحق ہے اور مزید یہ کہ زیر بحث افسانہ ” دشا ” ایک شاہکار افسانہ ہے اور ایسے ہی دیگر شاہکار افسانوں میں ایک بیش بہا اضافہ ہے جس کےلئے مصنف کو داد و تحسین پیش کی جاتی ہے ۔ اللہ مصنف کے قلم میں اور زور عطا فرمائے ۔ آمین ۔